دوسری و آخری قسط
محمد قیصر چوہان
سابق مسٹر ایشیا یحییٰ بٹ اپنی داستان حیات سناتے ہوئے کہتے ہیں… ’’جب میں مسٹر پاکستان بنا تو جنرل موسیٰ نے مجھے ٹرافی اور بیلٹ دی تھی۔ اس کے بعد پشاور میں قائداعظم ٹرافی جیتی۔ پھر 1985ء میں ہی مسٹر پنجاب یونیورسٹی کا مقابلہ تھا تو میرے ڈی پی چوہدری شریف صاحب نے مجھے بلا کر ایونٹ میں حصہ لینے کو کہا۔ لیکن میں نے انکار کر دیا۔ قبل ازیں میں تین مرتبہ مسٹر پنجاب یونیورسٹی کا ٹائٹل جیت چکا تھا۔ الیاس خان صاحب ہمارے ٹیچر تھے۔ انہوں نے مجھے پاس بلا کر پوچھا کہ مسٹر یونیورسل کوئی برف اور تیل فروخت کرنے والا یا پھر کوئی روٹیاں لگانے والا ہو سکتا ہے۔ تو میں نے جواب دیا جی ہاں بن سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کیا مسٹر پنجاب یونیورسٹی کوئی عام آدمی بن سکتا ہے۔ میں نے جواب دیا کہ نہیں۔ تو پھر وہ بولے کہ بیٹا یہ وقت گزر جائے گا تو دوبارہ لوٹ کر نہیں آئے گا۔ لہٰذا تم کو مسٹر پنجاب یونیورسٹی میں شرکت ضرور کرنی چاہیے، کیونکہ اس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ لڑکا گریجویٹ ہے۔ ان کے سمجھانے پر میں ڈی پی چوہدری شریف صاحب کے پاس گیا اور کہا کہ سر، میں نے مسٹر پنجاب یونیورسٹی کے مقابلے میں حصہ لینا ہے۔ مگر انہوں نے کہا کہ ہم لڑکوں کے نام بھجوا چکے ہیں۔ میں نے ان کی کافی منت سماجت کی تو وہ راضی ہو گئے اور یوں ایک مرتبہ پھر میں نے مسٹر پنجاب یونیورسٹی کا ٹائٹل جیتا۔ اس کے بعد پاکستان باڈی بلڈنگ فیڈریشن کی گندی سیاست سے دل برداشتہ ہوکر باڈی بلڈنگ ترک کر دی۔ تقریباً 2 برس تک اس کھیل سے دور رہا۔ میں پاکستان کا کلر پہن کر بیرون ملک ٹورز محض سیر و تفریح کیلئے نہیں کرنا چاہتا تھا۔ میری خواہش تھی کہ پاکستان کیلئے میڈل حاصل کروں تاکہ عالمی سطح پر ملک کا نام روشن ہو۔ میں نے باڈی بلڈنگ چھوڑنے کے بعد لمبے لمبے بال رکھ لئے۔ میں دن بھر اپنے کوچ اعظم باجوہ صاحب کے ساتھ رہتا۔ 1988ء میں روزنامہ مشرق اخبار میں گولڈ جم کا اشتہار پڑھا تو میں ایوان مشرق بلڈنگ چلا گیا۔ میں نے گولڈ جم کی کافی لوگوں سے تعریف سنی تھی۔ کینیڈا سے تعلق رکھنے والے وارنگ لونگ مین جو آسٹریلیا میں رہائش پذیر تھے، نے گولڈ جم کو فروخت کیا تھا اور یہ جم سرور رسول صاحب نے خریدا تھا۔ وارنگ لونگ مین انٹرنیشنل فیڈریشن باڈی بلڈنگ کے ایشین ریجن کیلئے نائب صدر بھی تھے۔ ان سے میرا تعارف ہوا تو انہوں نے میرا جسم دیکھنے کے بعد مجھے کہا کہ ’’ینگ مین‘‘ آپ مقابلے کیوں نہیں لڑتے۔ میں نے ان کو بتایا کہ سر، میں باڈی بلڈر تھا۔ جونیئر مسٹر ایشیا اور مسٹر پاکستان کا ٹائٹل جیت چکا ہوں۔ لیکن پاکستان میں سیاست زیادہ ہے، کوچنگ کرنے والا کوئی نہیں۔ تو انہوں نے کہا کہ اگر میں تمہاری کوچنگ کروں تو کیا تم پھر سے باڈی بلڈنگ شروع کر دو گے؟ میں نے کہا کہ اگر آپ میری کوچنگ کریں گے تو میں ضرور پھر سے باڈی بلڈنگ شروع کر دوں گا۔ اس کے بعد میں نے گولڈ جم جوائن کرلیا۔ وہاں میری ملاقات سرور رسول صاحب سے ہوئی، جنہوں نے وہ جم خریدا تھا۔ وہ باڈی بلڈنگ سے بڑی محبت کرتے تھے۔ پاکستان کی تاریخ میں گولڈ جم واحد پروفیشنل جم تھا جس میں تمام تر سہولیات عالمی معیار کے مطابق تھیں۔ گولڈ جم نے پاکستان باڈی بلڈنگ کی تاریخ میں ایک انقلاب برپا کر دیا تھا۔ ایک دن میری سرور رسول صاحب سے جی سی کالج میں ملاقات ہوئی تو انہوں نے مجھے گولڈ جم میں بطور کوچ سات ہزار روپے ماہوار تنخواہ پر رکھ لیا۔ میں نے خود بھی وہاں ٹریننگ شروع کر دی۔ میری کوچنگ وارنگ لونگ مین نے کی۔ انہوں نے مجھے کافی ٹپس دیں، جن پر عمل کرنے سے میرے جسم میں خوبصوررتی پیدا ہوئی۔ تین ماہ بعد سرور رسول صاحب نے 7 مرتبہ مسٹر آسٹریلیا کا ٹائٹل جیتنے والے جرکی سیولینین کو پاکستان میری کوچنگ کیلئے بلا لیا۔ میں نے زندگی میں اس سے اچھا باڈی بلڈر نہیں دیکھا تھا۔ اس نے تین ماہ تک میری کوچنگ کی۔ اس کے ساتھ ٹریننگ کر کے مجھے بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔ میری باڈی میں جو بنیادی تبدیلیاں آئیں وہ اسی کی کوچنگ ٹپس پر عمل کرنے سے آئیں۔ اس نے مجھے پہلی مرتبہ خوراک کے استعمال کے بارے میں بتایا کہ کون سے وٹامنز اور پروٹین کس ایکسرسائز کے بعد کب لینی ہیں۔ جرکی کے وطن جانے کے بعد سرور رسول صاحب نے آسٹریلیا سے ہی ایک اور کوچ ڈان اسٹیڈمین کو پاکستان میری کوچنگ کیلئے بلایا۔ ان کے ساتھ تقریباً 2 ماہ تک ٹریننگ کی۔ انہوں نے مجھے خوراک کے حوالے سے ایک ڈائٹ پلان بنا کر دیا۔ اس میں 20 انڈوں کی سفیدی ناشتے میں کھاتا تھا۔ ایک گلاس پائن ایپل جوس کا پیتا تھا۔ اس کے بعد میں روزانہ 4 کلو بڑا گوشت کھاتا تھا۔ 1988ء میں میری روزانہ کی خوراک پر تقریباً 1500 روپے کا خرچ آتا تھا۔ مجھے یاد ہے ان دنوں والد صاحب نے گھر میں والدہ سے کہا تھا کہ ہم سب دال روٹی کھا کر گزارا کر لیں گے، لیکن یحییٰ کو ہر صورت روزانہ چار کلو بڑا گوشت فراہم کرنا ہے۔ مجھے مسٹر ایشیا بنانے میں میرے والدین، بھائیوں، بہنوں، قریبی دوستوں نے بڑی قربانی دی۔
