قسط نمبر: 215
اردو ادب میں اچھے نادلوں کی تعداد انگلیوں پر گنی جاسکتی ہے۔ خاص طور پر ایسے ناول بہت کمیاب ہیں، جو کسی ایک یا زیادہ حقیقی واقعات کو بنیاد بنا کر لکھے گئے ہوں۔ انگریزی ادب میں FACT اور Fiction کو ملا کر FACTION کی نئی طرز ایجاد کی گئی۔ جس میں حقیقت اور فسانہ اس طرح گھلے ملے ہوتے ہیں، جیسے پانی سے بھرے گلاس میں برف کی ڈلی۔ تاہم اردو ادب میں اب ایک ایسا ناول ضرور موجود ہے، جو ایسے معیارات پر پورا اترتا ہے اور دنیا بھر کے قارئین کے لئے پیش کیا جا سکتا ہے۔ ’’کئی چاند تھے سر آسمان‘‘ شمس الرحمان فاروقی کے بے مثال قلم کا شاہکار ہے۔ ایک سچی کہانی۔ جس کے گرد فسانے کا تانا بانا بُنا گیا ہے۔ یہ اس زوال یافتہ معاشرے کی کہانی ہے جب بہادر شاہ ظفر زندہ تھے۔ اور تیموری خاندان کی بادشاہت آخری سانس لے رہی تھی۔ اس دور کی دلی اور گردو نواح کے واقعات۔ سازشیں۔ مجلسیں۔ زبان و ادب۔ عورتوں کی بولیاں ٹھولیاں اور طرز معاشرت سب آنکھوں کے سامنے پھر جاتا ہے۔ قارئین کے ادبی ذوق کی آبیاری کے لئے ’’امت‘‘ اس ناول کے اہم حصے پیش کر رہا ہے۔ یہ ناول ہندوستان اور پاکستان میں بیک وقت شائع ہوا تھا۔ مصنف شمس الرحمان فاروقی ہندوستان میں رہتے ہیں۔ وہ ایک بڑے نقاد، شاعر اور بے مثال ناول نگار کی شہرت رکھتے ہیں۔ (ادارہ)
نواب مرزا نے اپنی ماں سے صاحب عالم مرزا فتح الملک بہادر کا ذکر کیا تھا، نہ اب ضیاء الدین احمد خان کا ذکر کیا۔ لیکن اسے فکر دامن گیر رہی کہ آیا ان لوگوں کی طرف میری ماں کے میلان میں فی الاصل کچھ ہے بھی کہ نہیں۔ اور اگر ہے، تو میرا اس کے بارے میں استیجاب کیا ہو؟ لیکن پہلے مجھے اماں جان کو کچھ اشارہ تو کر دینا چاہئے۔ کہیں کوئی بات اچانک ہوگئی تو اماں جان کے قلب پر برا اثر پڑ سکتا ہے۔ دوسری مشکل یہ تھی کہ بات کو کس نہج سے اماں کے سامنے رکھوں کہ گستاخی نہ معلوم ہو۔ ادھر یہ پریشانی بھی تھی کہ بتانے میں دیر کرنا ٹھیک نہیں۔ صاحب عالم کی طرف سے تو شاید کوئی محتاط قسم کی سلسلہ جنبانی ہوتی، لیکن ضیاء الدین احمد سے تو ایک طرح کی قرابت بھی تھی۔ وہ شاید تکلف کو بالائے طاق رکھ کر خود آ ہی جاتے۔ نواب مرزا اپنے دل میں بے حد آشفتہ تھا کہ آخر میری ماں کو ان لوگوں نے کیا سمجھ رکھا ہے؟ لیکن اسے دنیا کے طور طریقوں سے تھوڑی بہت آگاہی تو تھی ہی کہ دنیا اہل اقتدار کے آگے خود بخود جھکتی تھی اور کمزوروں، بالخصوص عورتوں کو وہ کبھی معاف نہ کرتی تھی۔ اسے معلوم تھا کہ اس کی والدہ ان عورتوں میں سے تھی، جن کی اپنی تاریخ ہوتی ہے۔ اپنا ماضی ہوتا ہے۔ اور ایسی عورتوں کو دنیا ہمیشہ شک، خوف اور توقع بھری نظروں سے دیکھتی آئی تھی۔ یہ کوئی نیا عقیدہ نہ تھا کہ ایسی عورت گمراہ ہے اور ہر مرد کو اس کا ہاتھ پکڑنے کا حق ہے۔
