کابل ( مانیٹرنگ ڈیسک )مغربی میڈیانے کہا ہے کہ حالیہ افغان جنگ میں امریکہ اورنیٹو کیخلاف غیرمعمولی کارروائیاں حقانی نیٹ ورک نے کیں اورغیرملکی افواج کوناقابل تلافی نقصان پہنچایا،سوویت یونین کے بعد امریکی فوج کی عظیم الشان جنگی مشینری پر کاری ضرب لگانے کاسہرااسی گروہ کے سرباندھاجاتاہے۔برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق جلال الدین حقانی افغانستان کے جنگجوؤں میں ممتاز اہمیت کے حامل رہے ہیں جن کی طالبان اور القاعدہ دونوں سے قربت تھی۔انھوں نے القاعدہ کے بانی اسامہ بن لادن کو سنہ 1990 کی دہائی میں تربیتی کیمپ قائم کرنے میں تعاون کیا تھا۔11 ستمبر 2001 کے حملے کے بعد حقانی نے اپنے نیٹ ورک کی کمان اپنے بیٹے کو سونپ دی تھی۔مریکہ حقانی نیٹ ورک پر کئی بڑے بڑے حملے کرنے کا الزام عائد کرتا ہے۔افغانستان میں نیٹو اور افغان افواج پر حملوں، کابل سمیت مختلف علاقوں میں شدت پسند واقعات کا الزام حقانی نیٹ ورک پر عائد کیا جاتا رہا ہے۔حقانی نیٹ ورک افغانستان کے شمال مشرقی صوبوں کنڑ اور ننگرہار اور جنوب میں زابل، قندھار اور ہلمند میں مضبوط گروپ کے طور پر پہچانا جاتا ہے۔جلال الدین حقانی کا تعلق افغانستان کے صوبہ پکتیکا سے تھا اور انھوں نے 1980 کی دہائی میں شمالی وزیرستان سے سابقہ سویت یونین کے افغانستان میں قبضے کے دوران منظم کارروائیاں کیں۔حقانی نیٹ ورک کے بانی جلال الدین حقانی 2001 کے آخر میں اسلام آباد کے آخری سرکاری دورے پر آنے والے رہنماؤں میں سے ایک تھے۔یہ وہی وقت تھا جب امریکہ نے افغانستان میں طالبان کی حکومت کے خلاف جنگ شروع کی تھی۔اس کے بعد حقانی روپوش ہو گئے اور کئی مہینوں کے بعد پاکستان کے قبائلی علاقے وزیرستان میں سامنے آئے جہاں انہوں نے مغربی طاقتوں کے خلاف شدت پسندوں پر مشتمل ایک مزاحتمی گروپ تشکیل دیا۔اس کے بعد سے اس گروپ نے جتنا نقصان مغربی افواج کو پہنچایا کسی اور گروپ نے نہیں پہنچایا۔ اس گروپ کے القاعدہ اور طالبان کے ساتھ گہرے تعلقات ہیں۔امریکی نشریاتی ادارے نے انہیں افغان جنگ اور مسلح مزاحمت کا اہم کردارقراردیتے ہوئے لکھاہے کہ امریکہ اور دیگر مغربی ملکوں کے مطابق حقانی نیٹ ورک کے جنگجوئوں کا شمار طالبان کے ماہر اور مؤثر ترین جنگجووں میں ہوتا ہے جو 2001ء میں افغانستان پر امریکی حملے کے بعد سے وہاں ہونے والے بعض نمایاں ترین ہلاکت خیز حملوں اور کارروائیوں میں ملوث رہے ہیں۔حقانی کی علالت کے باعث گزشتہ کئی برسوں سے ‘حقانی نیٹ ورک’ کی سربراہی ان کے بیٹے سراج الدین حقانی کے پاس ہے جو افغان طالبان کے نائب سربراہ بھی ہیں۔ لہذا امکان ہے کہ جلال الدین حقانی کے انتقال سے ان کے حامی جنگجووں کی تنظیم اور کارروائیوں پر کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا۔ڈوئچے ویلے کے مطابق اس گروپ نے روسی افواج کے خلاف گوریلا حملوں کی وجہ سے شہرت حاصل کی تھی اور یہی حملے اس کی بنیادی پہچان تھی۔