کراچی (رپورٹ: نواز بھٹو) ماحولیاتی تبدیلی کے سندھ پر خطرناک اثرات مرتب ہونے لگے ہیں۔ تھر اور کوہستان میں خشک سالی کی وجہ سے صورتحال سنگین ہوتی جا رہی ہے۔ مون سون کی بارشیں نہ ہونے سے آبی ذخائر خشک اور چراگاہیں ویران ہونے لگی ہیں۔ مور، ہرن، نیل گائے سمیت دیگر جانور موت کا شکار ہونے لگے ہیں۔ ڈیپلو کے دیہات میں صرف20 روز کے دوران 200 سے زائد مور، ایک نیل گائے اور اس کے3 بچھڑے مر چکے ہیں۔ حکومت سندھ و تحفظ جنگلی حیات کیلئے سرگرم عالمی این جی اوز کی طرف سے کسی قسم کے اقدامات کئے گئے نہ کوئی سروے ہو سکا ہے۔ سیکریٹری محکمہ تحفظ جنگلی حیات نے تھر کے مختلف حصوں میں بھوک کی وجہ سے موروں کی ہلاکت کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ صورتحال سےنمٹنے کیلئے حکومت سے مختص بجٹ و ہنگامی فنڈز مانگ لئے ہیں۔ تفصیلات کے مطابق رواں سال مون سون بارشیں نہ ہونے سے صحرائے تھر کے علاوہ ضلع دادو اور جامشورو کی کوہستانی پٹی اور جنگلی حیات کے لئے محفوظ قرار دیئے گئے علاقے خشک سالی کی لپیٹ میں آنے کی وجہ سے آبی ذخائر سوکھ گئے ہیں۔ چراگاہیں خشک ہوچکی ہیں۔خشک سالی کے اثرات سے بچنے کیلئے حکومت سندھ کی جانب سے اب تک زیادہ اقدامات نہیں کئے گئے۔ بھوک اور پیاس سے سرحدی علاقوں میں ہرن اور دیہات میں مور مرنے لگے ہیں۔ محکمہ تحفظ جنگلی حیات کے حکام کے مطابق تھر و کوہستان میں صرف چند ایک مقامات پر ہرے درختوں کی موجودگی کی وجہ سے اونٹوں اور بکریوں کو چارہ مل رہا ہے۔ زمین سے چارے کھانے والے دیگر جانور قحط سالی سے سخت متاثر ہو رہے ہیں۔ ننگر پارکر کے سرحدی علاقوں میں نایاب ہرنوں کے بچے مرنا شروع ہوگئے ہیں۔ صرف ڈیپلو کے دیہات میں 20روز کے دوران200سے زائد مور موت کے منہ میں اتر چکے ہیں۔ محکمہ تحفظ جنگلی حیات کے ایک سینئر آفیسر کے مطابق موروں کی ہلاکت کی تعداد کہیں زیادہ ہے۔ نایاب نسل کی ایک نیل گائے اور اس کے3 بچھڑے بھی موت کا شکار ہوچکے ہیں۔ چراگاہیں تر گھاس سے خالی ہیں اور پانی کے ذخائر ناپید ہوچکے ہیں۔ سوکھی گھاس کھانے سے جانور تیزی سے کمزور ہو رہے ہیں۔ ان کا دودھ خشک ہونے سے کم عمر جانوروں کی ہلاکتوں میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ متاثرہ علاقوں میں پانی و گھاس کی فراہمی اشد ضروری ہے۔ محکمہ تحفظ جنگلی حیات کی طرف سے اس وقت صرف انہی مقامات پر جانوروں کو پانی فراہم کیا جا رہا ہے، جہاں پر رینجرز کی چوکیاں ہیں۔ دیگر علاقوں تک حکومتی تعاون کے بغیر پانی فراہمی ممکن نہیں ہے، کیونکہ دور دراز کے علاقوں تک پانی کی فراہمی کے لئے بڑی گاڑیوں کی اشد ضرورت ہے۔ محکمہ تحفظ جنگلی حیات کے ذرائع کے مطابق صورتحال سے نمٹنے کے لئے ایک ڈپٹی کنزرویٹر نے حکومت سندھ سے مختص بجٹ کے علاوہ ایک کروڑ، 51لاکھ، 70ہزار روپے کے اجرا کی سفارش کی ہے۔ ان میں تھرپارکر، مٹھی کیلئے10 لاکھ 91 ہزار، ضلع عمر کوٹ، میر پور خاص20 لاکھ40 ہزار، ضلع دادو و جامشورو 22 لاکھ20ہزار مانگے گئے ہیں، تاکہ جانوروں کو پانی کی فراہمی کیلئے مصنوعی تالاب بنائے جا سکیں۔ ادویات اور گھاس بہم پہنچائی جاسکے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ فوری اقدامات نہ کئے گئے تو ضلع گھوٹکی، سکھر، خیر پور و دیگر اضلاع کے صحرائی علاقے سے لیکر اچھڑو تھر تک کے علاقے زد میں آسکتے ہیں۔ ذرائع کے مطابق جنگلی حیات کے تحفظ کیلئے سرگرم عالمی این جی اوز نے بھی کسی قسم نوعیت کے شروع کئے نہ سروے کیا ہے۔ سیکریٹری محکمہ تحفظ جنگلی حیات سندھ سہیل اکبر شاہ نے ‘‘امت’’ کے رابطے پر تصدیق کی کہ جنگلی حیات خشک سالی سے بری طرح متاثر ہو رہی ہے۔ ضلع گھوٹکی، شہدادپور اور اچھڑو تھر اور تمام صحرائی علاقہ خشک سالی کی لپیٹ میں ہے۔ تھر کے مختلف علاقوں سے بھوک سے موروں کے مرنے کی اطلاعات ہیں۔ اگر صورتحال میں شدت آئی تو ہرن بھی مر سکتے ہیں۔ جانوروں کو امراض سے بچانے کیلئے ٹیکے لگانے، پانی کی فراہمی سمیت دیگر اقدامات کئے جارہے ہیں۔ حکومت سے اضافی فنڈز کے علاوہ صحرائی و کوہستانی علاقوں کے ڈپٹی کمشنرز کو اس سلسلے میں اقدامات کا پابند بنانے کی استدعا کردی گئی ہے۔