یہ سب سوچ سمجھ کر نواب مرزا نے اپنی ماں کو مختصراً دونوں ملاقاتوں کا حال بتا دیا۔ وزیر خانم چپ سنتی رہی۔ اسے مرد کی نہیں، سہارے کی ضرورت تھی۔ لیکن اس بازار میں سہارا اور مرد دونوں ایک ہی جنس تھے۔ آغا مرزا تراب علی سے اسے محبت شاید نہ تھی، لیکن وہ مرحوم اسے بھلے ضرور لگتے تھے۔ اور… اس کی شرط تو یہی تھی کہ میں پسند کروں گی… پر یہ سب آخر کب تک چل سکے گا؟
اس گفتگو کے دو ہی دن بعد ایک معمر لیکن تنومند چوبدار نے وزیر خانم کے گھر کی سیڑھیوں پر آواز دی: ’’نواب ضیاء الدین احمد خان بہادر تشریف لائے ہیں‘‘۔
حبیبہ نے یہ خبر وزیر تک پہنچائی۔ حسن اتفاق سے نواب مرزا بھی موجود تھا۔ اس نے جلد نچلی منزل پر اتر کر وہاں کا دیوان خانہ درست کیا۔ اب تک اس کے دوست ہی اکا دکا آجاتے تو دیوان خانہ کام میں آتا تھا۔ جلدی میں جو کچھ ہو سکا، صاف ستھرا بنا کر اس نے جانی رام سے کہا کہ جا نواب صاحب کو باعزت پالکی سے اتار کر دیوان خانہ میں بٹھا کر پان اور بھنڈا پیش کیجیو اور کہیو کہ نواب مرزا صاحب ابھی حاضر ہوتے ہیں۔
ضیاء الدین احمد خان نے حسب معمول سفید لباس زیب تن کیا تھا، لیکن آج اہتمام کچھ زیادہ تھا۔ سر پر ٹوپی کے بجائے سفید ریشمی دستار تھی، جس پر جنگلی مرغ کے سرخ کبود پروں کا طرہ لگا ہوا تھا۔ بازوؤں پر جڑاؤ جوشن، کمر میں زر نگار پٹکا، چاندی کا طمنچہ اس سے آویزاں، سفید ہرن کی کھال کی مغل طرز کی جوتیاں جن پر ننھے ننھے سنہرے پکھراج ٹکے ہوئے تھے۔ جوانی کے دن، چھریرا بدن، کشیدہ قامت، چہرے پر علم اور نجابت کا نور۔ ضیاء الدین احمد خان ایک تو خود ہی خوش رو شخص تھے، اس پر ایسے سادہ اور ایسے پرکار لباس نے سونے پر سہاگہ کر دیا تھا۔ ان کے پیچھے پیچھے ایک چوبدار بڑی سی سینی میں ڈالی لئے ہوئے آیا اور اسے جانی رام کے ہاتھ میں دے کر نیچے اتر گیا۔ اسی دم نواب مرزا اندر داخل ہوا۔
نواب مرزا کو اندر آتے دیکھ کر ضیاء الدین احمد خان اپنی جگہ سے نیم قد اٹھے، دونوں کے ہاتھ تسلیم کے لئے ایک ساتھ بلند ہوئے۔ ’’بندگی عرض کرتا ہوں، بڑی مسرت ہے آپ تشریف لائے‘‘۔ یہ کہتا ہوا نواب مرزا اپنے سوتیلے چچا ضیاء الدین احمد خان کے سامنے دو زانو ہوکر بیٹھ گیا۔ ’’بھنڈا ملاحظہ فرمائیں، حکم ہو تو شربت حاضر کیا جائے‘‘۔
’’نہ، نہ۔ صاحب زادے کچھ زحمت نہ کریں۔ دیدا و دید ہی سب کچھ ہے‘‘۔
چند ثانیوں کے لئے خاموشی رہی۔ نواب مرزا کے پاس کہنے کو کچھ تھا نہیں، اور ضیاء الدین احمد کو مناسب لفظ نہ مل رہے تھے۔ باب سخن کھولنے کی غرض سے بالآخر انہوں نے کہا ’’آپ کے اشعار تو خوب سے خوب تر ہو رہے ہیں، ہر طرف آپ کے تذکرے ہیں‘‘۔