1989ء میں جاپان میں منعقد ہونے والے مسٹر ایشیا ایونٹ کیلئے گیا۔ اس ایونٹ میں 85 کلو گرام کلاس میں برانز میڈل جیتا۔ جبکہ پوزنگ میں بھی برائونز میڈل حاصل کر کے پاکستان کا نام روشن کیا۔ اسی برس فرانس میں ورلڈ باڈی بلڈنگ چمپئن شپ منعقد ہوئی۔ اس میں شرکت کیلئے میں ذہنی طور پر تیار نہ تھا۔ ویسے بھی جن دنوں یہ چیمپئن شپ آئی وہ میرے باڈی کو آرام دینے کے دن تھے۔ لیکن فرانس میں چوہدری امین، جو پاکستان باڈی بلڈنگ فیڈریشن کے سیکریٹری تھے اور آئی ایف بی بی کے لائف ٹائم صدر تھے، کو ان کی خدمات پر میڈل دینے کی تقریب تھی۔ لیکن چوہدری امین صاحب فرانس میں میڈل لینے کیلئے کسی پلیئر کے ساتھ بطور منیجر ہی جا سکتے تھے، تو انہوں نے مجھے بلایا اور کہا کہ آپ میرے ساتھ فرانس جائو گے، تو اس طرح میں ورلڈ باڈی بلڈنگ چمپئن شپ میں شرکت کیلئے فرانس گیا۔ وہاں پر میری ملاقات اردن کے نمبر ون باڈی بلڈر محمد مصطفی سے ہوئی۔ پھر ان سے دوستی ہوگئی۔ اس ایونٹ میں شرکت کے بعد میں نے سوچا کہ اس قسم کے میگا ایونٹ میں پاکستان کیلئے گولڈ میڈل جیتنا تقریباً نا ممکن ہے، کیونکہ ہمارے پاس وہ ٹریننگ اور کوچنگ کی سہولتیں نہیں جو دیگر ممالک کے پاس ہیں۔ پھر یورپینز نے باڈی بلڈنگ میں پی ایچ ڈی کی ہوئی ہے۔ ان کی ریسرچ بہت زیادہ ہے۔ 1990ء میں ملائیشیا میں ایشین باڈی بلڈنگ چمپئن شپ تھی۔ اس ایونٹ میں قیصر پرویز، میں (یحییٰ بٹ)، مجاہد، ڈاکٹر جاوید کے علاوہ جونیئر میں طارق منظور او رفاقت تھے۔ یہ پاکستان کی تاریخ کا پہلا موقع تھا کہ چار گولڈ میڈل حاصل کئے۔ میں نے 85 کلو گرام کی کلاس میں 2 گولڈ میڈل حاصل کئے تھے۔ جونیئر میں رفاقت اور طارق منظور نے گولڈ میڈلز جیتے۔ 4 گولڈ میڈل پاکستان لانے کا تمام تر کریڈٹ گولڈ جم کے مالک سرور رسول صاحب کو جاتا تھا، کیونکہ گولڈ میڈل جیتنے والے تمام بلڈرز کا تعلق گولڈ جم سے تھا۔ اس ایونٹ کے بعد ملائیشیا کے دارالحکومت کو الالمپور میں ایشین باڈی بلڈنگ چمپئن شپ تھی۔ اس میں شرکت کیلئے بھی پاکستان باڈی بلڈنگ ٹیم کو گولڈ جم نے اسپانسر کیا۔ مسٹر ایشیا ایونٹ کے بعد ایشین باڈی بلڈنگ چمپئن شپ کیلئے ہم لوگ اسٹیٹ گیسٹ تھے۔ کوالالمپور میں دوسری ورلڈ چیمپئن شپ تھی۔ میں نے اس ایونٹ میں سلور میڈل حاصل کر کے پاکستان کیلئے تاریخ رقم کی۔ اس چمپئن شپ میں 103 ممالک کے تن سازوں نے شرکت کی تھی۔ اس کے بعد مجھ پر ممنوعہ ادویات کے استعمال کا الزام لگا دیا گیا۔ حالانکہ میں نے زندگی میں کبھی ممنوعہ ادویات استعمال نہیں کیں۔ 1990ء میں ہونے والی ورلڈ چمپئن شپ کی ججمنٹ ایک دن پہلے ہوچکی تھی۔ میں ہوٹل میں ناشتہ کر رہا تھا تو ایشین باڈی بلڈنگ فیڈریشن کے سیکریٹری پال چو میرے پاس آئے اور کہا کہ تم نے ٹرافی اور 2 میڈل حاصل کر لیے ہیں، لہٰذا تم پاکستان واپس جائو، ورنہ ہم تمہارے ساتھ اچھا سلوک نہیں کریں گے۔ میں ناشتہ چھوڑ کر سرور صاحب کے پاس گیا اور ان کو بتایا کہ پال چو مجھے دھمکیاں دے رہا ہے۔ سرور رسول صاحب نے کہا کہ میں رات ڈنر پر بات کروں گا۔ اگلے دن صبح ججمنٹ تھی۔ اس کے بعد پال چو نے ایک پریس کانفرنس کی اور کہا کہ جن لڑکوں سے ہم نے ایشیا کیلئے ٹرائلز لئے تھے، ان میں سے جن لڑکوں کا ڈوپ ٹیسٹ مثبت آیا ہے، ان میں پاکستان کے یحییٰ بٹ کا نام بھی شامل ہے۔ لہٰذا ورلڈ باڈی بلڈنگ چمپئن شپ سے مجھے آئوٹ کر دیا گیا ۔ مجھے ایک سازش کے تحت ڈوپنگ میں پھنسایا گیا تھا اور مجھ پر 2 سال کی پابندی لگا دی گئی۔ یوں میرا کیریئر تباہ کر دیا گیا۔ پاکستان باڈی بلڈنگ فیڈریشن، پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن، پاکستان اسپورٹس بورڈ، وزارت کھیل کسی نے بھی میرا ساتھ نہ دیا۔ 2 سال تک باڈی بلڈنگ سے دور کر دیا گیا۔ دسمبر 1992ء میں نیشنل گیمز منعقد ہونا تھیں تو نومبر کے آخر میں مجھے فیڈریشن کے سیکریٹری چوہدری امین صاحب نے بلایا اور کہا کہ آپ کی پابندی کا وقت ختم ہونے والا ہے، لہٰذا آپ نیشنل گیمز کی تیاری کرو، تاکہ کم بیک کر سکو۔ میں نے ایک ماہ میں اپنا بڑھا ہوا وزن کم کیا اور مسٹر پاکستان اولمپیا کا ٹائٹل جیتا۔
1986ء میں ٹیسٹ کرکٹر سرفراز نواز صاحب پنجاب اسپورٹس بورڈ میں تھے، جبکہ میاں نواز شریف صاحب چیئرمین تھے۔ میں نے سر فراز نواز سے ملاقات کی تو انہوں نے پاکستان کسٹمز کو خط لکھا کہ جس طرح آپ نے دوسرے کھیلوں کے لڑکوں کو نوکریاں دی ہیں، اسی طرح یحییٰ بٹ ایک آئوٹ اسٹینڈنگ باڈی بلڈر ہے، لہٰذا اسے بھی نوکری دی جائے۔ اس کے بعد مجھے کسٹمز میں نوکری مل گئی۔ اس کے بعد ایک مرتبہ گورنمنٹ کالج (جی سی) کی سالانہ تقریبات میں بطور مہمان خصوصی میاں نواز شریف صاحب تشریف لائے تو میں نے پاکستان کا کلر پہن رکھا تھا۔ اس وقت میں کلین شیو ہوتا تھا۔ جب میں میاں نواز شریف صاحب سے ڈگری لینے گیا تو انہوں نے میرا بازو پکڑ لیا اور پوچھا کہ کیا آپ کا ڈنڈ (ڈولہ) 19 انچ کا ہو گیا ہے۔ میں نے جواب دیا کہ نہیں ابھی ساڑھے 18 انچ کا ہے۔ وہ مسکرائے اور انہوں نے مجھے پنجاب پولیس میں بطور اے ایس آئی بھرتی کروا دیا۔ اس پر جب پیپلز پارٹی کی حکومت آئی تو میں نے رگڑا بھی بڑا کھایا۔ جس پر میں نے پولیس کی ملازمت چھوڑ دی تھی۔ لیکن پھر دوبارہ 1992ء میں پولیس کو جوائن کر لیا۔
