عمران خان
کراچی کے صنعتی علاقوں میں واقع فیکٹریوں میں جعلی کمپنیوں کے دفاتر بنا کر ٹیکس چوری کے فراڈ کئے جانے کا انکشاف ہوا ہے۔ کسٹم کے کرپٹ افسران سے ملی بھگت کے ذریعے عارضی امپورٹ کے ایس آر او کے تحت ملنے والی سبسڈی پر خام مال منگوانے کے بعد اسے اوپن مارکیٹ میں فروخت کیا جارہا ہے، جس سے قومی خزانے کو کروڑوں روپے کا نقصان پہنچ رہا ہے۔ ٹیکس چور مافیا کسٹم کی حالیہ کارروائی میں بے نقاب ہوئی ہے، جس کے خلاف کارروائی کا دائرہ پھیلا دیا گیا ہے۔ کسٹم ذرائع کے مطابق فراڈ کرنے والی ان جعلی کمپنیوں کو تاجروں کی ایسوسی ایشن میں شامل بعض عہدیداروں کے علاوہ سیاسی پشت پناہی بھی حاصل رہی ہے۔
ٹیکس چور مافیا نے فراڈ کیلئے نیا طریقہ واردات استعمال کرنا شروع کر دیا۔ ایک پلاٹ پر قائم فیکٹری میں ہی ایک کمرہ دوسری کمپنی کے نام پر استعمال کیا جاتا ہے اور ایک ہی ایڈریس پر دونوں کمپنیوں کے نام پر ڈاک کی ترسیل ہوتی ہے، جس سے متعلقہ اداروں کو شک نہیں ہوتا جبکہ دونوں کمپنیاں جو سامان منگواتی ہیں وہ بھی ایک ہی ایڈریس پر آتا ہے۔ اس طرح سے دونوں کمپنیوں کے ساتھ کاروبار کرنے والے یہی سمجھتے رہتے ہیں کہ ایک ہی کمپنی کا مینوفیکچرنگ یونٹ ہے جس کے ساتھ وہ کاروبار کررہے ہیں۔ کسٹم ذرائع سے ملنے والی دستاویزات سے معلوم ہوا ہے کہ ٹیکس اور ڈیوٹی چوری کا یہ فراڈ اس وقت سامنے آیا جب ماڈل کسٹم کلکٹوریٹ اپریزمنٹ ویسٹ میں کسٹم حکام کو اطلاع ملی کہ کورنگی صنعتی ایریا سیکٹر سیون اے پلاٹ نمبر 226 پر قائم ڈان لیدر انڈسٹریز این ٹی این نمبر 2248336-5 کی جانب سے مصنوعی ایسا وین لیدر بیرون ملک سے منگوایا گیا، جس پر لگنے والی کسٹم ڈیوٹی اور ٹیکس کی مالیت 55 لاکھ سے زائد بن رہی تھی۔ تاہم میسرز ڈان لیدر انڈسٹریز کی جانب سے یہ کسٹم ڈیوٹی اور ٹیکس ختم کرانے کیلئے ایس آر او SRO NO, 492(I)2009 کو استعمال کیا گیا۔ دستاویزات کے مطابق مذکورہ ایس آر او 2009ء میں مقامی ایکسپورٹ کی صنعت کو فروغ دینے کیلئے جاری کیا گیا تھا۔ جس کے تحت ایسی کمپنیاں جو ایکسپورٹ کوالٹی کا سامان تیار کرنے کیلئے بیرون ملک سے خام مال منگواتی ہیں، ان کمپنیوں کو خام مال پر کسٹم ڈیوٹی اور ٹیکس کی چھوٹ دی جاتی ہے بلکہ ایس آر او کے تحت کسی قسم کا کسٹم ٹیکس اور ڈیوٹی وصول ہی نہیں کی جاتی۔ اس کے بجائے خام مال پر عائد ہونے والی کسٹم ڈیوٹی اور ٹیکس کے مساوی بینک گارنٹی رکھی جاتی ہے اور جب خام مال منگوانے والی کمپنیاں اس خام مال سے ایکسپورٹ کا آرڈر تیار کرکے بیرون ملک بھجوادیتی ہیں تو ان کو ان کی بینک گارنٹی واپس مل جاتی ہے۔ یہ رعایت اس ایس آر او کے تحت صرف ان کمپنیوں کو دی جاتی ہے جو ایکسپورٹ کیلئے مصنوعات اپنی ہی فیکٹریوں میں تیار کرتی ہیں یعنی ان کے اپنے مینو فیکچرنگ پلانٹ ہوتے ہیں۔