’’جناب کی خورد نوازی اور قدر افزائی ہے، ورنہ بندہ ابھی طفل مکتب سے زیادہ نہیں۔ یہ توقع البتہ رکھتا ہے کہ آپ جیسے کاملین کی توجہ سے کچھ بن سکے گا‘‘۔
وہ کہنے کو تو یہ کہہ گیا، لیکن نواب مرزا کو فوراً خیال آیا کہ اس کے معنی کچھ اور بھی نکالے جا سکتے ہیں۔ اسے اپنی ناکردہ کاری اور حمق پر افسوس ہوا کہ جہاندیدہ اور سرد و گرم زمانہ چشیدہ ہوتا، یا فلسفہ اور منطق کی باریک رگوں کے خم و پیچ سے باخبری حاصل کی ہوتی تو ایسی بات کبھی نہ کہتا۔ لیکن اب تو تیر از کماں جستہ تھا۔ خیریت اسی میں تھی کہ مزید کچھ نہ کہا جائے۔ ادھر ضیاء الدین احمد خان بھی تذبذب میں پڑے کہ نواب مرزا کے قول میں جو مضمرات ہیں وہ بر بنائے سادہ لوحی ہیں یا بالارادہ ہیں۔ احتیاط کا تقاضا اسی میں دیکھ کر کہ جب تک کوئی اور حتمی اشارہ نہ ملے اس باب میں سکوت ہی بہتر ہے، انہوں نے بات کا رخ فوراً بدل دیا: ’’بے شک، استاد کامل نصیب ہوجائے تو یہ راہیں آسان ہوجاتی ہیں۔ آپ کس سے مشورۂ سخن کرتے ہیں؟‘‘۔
’’جی ابھی تک تو کسی کو کلام دکھایا نہیں ہے۔ حقیقت نفس الامری یہ ہے کہ میں خود کو کسی بڑے استاد کی تربیت کا اہل نہیں سمجھتا‘‘۔
’’کیوں، بھلا یہ کیا بات ہوئی‘‘۔ ضیاء الدین احمد نے مسکرا کر کہا۔ ’’جہاں تک فہم میری میں آتا ہے، آپ کو تو کوئی بھی استاد خوشی سے قبول کرلے گا‘‘۔
اس بار بات کہہ کر ضیاء الدین احمد خان کو دل میں تھوڑی سی ندامت ہوئی۔ کہیں نواب مرزا یہ گمان نہ کرلیں کہ میں انہیں اپنی یا مرزا غالب صاحب کی شاگردی میں لینا چاہتا ہوں۔ مرزا غالب نے ضیاء الدین احمد کو اپنا خلیفہ قرار دیا تھا اور اگرچہ خود ضیاء الدین احمد نے ہنوز کسی کو شاگرد نہ بنایا تھا، لیکن آئندہ تو ممکن تھا ہی۔ ضیاء الدین احمد نے دل ہی دل میں خود پر نفرین کی۔ لیکن جب اصل مطلب کی گفتگو ممکن نہ ہو رہی ہو تو انسان خاموشی کا خلا بھرنے کے لئے ادھر ادھر کی باتیں بکنے ہی لگتا ہے۔ ضیاء الدین احمد نے پیچوان منہ سے لگایا، تمباکو بہت تازہ تھا، لیکن حقے کی فرشی کچھ گرد آلود سی تھی۔ شاید بھنڈے کا شوق یہاں کسی کو نہیں ہے۔ وہ تمباکو کی ثنا میں ایک آدھ بات کہنے والے تھے کہ انہیں خیال آیا، یہ بھی خاموشی کو پاٹنے کی بے اثر سی کوشش ہے، اس کا ہنجار بھلا کیا نکلے گا۔ چپ رہنا ہی بہتر ہے۔ اور یوں بھی اس وقت باری نواب مرزا کی تھی۔
’’جناب کا کرم ہے کہ مجھ ناقص کو اس قابل سمجھتے ہیں۔ لیکن بلا شک مجھے کسی اچھے اور شفیق استاد سے بہت منفعت حاصل ہوگی۔ دلی تو اس وقت شاعر نو پر کے لئے امکانات بے پایاں رکھتی ہے۔ حضرت غالب یہاں کے اساتذہ عظام میں سرفہرست ہیں‘‘۔
’’بے شک جناب مرزا صاحب کی نظر کیمیا اثر نے جانے کتنوں کو مس خام سے کندن بنا دیا‘‘۔ (جاری ہے)