1992ء میں ہی میری شادی ہو گئی۔ میری بیگم کا نام راحت یحییٰ ہے۔ وہ میرے ماموں کی بیٹی ہیں۔ 1993ء کے آخر میں دوبارہ ٹریننگ شروع کر دی۔ 1994ء میں چین میں پرویم باڈی بلڈنگ چمپئن شپ تھی۔ اس کی انعامی رقم 10 ہزار ڈالر تھی۔ 1994ء میں بیٹی کی پیدائش ہوئی تو اس کا نام شیزا رکھا۔ ان دنوں جب میں گولڈ جم جا کر ٹریننگ کرتا تو ساتھی بلڈرز مذاق کرتے اورکہتے کہ یار اب تم گھر جا کر بیٹی کی پرورش کرو، باڈی بلڈنگ اب تمہارے بس کی بات نہیں۔ میرے سات جونیئر لڑکے جب یہ باتیں سنتے تو بے عزتی محسوس کرتے۔ میں ان کو کہتا تھا کہ یار کچھ عرصہ صبر کرلو، اللہ پاک کی ذات سب اچھا کر دے گی۔ انہی دنوں میرے والد محترم کو جگر کی پرابلم ہو گئی اور وہ سروسز اسپتال میں داخل تھے۔ میں اپنے کسی دوست کو والد صاحب کے پاس بٹھا کر جم میں ٹریننگ کرنے چلا جاتا۔ میں رات کو اسپتال میں والد صاحب کے پاس رہتا، پھر جم ٹریننگ کرنے کے بعد مزنگ سے بشیر دارالماہی سے آدھا کلو مچھلی لے کر کھاتا، پھر اسپتال والد صاحب کے پاس چلا جاتا۔ پھر وہاں سے صبح ناشتہ لینے کے لیے گھر آنے سے پہلے پھر جم جا کر ٹریننگ کرتا۔ یہ دن بڑی مشکل سے گزارے۔ 1994ء میں جب پرویم باڈی بلڈنگ چمپئن شپ میں شرکت کرنے والی پاکستانی ٹیم کے ٹرائلز کا اعلان ہوا تو میں ریلوے اسٹیڈیم چلا گیا۔ ٹرائلز دینے کیلئے ٹرائلز میں ڈاکٹر جاوید اور میں منتخب ہوا تھا۔ چین میں ہونے والے پروفیشنل ایونٹ میں 120 کلو گرام،100 کلوگرام، 85 کلو گرام، 75 کلو گرام اور 65 کلوگرام کلاس کے باڈی بلڈر سب ایک ہی لائن میں کھڑے ہوتے ہیں۔ پوزنگ بھی اکٹھی ہوتی ہے۔ میں نے اس پروفیشنل ایونٹ میں عمدہ کارکردگی دکھاتے ہوئے پروفیشنل مسٹر ایشیا کا ٹائٹل جیتا۔ گولڈ میڈل کے ساتھ 10 ہزار ڈالر کی انعامی رقم بھی جیتی تھی۔ تاریخ میں پہلی مرتبہ مسٹر ایشیا کا ٹائٹل پاکستان میں آیا تھا۔ مسٹر ایشیا کا ٹائٹل جیتنے کے بعد جب ایک ٹی وی چینل کی خاتون رپورٹر میرے پاس آئی اور اس نے مجھ سے پوچھا کہ مسٹر ایشیا بننے کے بعد مجھے تم بہت زیادہ خوش نظر نہیں آئے۔ اس کی کیا وجہ ہے؟ تو میں نے جواب دیا کہ اس مقابلے میں ہر مرتبہ ایک لڑکا یہ اعزاز حاصل کرتا ہے۔ اگر اس مرتبہ اللہ تعالیٰ نے یہ اعزاز میرے حصے میں لکھا تھا تو میں نے کوئی نیا کام نہیں کیا۔ وہ میری بات سن کر حیران کھڑی مجھے دیکھتی رہی۔ جب وطن واپس آیا تو عوام نے بڑی عزت افزائی کی، جس پر میں نے لوگوں اور اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا۔ کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ اپنی محنت کے بعد اللہ کے خصوصی فضل و کرم سے میں نے مسٹر ایشیا کا ایوارڈ جیتا تھا۔ 1994ء میں ہی چینی شہر شنگھائی میں ورلڈ باڈی بلڈنگ چمپئن شپ تھی۔ اس کی تیاری کیلئے میں لاہور سے گوجرانوالہ چلا گیا۔ کچھ دنوں بعد والد صاحب کا فون آیا کہ تمہاری بیٹی بیمار ہے اور اسپتال میں داخل ہے۔ تم لاہور آجائو اور اپنی بیوی اور بیٹی کو ساتھ لے جائو۔ میں فوراً واپس آیا، بیوی اور بچی کو ساتھ گوجرانوالہ لے گیا۔ گوجرانوالہ میں ایک مکان کرائے پر حاصل کیا۔ میرے ساتھ میرا چھوٹا بھائی بھی آگیا۔ اس وقت مجھ پر پریشر تھا کہ میں ورلڈ باڈی بلڈنگ چمپئن شپ میںحصہ نہ لوں۔ میرے مخالفین مختلف حربے آزما کر مجھے چیمپئن شپ میں شرکت سے محروم کرنا چاہتے تھے، حالانکہ ان دنوں انٹر نیشنل لیول پر یورپ اور امریکہ کے اکثر باڈی بلڈر قوت بخش ممنوعہ ادویات استعمال کرتے تھے۔ لیکن چونکہ ان ممالک کی لابی بہت ہی مضبوط ہوتی تھی اس لیے ان کو کوئی پکڑتا نہیں تھا۔ اس کے برعکس پاکستان سمیت دیگر ایشیا کے غریب ممالک کے کھلاڑیوں پر قوت بخش ممنوعہ ادویات کا الزام لگا کر ان کا کیریئر تباہ کر دیا جاتا تھا۔ 1995ء میں ہونے والی نیشنل گیمز میں مسٹر پاکستان اولمپیا کا ٹائٹل جیتا۔ اس کے بعد 1996ء میں شیپس جم کے مالک اور میرے کلاس فیلو خواجہ ندیم نے مجھے ٹریننگ کے لیے امریکہ بھجوادیا۔ میں چونکہ ان کے جم میں کوچ تھا تو انہوں نے مجھے امریکہ بھجوایا۔ میں کیلی فورنیا چلا گیا۔ وہاں پر مسٹر امریکا مائیک میرا کوچ تھا۔ اس نے فلاسفی میں پی ایچ ڈی کر رکھی تھی۔ 1996ء میں گولڈ جم کیلی فورنیا میں ٹریننگ شروع کر دی۔ لیکن مجھے امریکا کا ماحول اچھا نہ لگا۔ اس دوران مجھے امریکا میں مستقل رہائش اختیار کرنے کے حوالے سے بھی کافی آفرز ہوئیں، جو میں نے رد کر دیں اور امریکہ کو چھوڑ کر اپنی جنت پاکستان لوٹ آیا۔ پھر 1998ء میں مسٹر ایشیا کے مقابلے میں شرکت کیلئے ویت نام گیا تو جانے سے پہلے پاکستان میں میرے چار مرتبہ ڈوپنگ ٹیسٹ ہوئے، جن کو میں نے پاس کیا۔ ایک ماہ بعد ویت نام جانے لگا تو جب میں، ڈاکٹر جاوید اختر اور خالد تینوں تھائی لینڈ پہنچے تو وہاں پولیس نے ہمیں پکڑ لیا کہ تمہارے پاس ویت نام کا ویزا نہیں ہے۔ ہم نے ان کو بتایا کہ ہم پاکستان باڈی بلڈنگ ٹیم کے کھلاڑی ہیں اور ہمارا ویزا ایئر پورٹ پر موجود ہے۔ انہوں نے ویت نام ایئر پورٹ سے اس کی تصدیق کرنے کے بعد ہمیں چھوڑ دیا اور یوں ہم میگا ایونٹ میں شرکت کیلئے تھائی لینڈ سے ویت نام پہنچے۔ جب وہاں گئے تو بعد میں کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے آئی جی کے ڈی آئی جی پرویز رحیم راجپوت صاحب کو پاکستان باڈی بلڈنگ فیڈریشن نے ٹیم منیجر بنا کر بھیج دیا۔ چمپئن شپ شروع ہونے سے پہلے ججنگ ہوتی، جس میں ٹاپ تھری لڑکوں کے ڈوپ ٹیسٹ لیے جاتے تھے۔ چونکہ میری ججنگ ہو چکی تھی اور ڈوپ ٹیسٹ بھی ہو چکا تھا اس لیے یہ کنفرم تھا کہ میڈل ضرور حاصل کروں گا۔ شام کے وقت پبلک شو تھا تو میں نے ایک پوز کیا، جس کا نام مون پوز تھا۔ اس پوز میں بینڈ ہوکر بیک کے مسلز دکھانے ہوتے ہیں۔ اس پوز پر وہاں موجود تماشائیوں سے کافی داد ملی۔ لیکن اس دوران سیکریٹری نے ڈائس پر آکر مجھے ڈس مس کرنے کا اعلان کر دیا۔ حالانکہ 11 جج بھی وہاں موجود تھے۔ ان میں سے کسی نے مجھ پر اعتراض نہیں کیا تھا۔ اس دوران وہاں پر روایتی حریف بھارت کا ایک آفیشل بول پڑا کہ یہ اس لڑکے کے ساتھ بڑی زیادتی اور ظلم ہے کہ 11 ججوں کا پینل بیٹھا ہوا ہے مگر ایک سیکریٹری کھڑا ہو کر ڈس مس کا اعلان کر رہا ہے۔ ہم اس فیصلے کو نہیں مانتے۔ کیونکہ ایونٹ شروع ہونے سے پہلے ہمیں کسی آرگنائزر نے مون پوزکے بین ہونے کے حوالے سے نہیں بتایا۔ لہٰذا اگر آپ نے کچھ کرنا ہی ہے تو لڑکے کو جرمانہ کر دیں۔ وہ پاکستان کا رول ماڈل ہے، اس کو ایونٹ سے باہر نہ کریں۔ اس کے بعد بھارتی آفیشل ہمارے ٹیم منیجر پرویز رحیم راجپوت صاحب کے پاس گئے اور کہنے لگے میرے ساتھ آئیں ہم اس ایونٹ کا بائیکاٹ کرتے ہیں۔ پرویز صاحب نے سگریٹ سلگائی اور کہنے لگے میں خود رات کو ڈنر پر سیکریٹری سے بات کروں گا۔ بھارتی آفیشل کے بار بار اصرار کے باوجود پرویز صاحب نہ مانے۔ پرویز رحیم صاحب چونکہ باڈی بلڈنگ کی الف ب سے واقف نہیں تھے، اس لئے انہوں نے رات کو کھانے پر بھی سیکریٹری سے بات نہ کی۔ اس کے بعد میں پاکستان واپس آگیا اور میں نے پاکستان باڈی بلڈنگ فیڈریشن کے سیکریٹری سے بات کی۔ ان کو بتایا کہ میں امریکہ سے واپس صرف اس لیے آیا تھا کہ محنت کر کے باڈی بلڈنگ کے کھیل میں پاکستان کا نام روشن کروں اور میں نے 107 کلو گرام سے اپنا وزن 30 کلو کم کیا تھا۔ میرے ساتھ ویت نام میں بڑا ظلم ہوا ہے۔ اس کے بعد پاکستان باڈی بلڈنگ فیڈریشن کے سیکریٹری نے ایشین باڈی بلڈنگ فیڈریشن کے سیکریٹری کوخط لکھا توان کا جواب آیا کہ یحییٰ بٹ کا ڈوپ ٹیسٹ مثبت آیا ہے، اس لیے فیڈریشن اس لڑکے پر تین سال کی پابندی لگانے کا اعلان کرتی ہے۔ یہ سن کر میں کافی پریشان ہوا۔ پھر میں نے فیڈریشن کے سیکریٹری سے کہا کہ آپ میرا دوبارہ ڈوپ ٹیسٹ کرا لیں، کیونکہ اگر میں نے قوت بخش ممنوعہ ادویات استعمال کی ہیں تو وہ 18 ماہ تک جسم میں رہتی ہیں۔ سیکریٹری صاحب نے کہا کہ فیڈریشن کو تو اس بارے میں معلومات نہیں۔ میں نے کہا کہ آپ ڈاکٹر جاوید صاحب سے پوچھ لیں، وہ ایم بی بی ایس ڈاکٹر ہیں۔ جب ان سے پوچھا گیا تو انہوں نے بتایا کہ اگر کسی شخص نے ممنوعہ ادویات استعمال کی ہوں تو اس کا اثر 18 ماہ تک اس شخص کے جسم میں رہتا ہے۔ اس کے بعد سیکریٹری صاحب نے کہا کہ ہمارے پاس تو آپ کے ٹیسٹ کرانے کیلئے رقم نہیں ہے۔ میں نے شیپس جم کے خواجہ ندیم صاحب سے 25 ہزار روپے لے کر فیڈریشن کو دیئے تو پھر انہوں نے میرا ڈوپ ٹیسٹ کرا کے چین کی اسی لیب کو بھجوایا، جہاں سے میرا پہلے ڈوپ ٹیسٹ ہوا تھا۔ جب میرے ڈوپ ٹیسٹ کی رپورٹ آئی تو وہ کلیئر تھا۔ اس کے بعد فیڈریشن کو یقین آگیا کہ ویت نام میں مجھے ایک سازش کے تحت بین لگوایا گیا ہے۔ اس وقت کچھ ممالک ایسے تھے جو میری شہرت اور پاکستان کے نام سے حسد کرتے تھے۔ انہوں نے ایک سازش کے تحت مجھ پر بین لگوایا تھا اور وہ مجھ پر لائف ٹائم بین لگوانا چاہتے تھے۔1998ء میں پاکستان میں بھی ہونے والے مقابلوں سے پہلے ڈوپ ٹیسٹ لازمی قرار دے دیا گیا تھا اور صرف جیتنے والے پلیئرز کا ہی ڈوپ ٹیسٹ ہوتا تھا۔ میں نے 1998ء کی نیشنل گیمز میں گولڈ میڈل حاصل کیا تھا اور بعد میں خواجہ ندیم صاحب سے ایک لاکھ روپے لے کر اپنا ڈوپ ٹیسٹ کرایا۔ اس کو پاس کرنے کے بعد مجھے گولڈ میڈل دیا گیا تھا۔ اس کے بعد 2001ء میں لاہور میں ہونے والی نیشنل گیمز میں 2گولڈ میڈل حاصل کئے تھے۔ 2004ء میں آخری مرتبہ مسٹر اولمپیاء کا مقابلہ 2 گولڈ میڈلز حاصل کر کے جیتا تھا۔ اس کے بعد میں نے فیصلہ کیا کہ میں لڑکے تیار کروں گا۔ جو پاکستان کا نام روشن کریں گے۔ اسی مقصد کے تحت میں نے 2 جم بنائے اور وہاں جدید سہولیات نوجوانوںکو دیں۔ پھر میں 2007ء میں لاہور باڈی بلڈنگ ایسوسی ایشن کا صدر بنا۔ میرے ساتھ جان محمد صاحب سیکریٹری بنے۔ ہم نے باڈی بلڈنگ کے کھیل کو فروغ دینے کیلئے لاہور میں باڈی بلڈنگ کے 15 ایونٹ منعقد کرائے ہیں۔ مسٹر لاہور بننے والے کھلاڑی کو ایک لاکھ روپے انعام دیا گیا۔ اس کے بعد طارق صوفی صاحب کے تعاون سے فروری 2009ء میں پہلا مسٹر یحییٰ کلاسک باڈی بلڈنگ چمپئن شپ کا انعقاد کیا۔ جیتنے والے لڑکے کو 5 لاکھ روپے نقد انعام کے علاوہ سوزوکی گاڑی بھی بطور انعام دی۔ مسٹر یحییٰ کلاسک باڈی بلڈنگ چمپئن شپ ہر سال منعقد ہو رہی ہے۔جو کھیل کے فروغ کا باعث بن رہی ہے۔ میری خواہش ہے کہ میں باڈی بلڈنگ کے کھیل کو گراس روٹ لیول سے فروغ دے کر نوجوان نسل کو منشیات کی لعنت، کلاشنکوف کلچر سمیت دیگر سماجی برائیوں سے بچاتے ہوئے صحت مند معاشرے کی تشکیل میں اپنا کردار ادا کروں اور ایسے نوجوان باڈی بلڈر تیار کروں جو عالمی سطح پر پاکستان کا نام روشن کریں۔
Next Post