عمران خان
محکمہ کسٹم کے شعبہ اینٹی اسمگلنگ آرگنائزیشن (اے ایس او) پریونٹو اور ایکسائز موٹر رجسٹریشن ونگ کے کرپٹ افسران، لگژری گاڑیوں کی اسمگلنگ میں ملوث مافیا کے سرپرست بن گئے۔ کسٹم اینٹی اسمگلنگ آرگنائزیشن، نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کی اسمگلنگ ختم کرنے میں ناکام ہوگیا ہے، جبکہ صوبائی محکمہ ایکسائز میں بھی اب تک اسمگل شدہ گاڑیوں کی رجسٹریشن کا عمل بھاری رشوت کے عوض جاری ہے۔ ذرائع کے مطابق محکمہ کسٹم کے افسران سرسری طور پر صوبائی ایکسائز ڈپارٹمنٹ کے موٹر رجسٹریشن ونگ سے ریکارڈ طلب کرتے ہیں۔ جبکہ موٹر رجسٹریشن ونگ کی جانب سے بھی ریکارڈ نہ دینے کو وطیرہ بنا لیا گیا ہے۔ اسی طرح سے دو طرفہ تعاون کے ذریعے نان کسٹم پیڈ لگژری گاڑیوں کے دھندے میں ملوث مافیا سرگرم ہے۔ محکمہ کسٹم پریونٹو کے تفتیشی افسر اور ادارے کے افسران کی نااہلی کے نتیجے میں نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کی رجسٹریشن کا ریکارڈ مقدمات کی تفتیشی فائلوں میں شامل نہیں ہو پا رہا۔ اس کی وجہ سے نہ صرف اسمگل شدہ گاڑیوں کے دھندے میں ملوث مافیاکے کارندے بے نقاب نہیں ہو پا رہے، بلکہ حکومتی خزانے کو ٹیکس اور ڈیوٹی کی مد میں کروڑوں روپے ماہانہ کا نقصان پہنچ رہا ہے۔
اہم ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ گزشتہ ہفتے کسٹم اینٹی اسمگلنگ آرگنائزیشن پریونٹو کی جانب سے اسمگل شدہ لگژری گاڑیوں کے حوالے سے چار مقدمات درج کئے گئے ہیں، جن میں شہر کے مختلف علاقوں میں چھاپے مار کر گاڑیاں تحویل میں لی گئیں اور ان کی فارنسک رپورٹ آنے کے بعد ملزمان کے خلاف مقدمات درج کئے گئے۔ تاہم اینٹی اسمگلنگ آرگنائزیشن پریونٹو کے افسران کی نااہلی کی وجہ سے ان گاڑیوں کی اسمگلنگ اور رجسٹریشن میں ملوث اصل ملزمان کا کوئی سراغ نہیں لگایا جاسکا۔ صرف ڈرائیوروں کو نامزد کر کے جان چھڑا لی گئی۔ ذرائع کے بقول اس سے قبل بھی درج ہونے والے مقدمات میں اسی انداز میں تفتیش کو چلایا جاتا رہا ہے ۔حاصل ہونے والی دستاویزات کے مطابق کسٹم اینٹی اسمگلنگ آرگنائزیشن پریونٹو کی ٹیم کی جانب سے 15 جولائی 2018ء کو کلفٹن کے علاقے میں چھاپہ مار کر لگژری گاڑی ٹویوٹا ہائی لکس صرف کو ضبط کیا گیا جس پر BF-2202 کی رجسٹریشن پلیٹ لگی ہوئی تھی۔ عبداللہ شاہ غازی کے مزار کے قریب سے پکڑی گئی اس گاڑی میں سوار شخص سے جب شناخت طلب کی گئی تو اس نے اپنا تعارف تقدیر علی ولد خدا بخش کے نام سے کرایا اور بتایا کہ وہ ہائی کورٹ کا وکیل ہے اور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کا ممبر بھی ہے۔ جب اس سے گاڑی کے کاغذات طلب کئے گئے تو وہ اس گاڑی کی خریداری، امپورٹ اور رجسٹریشن سے متعلق کسی قسم کے کاغذات پیش کرنے میں ناکام رہا جس پر کسٹم کی ٹیم اس گاڑی کو ضبط کر کے کسٹم اے ایس او کے ہیڈ کوارٹر لے گئی۔ وہاں اس کی تفصیلی جانچ پڑتال کی گئی جس میں معلوم ہوا کہ مذکورہ گاڑی کا اصل چیسس نمبر LN130-0070290 تھا۔ دستاویزات کے مطابق اس گاڑی کی فارنسک رپورٹ آنے پر معلوم ہوا کہ گاڑی کے چیسس کے حصے پر کیمیکل لگاکر رگڑائی کی گئی تھی تاکہ اصل ریکارڈ کو مٹایا جاسکے جبکہ مذکورہ چیسس نمبر سے کسٹم کے پرال سسٹم سے معلوم کیا گیا تو اس گاڑی کی امپورٹ کا کوئی ریکارڈ بھی سامنے نہیں آسکا جس سے معلوم ہوا کہ مذکورہ گاڑی اسمگل ہو کر شہر میں لائی گئی تھی۔ کسٹم حکام کی جانب سے اس گاڑی کی قیمت کا اندازہ 15 لاکھ روپے لگایا گیا، جبکہ اس پر لاگو ہونے والے ڈیوٹی اور ٹیکس کا تخمینہ 16 لاکھ روپے لگایا گیا۔ تاہم اس ضمن میں درج ہونے والے مقدمہ الزام نمبر ASO-209-2018-HQ میں کسٹم پریونٹو آفیسر امیر حیدر نے واضح طور پر لکھا ہے کہ جب اس گاڑی کے حوالے سے ایکسائز موٹر رجسٹریشن اتھارٹی سے ریکارڈ طلب کیا گیا تو ان کی جانب سے روایتی طور پر کسی قسم کا رسپونس موصول نہیں ہوا۔ اس کے بعد ایکسائز کے آن لائن ریکارڈ سے چیک کیا گیا تو کوئی ریکارڈ سامنے نہیں آیا۔ یہاں پر یہ بات قابل ذکر ہے کہ ایکسائز موٹر رجسٹریشن کا آن لائن ریکارڈ، ادارے کی ویب سائٹ پر ہر شہری چیک کرسکتا ہے۔ تاہم اس میں محدود انفارمیشن دی جاتی ہے جس میں گاڑی کے مالک کا نام اور گاڑی کا ماڈل اور کلر کا ریکارڈ ہی موجود ہوتا ہے جو کسٹم کیلئے کسی کام کا نہیں اور نہ ہی اس ریکارڈ کو عدالت میں بطور ثبوت پیش کیا جاسکتا ہے۔ کیونکہ عدالت میں ایکسائز موٹر رجسٹریشن اتھارٹی کے افسران کی جانب سے سرکاری طور پر جاری کردہ مصدقہ ریکارڈ ہی قابل قبول ہوتا ہے۔ اسی طرح سے کسٹم پریونٹو آفیسر طیب خان کی جانب سے درج کی گئی ایف آئی آر نمبر ASO-211-2018-HQ سے معلوم ہوا ہے کہ 16 جولائی 2018ء کو کسٹم ٹیم نے بلدیہ ٹائون سعید آباد کے علاقے میں حب ریور روڈ پر چھاپہ مار کر لگژری گاڑی ٹویوٹا مارک ایکس پکڑی جس پر BBC-301 نمبر کی رجسٹریشن پلیٹ لگی ہوئی تھی۔ کسٹم ٹیم نے اس گاڑی میں موجود ڈرائیور غلام محمد ولد اکبر علی کو حراست میں لیا اور اس سے گاڑی کی امپورٹ، خریداری اور رجسٹریشن کے کاغذات طلب کئے جس پر ڈرائیور نے ایکسائز موٹر رجسٹریشن اتھارٹی کا ایک رجسٹریشن سرٹیفیکیٹ پیش کیا جس کا بک نمبر B0029810 تھا۔ اس کے مطابق گاڑی کی رجسٹریشن نیو گلشن اقبال فیز تھری کے رہائشی منظور احمد ولد حاجی نصیر شاہ کے نام تھی۔ تاہم جب اس گاڑی کو کسٹم اے ایس او کے ہیڈ کوارٹر لے جانے کے بعد فارنسک رپورٹ منگوائی گئی تو معلوم ہونے والے چیسس اور انجن نمبر کا کسٹم کے امپورٹ کے ریکارڈ میں کوئی ڈیٹا نہیں ملا۔ اس کے بعد اسے اسمگل شدہ قرار دیا گیا، تاہم اس مقدمے میں بھی کسٹم افسر طیب خا ن کی جانب سے لکھا گیا ہے کہ جب گاڑی کی رجسٹریشن کے حوالے سے ایکسائز موٹر رجسٹریشن اتھارٹی سے ریکارڈ مانگا گیا تو حسب روایت وہاں سے کوئی رسپانس نہیں دیا گیا۔ اس گاڑی کی قیمت اور لاگو ہونے والے ٹیکس اور ڈیوٹی کا اندازہ 25 لاکھ روپے لگایا گیا۔ اس ضمن میں کسٹم کے ایک سینئر افسر نے ’’امت‘‘ کو بتایا ہے کہ محکمہ کسٹم کے افسران ہر صورت میں صوبائی محکمہ ایکسائز سے رجسٹریشن کا ریکارڈ حاصل کرنے کے پابند ہیں۔ اگر ایکسائز کے افسران ریکارڈ نہ دیں تو اس صورت میں کسٹم افسران کے پاس اختیارات ہیں کہ وہ قانون کے تحت ریکارڈ حاصل کرسکتے ہیں۔ تاہم دونوں اداروں میں موجود کالی بھیڑوں نے مل کر ایسی حکمت عملی بنالی ہے جس میں تحقیقات کو محدود کرنے اور اصل ملزمان تک اس کا دائرہ وسیع ہونے سے روکنے کیلئے نیٹ ورک قائم کرلیا گیا ہے۔
اسی طرح کسٹم پریونٹو افسر امیر خان کی جانب سے درج کئے جانے والے مقدمہ نمبر ASO-234/2018/HQ سے معلوم ہوا ہے کہ یکم اگست 2018ء کو شیر شاہ کے علاقے میں چھاپہ مار کر لگژری گاڑی ٹویوٹا پریمیو سیلون کار پکڑی گئی جس پر AXE-317 نمبر کی رجسٹریشن پلیٹ لگی ہوئی تھی۔ اس گاڑی کو چلانے والے گلشن اقبال ارم بنگلوز مکان نمبر 225-A کے رہائشی منیر ولد شاہ محمد سے کاغذات طلب کئے گئے تو اس نے ایکسائز موٹر رجسٹریشن ونگ کی بک نمبر B0025882 پیش کی، جس کے مطابق یہ رجسٹریشن عبدالحیدر ولد محمد فاروق کے نام تھی۔ تاہم بعد ازاں اس گاڑی کی فارنسک رپورٹ سے جو چیسس نمبر سامنے آیا، اس کا کسٹم کے پرال سسٹم میں امپورٹ کا کوئی ریکارڈ نہیں مل سکا جس پر اس کو اسمگل شدہ قرار دیا گیا۔ مذکورہ گاڑی کی قیمت اور ٹیکس اور ڈیوٹی کا تخمینہ 60 لاکھ روپے لگاکر مقدمہ درج کیا گیا۔ تاہم حیرت انگیز طور پر نہ تو اس گاڑی کو رجسٹر ڈ کرنے والے ایکسائز کے ملوث افسران کو نامزد کیا، گیا اور نہ ہی موقع سے ملزم کو گرفتار کیا گیا۔ اس ضمن میں ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ کسٹم پریونٹو کے افسران اضافی آمدنی کے حصول کیلئے موقع پر حراست میں لئے گئے شہریوں کو فرار ہونے کا موقع فراہم کرتے ہیں اور بعد میں انہیں مقدمے میں مفرور ظاہر کردیا جاتا ہے۔