نواب ضیاء الدین احمد خان نے تاریخ کا علم بہت حاصل کیا تھا، فلسفہ اور منطق بھی وہ خوب جانتے تھے اور دلی شہر میں بھی جو اس وقت باکمالوں سے بھرا ہوا تھا، ضیاء الدین احمد کا ثانی ملنا آسان نہ تھا۔ لیکن وہ چھوٹے بھائی بھی تھے، اور امین الدین احمد خان ہی نہیں، شمس الدین احمد خان کے بھی وہ چھوٹے بھائی تھے۔ برادر خورد کو برادر بزرگ سے کچھ نہ کچھ شکایت ہمیشہ رہتی آئی ہے اور اگر مابہ النزاع اموال و جائیداد ہوں تو تلخی وہاں بھی آجاتی ہے، جہاں اس کی جگہ نہ ہو۔ ضیاء الدین احمد خان نے اوائل صبا سے شمس الدین احمد کی خوبصورتی، جامہ زیبی، محرور المزاجی اور سوتیلے بھائیوں کے تیئں نا انصافی کے چرچے مسلسل سنے تھے۔ شمس الدین احمد کا پھانسی پر کھینچا جانا اس کے خیال میں کیفر کردار کے سوا کچھ نہ تھا۔ مرزا غالب کے وہ بہت مداح تھے، اور مرزا صاحب موقع بے موقع شمس الدین احمد کی برائیاں کرتے رہتے تھے۔ سوتیلے بڑے بھائی کے خلاف ضیاء الدین احمد کی معاندت اس سبب سے اور بھی چمک گئی تھی۔ جب ضیاء الدین احمد شعور کو پہنچے تو انہوں نے چھوٹی بیگم کے جمال قیامت خیز اور شمس الدین احمد سے ان کے عشق کے قصے سنے تھے اور ایک دبا دبا سا حسد انہوں نے محسوس کیا تھا۔ لیکن وہ سب باتیں احتمال اور خیال کے عالم سے تھیں۔ ضیاء الدین احمد نے ان کی عملی حیثیت کا کبھی تصور بھی نہ کیا تھا۔ بڑے بھائیوں کے خلاف شکایات میں بہرحال یہ بات بھی شامل تھی، دھند لے طور پر سہی، کہ شمس الدین احمد نے باپ کی وراثت پوری پوری ہتھیالینی چاہی اور مدتوں اس پر قابض بھی رہے، اور کشور حسن میں انہوں نے وہ تسخیریں کیں جو ہم چھوٹوں کو نہ مل سکیں۔ امین الدین احمد نے لوہارو کے قلعے اور دربار پر اپنا تسلط رکھا تھا اور چھوٹے بھائی کو حکومت میں شریک نہ گردانتے تھے۔ ضیاء الدین احمد کی یہ شکایت دربار انگریز تک پہنچ چکی تھی۔
لہذا ضیاء الدین احمد اگر چھوٹی بیگم پر مائل ہو رہے تھے تو بخیال خود ایک قسم کی تلافی مافات کو عمل میں لا رہے تھے اور اس تلافی میں چھوٹی بیگم کا برابر سے شریک ہونا بالکل مناسب تھا۔ اب جو وزیر خانم نے اس شراکت سے صاف انکار کیا تو ان کی مردانگی سے زیادہ ان کے تصور انصاف کو ٹھیس لگی۔ وہ اس بات کو خیال میں بھی نہ لا سکتے تھے کہ وزیر خانم کو بھی زمانے یا تقدیر سے کچھ شکایات ہو سکتی تھیں۔ انہوں نے کچھ استعجاب سے کہا، لیکن بہت پست آواز میں، گویا خود سے ہم کلام ہوں: ’’جس شجر حیات کو پے بہ پے باغبان حاصل ہوتے جائیں، اسے تقدیر کا شکوہ بھلا کا ہے کو ہو سکے‘‘۔
ہر باغبان کچھ تراشتا اور قطع برید بھی کرتا ہے۔ وہ کچھ لے بھی لیتا ہے، صرف بخشش ارزانی نہیں کرتا۔ اور جب خود باغبان کا شجر حیات خزانی ہو جائے تو جس شجر کی باغبانی وہ کرتا تھا، اس کی بھی خزاں کی زہریلی زبان چاٹ لیتی ہے۔ آپ ابھی…‘‘۔
