قسط نمبر106
عباس ثاقب
یہ ایک ایسے شخص کی کہانی ہے جس نے نوجوانی کے امنگوں بھرے دور میں اپنی جان خطرے میں ڈال دی۔ صرف اس لئے کہ وطن عزیز پاکستان کو دشمنوں سے محفوظ رکھا جا سکے۔ جمال صاحب کراچی کے قدیم رہائشی ہیں اور ان دنوں گمنامی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ عمر کے آخری حصے میں بصد اصرار اس بات پر آمادہ ہوئے کہ اپنی زندگی کے تہلکہ خیز گوشوں سے پردہ اٹھائیں۔ ان کا اصل نام کچھ اور ہے۔ بعض نا گزیر اسباب کی بنا پر انہیں ’’جمال‘‘ کا فرضی نام دیا گیا ہے۔ اس کہانی کو ڈرامائی شکل دینے کیلئے کچھ زیادہ محنت نہیں کرنی پڑی۔ کیونکہ یہ حقیقی ایڈوینچر کسی سنسنی خیز ناول سے زیادہ دلچسپ ہے۔ جمال صاحب کی کہانی ان لوگوں کیلئے دعوتِ فکر ہے، جنہیں یہ ملک بغیر کسی جد و جہد اور محنت کے ملا اور انہوں نے اس کی قدر کرنے کے بجائے اسی سے شکایات شروع کر دیں۔ امید ہے کہ قسط وار پیش کی جانے والی یہ کہانی ’’امت‘‘ کے خوش نظر قارئین کی پذیرائی حاصل کرے گی۔ (ادارہ)
میں نے پُر اعتماد لہجے میں ایلفنسٹون ہوٹل کے دربان سے سچن بھنڈاری کو بلوانے کو کہا۔ ساتھ ہی بتا دیا کہ وہ جوا خانے میں رمی والی میز پر ملے گا۔ حیرت انگیز طور پر میری بات سن کر اس کے چہرے پر معنی خیز مسکراہٹ ابھری اور اس نے بغور مجھے دیکھا اور پھر دل ہی دل میں کوئی اندازہ لگاتے ہوئے شرارت بھرے انداز میں آنکھ دبائی اور بولا ’’تمہارے پاس نیا مال ہے کیا مہاشے؟‘‘۔
میں نے چونک کر اس کی طرف دیکھا ’’کیسا مال مسٹر؟‘‘۔
وہ قدرے گڑبڑایا۔ لیکن پھر اپنے مشاہدے پر اعتماد کرتے ہوئے نئے انداز میں سوال دہرایا ’’سچن جی کے لیے نئے مال کا بندوبست تم کر رہے ہو‘‘۔ پھر اس نے مزید جرأت کرتے ہوئے پوچھ لیا ’’مال اچھا ہے تو بتاؤ، میں تمہارے لیے اور گاہکوں کا بھی بندوبست کر سکتا ہوں‘‘۔
اس کی بات سن کر میں نے لمحہ بھر میں کہانی تراش لی۔ ’’یار تم تو چیتا جیسی نظر رکھتا ہے، فٹا فٹ پہچان لیا۔ میرے پاس سپر کلاس، ایک دم ینگ گرلز ہیں۔ کالج اسٹوڈنٹس… پر پرائس تھوڑا زیادہ ہوتا ہے‘‘۔
اس نے خوش ہوتے ہوئے کہا ’’زبردست۔ آج کل ایسے ہی مال کی ڈیمانڈ ہے، اور بومبے میں اچھے مال کی قدر کرنے والوں کی کوئی کمی نہیں۔ نوٹ کی پروا کون کرتا ہے… پر میرا کمیشن…‘‘۔
میں نے شانہ تھپتھپاکر اس کی بات کاٹ دی ’’ڈونٹ وری…۔ میں تم کو خوش کر دے گا…۔ مسٹر سچن کا ڈیل تم نے نہیں کروایا…۔ بٹ اس کا کمیشن بھی میں تم کو دیتا ہے۔ لیکن مسٹر سچن سے اپنا اس سیٹنگ کا ابھی بالکل نہیں بتانا ہے، سمجھے!‘‘۔ یہ کہہ کر میں نے پانچ کا نوٹ اس کی جیب میں ٹھونس دیا۔ آمدنی کا نیا راستہ کھلتے دیکھ کر خوشی سے اس کی باچھیں کھل گئیں۔ اس نے فٹا فٹ سچن بھنڈاری کو بلوا دیا۔ اس دوران میں وہاں سے ہٹ کر اپنی ٹیکسی کی طرف آگیا تھا۔ سچن کو گیٹ سے باہر جھانکتے دیکھ کر میں نے اشارے سے اپنے پاس بلوالیا۔