دستاویزات کے مطابق اپریزمنٹ ویسٹ کراچی پر اترنے والے اس خام مال کے حوالے سے کسٹم حکام کو یہ بھی اطلاعات ملی تھیں کہ ڈان لیدر انڈسٹریز کے مالکان کسٹم حکام کی آنکھوں میں دھول جھونک کر کسٹم ڈیوٹی اور ٹیکس بچا رہے ہیں جس پر کسٹم حکام نے مذکورہ کمپنی کے مینو فیکچرنگ پلانٹ کا معائنہ کرنے کیلئے ٹیم بھجوائی۔ اس سے قبل جب ڈان لیدر انڈسٹریز کے پتے پر خطوط ارسال کئے گئے تو ان کے جوابات موصول ہوئے اور یہاں سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اس پتے پر باقاعدہ مینو فیکچرنگ پلانٹ بھی موجود ہے۔ تاہم اپریزمنٹ ویسٹ کے کسٹم آفیسر مشتاق احمد کے ساتھ جانے والی ٹیم جب اس ایڈریس پر پہنچی تو انہیں وہاں پر ڈان لید ر انڈسٹریز کے بجائے الفخر ٹریڈرز نامی کمپنی کی فیکٹری ملی۔ یہاں پر کسٹم ٹیم کو الفخر ٹریڈرز کے مالک شیخ محمد شفیع نے بتایا کہ یہ فیکٹری اس کے والد شیخ محمد یوسف کے نام پر ہے۔ تاہم انہوں نے اس فیکٹری میں ایک کمرہ ماہانہ 10 ہزار روپے کرائے پر محمد اشرف نامی شخص کو دیا ہوا ہے یہ 10 بائے 10 کا چھوٹا سا کمرہ ہی در اصل ڈان لیدر انڈسٹریز نامی کمپنی کیلئے استعمال کیا جارہا تھا۔ اسی کمرے سے کسٹم حکام کے ساتھ خط و کتابت کی جا رہی تھی اور آنے والی ڈاک وصول کی جا رہی تھی۔ جب اس فیکٹری کے مینو فیکچرنگ پلانٹ کا معائنہ کیا گیا تو وہ بھی الفخر ٹریڈرز کی ملکیت نکلا اور اس کا ڈان لیدر انڈسٹریز سے کوئی تعلق نہیں تھا اور نہ ہی اس پلانٹ میں ڈان لیدر انڈسٹریز کا سامان تیار ہوتا تھا اس معاملے میں مزید تحقیقات پر معلوم ہوا ہے کہ ڈان لیدر انڈسٹریز کی جانب سے ایک اور ایڈریس کورنگی صنعتی ایریا سیکٹر 8 حضرت بلال کالونی پلاٹ نمبر 488 بھی دیا گیا تھا جہاں پر گودام اور فیکٹری کا حصہ ظاہر کیا گیا تھا۔ تاہم جب کسٹم کی ٹیم ایڈریس پر پہنچی تو یہاں پر فیکٹری کے بجائے 80 اسکوائر یارڈ کا رہائشی مکان واقع تھا جس کے بعد کسٹم ٹیم کو ڈان لیدر انڈسٹریز کی جانب سے کی گئی جعلسازی اور ٹیکس چوری کی واردات کے اہم شواہد مل گئے۔
کسٹم ذرائع کے مطابق مذکورہ تمام شواہد سامنے آنے کے بعد ڈان لیدر انڈسٹریز کے مالک اشرف اور کلیئرنگ ایجنٹ عبدالوحید کے خلاف رپورٹ تیار کرنی شرو ع کردی گئی۔ اس دوران مزید معلوم ہوا کہ اس طرح کی مزید کئی کمپنیاں بھی اسی نوعیت کے فراڈ میں ملوث ہیں اور جعلی کمپنیوں اور کلیئرنگ ایجنٹوں کے درمیان ایک نیٹ ورک قائم ہے جو اسی طرح سے عارضی امپورٹ کے ایس آر او کا غلط استعمال کرکے اور جعلی کاغذات بنا کر خام مال منگواکر اسے پوری قیمت میں اوپن مارکیٹ میں فروخت کردیتے ہیں۔ اس طرح ایک جانب کروڑو ں روپے کی کسٹم ڈیوٹی چوری کی جاتی ہے تو دوسری جانب یہی مال مارکیٹ میں فروخت کرکے منافع کمایا جاتا ہے جس کے نتیجے میں اوپن مارکیٹ میں خام مال فروخت کرنے والی کمپنیوں کو بھی نقصان ہوتا ہے۔ کیونکہ وہ کمپنیاں کسٹم ڈیوٹی ادا کرکے مال منگواتی ہیں اور زائد قیمت پر مال بیچنے پر مجبور ہوتی ہیں۔ جبکہ ٹیکس چوری کرنے والی کمپنیاں ٹیکس بچا کر مال سستے داموں بیچ کر فوری منافع حاصل کرلیتی ہیں۔ ایسی کمپنیوں جو سائٹ، نیو کراچی اور لانڈھی میں قائم ہیں انہیں پورٹ قاسم اور ایسٹ کے علاوہ کسٹم ویسٹ میں بھی بعض کرپٹ کسٹم افسران کی معاونت حاصل ہے جو انہیں ایس آر او کا فائدہ اٹھانے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔ کسٹم ذرائع کے مطابق اس ضمن میں تفصیلی رپورٹ کی تیاری کیلئے تحقیقات جاری ہیں اور جلد ہی گرفتاریاں متوقع ہیں۔
٭٭٭٭٭