وہ کہنا چاہتی تھی ’’آپ ابھی بچے ہیں، ان رموز کو آپ کیا سمجھیں‘‘۔ لیکن اس نے بر وقت خود کو روک لیا۔ اس کے بجائے اس نے دوسری بات کہی: ’’آپ ابھی اس بات پر توجہ فرمائیں نواب صاحب کہ جس طرح ناہمواری حیات کے لئے ناگزیر ہے، اسی طرح انسان بھی اپنی طینت کا بندہ ہے۔ کبھی بستر نرم اس کو سخت اور ناگوار لگتا ہے، کبھی خاکستر گرم اسے آغوش مادر لگتی ہے‘‘۔
ضیاء الدین احمد کے چہرے پر ناگواری ابھر آئی۔ ’’ایسی نکتہ شگافیاں تو ہم بھی کر سکتے ہیں چھوٹی بیگم‘‘۔
’’یہی تو بندی بھی عرض کر رہی ہے۔ بندی کسی کے لئے چھوٹی بیگم کسی کے لیے وزیر خانم‘‘۔
اس طنز اور اس کنائے کو سمجھنا ضیاء الدین احمد خان کے لئے کچھ مشکل نہ تھا۔ وہ اندر ہی اندر تلملا سے گئے۔ لیکن مراجعت اتنی آسان بھی نہ تھی اور وہ بھی آخر میرزا تھے، صرف سید نہ تھے۔
’’خیر، ہمیں آپ سے ملاقات کا اشتیاق تھا۔ سو وہ ابھی پورا نہ ہوا‘‘۔ ضیاء الدین احمد خان نے رک کر، کچھ کچھ تلخ سے تبسم کے ساتھ کہا۔ ’’کیا ہمیں دوبارہ ناصیہ سائی کی اجازت ہے؟‘‘۔
’’یہ دروازہ کسی کے لئے کھلا ہوا نہیں ہے نواب صاحب۔ لیکن آپ غیر نہیں ہیں، آپ کی بات اور ہے‘‘۔ وزیر نے گردن ذرا سی موڑی، اس طرح کہ اب اس کا تقریباً پورا منہ نواب کی طرف تھا۔ ضیاء الدین احمد نے وزیر کے چہرے کو ٹٹولا کہ اس پر شاید کہیں کچھ ہمت افزا تبسم یا لگاوٹ آمیز نرمی کی جھلک روشن ہو۔ لیکن وزیر کا چہرہ کچھ مصمم اور کچھ درشت معلوم ہو رہا تھا۔
ضیاء الدین احمد ایک انداز بے پروائی سے اٹھے اور انہوں نے جوتیوں میں پاؤں ڈالنے سے پہلے ظہوری کا شعر پڑھا
می تواں کرد مدعا بافی
تا نفس تار گفتگو دارد
پھر انہوں نے کورنش کے انداز میں سر جھکا کر اور سینے پر ہاتھ رکھ کر کہا: ’’کیا مجھے یہ بھی کہنے کی اجازت ہے کہ مارا بہ تو صد حساب باقیست؟‘‘۔
وزیر اپنی جگہ سے نہ اٹھی، اس کے بدن کا تناؤ اس کے مزاج کی برہمی کی غمازی کر رہا تھا۔ اس نے تالی بجائی، اور جب تک جانی رام آئے، اس نے بیٹھے ہی بیٹھے نواب کی طرف پیٹھ کئے ہوئے ہلکی سی ہنسی ہنس کر کہا: ’’سبحان اللہ، اب یہاں کیا رکھا ہے۔ دل از دو کون شستم و کردم حساب پاک‘‘۔
ضیاء الدین احمد نے ایسی نرم اور مترنم ہنسی پہلے کبھی کا ہے کو سنی تھی، ان کے دل سے لے کر وسط کمر تک ہیجان سا اٹھا، لیکن ہنسنے والی نے ان کی تقدیر ہی ہر ہنس دیا تھا۔
وزیر خانم سے ملاقات کی بے فیضی کا اثر نواب ضیاء الدین احمد خان کے دل پر مدتوں رہا، لیکن اس کے باوجود انہوں نے وزیر خانم کے یہاں اگلے دو مہینوں میں مزید تین بار حاضری دی۔ وہ ملاقات آخری ثابت ہوئی جب وزیر نے تنگ آکر ان سے اشارتاً کہہ دیا کہ ہماری عمروں میں بہت تفاوت ہے۔ آپ مجھ سے بہت چھوٹے ہیں۔ اپنے برابر کے سن والوں میں کام دلی کے حصول کی سعی کریں تو بہتر ہوگا۔ (جاری ہے)٭
٭٭٭٭٭
Next Post