وہ میرے پاس پہنچا تو میں نے اپنے لباس کی طرف اشارہ کر کے پوچھا ’’کیوں سچن باس، میں ایک دم ہیرو لگ رہا ہے ناں اس ڈریس میں!‘‘۔
اس نے اثبات میں گردن ہلائی، لیکن ساتھ ہی کہا ’’مگر منہ کھولتے ہی پول کھل جاتا ہے کہ ایک دم گنوار ہو۔ چلو میرا گفٹ میرے حوالے کرو‘‘۔
میں نے جونی واکر بلیک لیبل کی بوتل اپنی ٹیکسی کی ڈگی سے نکال کر اس کے حوالے کی۔ اس نے بغور جائزہ لے کر مسرور لہجے میں کہا ’’ویری گڈ، ایک دم جینیئن ہے‘‘۔
میں نے اس کے ساتھ اس کی گاڑی کی طرف بڑھتے ہوئے کہا ’’سچن گُرو، اب کب سے میرا کلاس شروع ہوگا؟‘‘۔
اس نے کچھ سوچتے ہوئے کہا ’’اچھا تم کل شام سات بجے میرے بینگلو پر پہنچ جاؤ۔ اور ہاں۔ اسی طرح سوٹ بوٹ میں آنا‘‘۔
اس نے ایک مرتبہ پھر گاڑی کی ڈگی میں شراب کی بوتل رکھی۔ میں نے پُرجوش انداز میں اس سے ہاتھ ملایا اور اگلے روز مقررہ وقت پر پہنچنے کا وعدہ کرکے اپنی ٹیکسی کی طرف چل دیا۔ تاہم اس کے دوبارہ ہوٹل میں جانے کے باوجود میں نے ٹیکسی وہاں سے نہیں ہٹائی۔ ایک موہوم سی امید میں مجھے اس کے دوبارہ ہوٹل سے برآمد ہونے کا انتظارکرنا تھا۔ پھر کچھ سوچ کر میں دوبارہ ہوٹل کے دربان کے پاس جا پہنچا۔ دراصل میں سچن کی آج کی مصروفیات کے بارے میں کچھ سن گن لینا چاہتا تھا۔
میں دربان کے پاس پہنچا تو وہ مجھے اپنا ہی منتظر ملا۔ اس نے ادھر ادھر نظریں دوڑائیں اور کہا ’’یار تم تو کہہ رہے تھے کہ سچن بابوکے لیے آج کا مال تم سپلائی کرو گے۔ لیکن ویٹر نے بتایا ہے کہ وہ تو آج رات کامنی کو ساتھ لے جانے والا ہے! ڈبل پیمنٹ کرے گا!‘‘۔
میں نے تیزی سے دماغ لڑایا اور اپنا لہجہ پرسکون رکھتے ہوئے کہا ’’ہاں، اس نے بتایا ہے کہ اس کے پاس آج کسی اور کا بکنگ ہے، پر اگلا پانچ دن میرا مال چلے گا۔ یہ لو چار دن کا ایڈوانس کمیشن !‘‘۔
میں نے گن کر پانچ پانچ کے چار نوٹ اس کے ہاتھ میں دے دیئے۔ اس کے چہرے کی خوشی دیدنی تھی۔ لیکن اس نے مجھے جو اطلاع دی تھی، وہ ان مول تھی۔ میرے جسم میں ہیجان سے سنسنی پھیل رہی تھی۔ کیا واقعی مجھے سچن پر جال پھینکنے کا موقع ملنے والاہے؟۔
مجھے لگا میرے پاس وقت بہت کم ہے۔ میں طوفانی رفتار سے ٹیکسی بھگاتا ہوا اپنے گھر پہنچا اور اپنے کام کی کچھ اشیا لے کر ایک بار پھر تیز رفتاری سے نیوی نگر کی طرف چل پڑا۔
تاہم میری یہ پھرتی رائیگاں گئی۔ سچن کے کوارٹر کے سامنے سے گزرتے ہوئے میں نے دیکھا کہ اس کی گاڑی احاطے میں موجود ہے، البتہ گھر کی تمام بتیاں گل ہیں۔ میں ایک چکر لگاکر واپس آیا اور ٹیکسی باغیچے کے نزدیک اسی گھنے درخت کے نیچے کھڑی کر دی، جہاں میں نے پہلے آٹو چھپایا تھا۔ رات کا دوسرا پہر تیزی سے اختتام کی طرف گامزن تھا۔ سردیوں کی اس رات بھی گلی کوچے سنسان دکھائی دے رہے تھے۔ اس کے باوجود میں نے پوری احتیاط سے اطراف میں کسی دیکھنے والی آنکھ کی غیر موجودگی کی یقین دہانی کی اور پھر سچن کے کوارٹر کی دیوار پھلانگ کر اندر پہنچ گیا۔ (جاری ہے)