ایس اے اعظمی
بھارت میں سماجی رابطے کی سب سے بڑی ایپلی کیشن واٹس ایپ پر پابندی لگانے کی تیاری کرلی گئی ہے۔ کیونکہ واٹس ایپ بھارتی معاشرے میں بگاڑ کا بڑا ذریعہ بنتا جا رہا ہے۔ بھارتی عدالت عظمیٰ نے واٹس ایپ کی عالمی و مقامی انتظامیہ کو اظہار وجوہ اور واٹس ایپ پر پابندی کے نکات پر ایک ماہ کے اندر تحریری وضاحت اور جواب بھی طلب کرلیا ہے۔ سپریم کورٹ آف انڈیا میں دہلی کی ایک این جی او نے مقدمہ درج کروایا تھا کہ واٹس ایپ کی وجہ سے بڑھتی ہوئی لاقانونیت کو روکنے کیلئے اس کو قانون کا پابند بنایا جائے اور تمام متنازع معاملات کو لے کر ایک لائژن آفیسر کا تقرر کیا جائے اور تمام جھوٹے پیغامات اور افواہوں کا مکمل خاتمہ کیا جائے۔ واضح رہے کہ واٹس ایپ اس سلسلہ میں سخت اقدامات سے اتفاق کرتا ہے اور مستقبل میں بھارتی معاشرے میں واٹس ایپ کے کئی فیچرز میں تبدیلیاں لائی جائیں گی، جس میں ایک پیغام کو پانچ سے زیادہ افراد کو فارورڈ نہیں کیا جاسکتا جب کہ فوری شیئر کا آپشن بھی ختم کردیا جائے گا اور تمام بھیجے جانے والے پیغامات کی نوعیت بھی میسج کے ساتھ لکھی ہوئی ہوگی کہ یہ میسیج بنا کر بھیجا گیا ہے یا محض فارورڈ کیا گیا ہے؟ بھارتی جریدے سوراجیہ نے ایک رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ باہمی جھگڑوں اور ناکام محبت سے لے کر گائے کی اسمگلنگ اور ملک دشمنی کے الزامات سے لے کر نچلی سطح پر کارگزار عدلیہ اور انتظامیہ کے احکامات سب اسی ایپ سے بھیجے جارہے ہیں، جبکہ واٹس ایپ کی مدد سے بھارت بھر میں منشیات فروش مافیا، بردہ فروش گروہ، قاتلوں اور جسم فروش گینگز بھی متحرک ہیں، جو اپنے کلائنٹس اور اہداف کا تعین واٹس ایپ ہی کی مدد سے کررہے ہیں۔ اس بات کی تصدیق نیشنل کرائم ڈیٹا کی جانب سے بھی کی جاچکی ہے۔ واٹس ایپ کی وجہ سے مختلف بھارتی ریاستوں میں ٹوٹنے والی شادیوں کی تعداد بھی ایک سال میں 2 ہزار سے زائد ہوچکی ہے جس کی وجہ سے بھارتی پولیس اور عدلیہ پر مقدمات کی شکل میں مزید دبائو در آیا ہے۔ جبکہ واٹس ایپ کی مدد سے پھیلائی جانے والی جھوٹی خبروں پر بنائے جانے والے مقدمات کی تعداد پچیس ہزار سے تجاوز کرچکی ہے، جبکہ واٹس ایپ کی وجہ سے مجمع کے حملوں کی تعداد 500 اور ہلاک و زخمی شدگان کی تعداد 100 سے زیادہ ہے۔ اسی طرح بچوں کے اغوا کی جعلی خبروں اور افواہوں کے نتیجہ میں تشدد کی 23 وارداتیں پولیس ریکارڈ کا حصہ بنائی گئی ہیں، جن میں ہلاک افراد کی تعداد 11 اور زخمیوں کی تعداد 45 ہے۔ پولیس رپورٹ کے مطابق ہجوم نے افواہوں کے نتیجہ میں بے گناہ افراد کو مار پیٹ کا نشانہ بنایا۔ عالمی جریدے اکانومسٹ نے اپنی رپورٹ میں بھارتی حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کا نام لئے بغیر بتایا ہے کہ 2014ء سے ایک سیاسی تنظیم نے سوشل میڈیا کو وار روم بنایا ہوا تھا، جہاں سے اقلیتوں اور مخالف امیداروں کیخلاف جھوٹی خبریں اور الزامات منظم انداز میں پھیلائے گئے تھے۔ واضح رہے کہ شماریاتی جائزوں کے مطابق بھارت بھر میں واٹس ایپ صارفین کی تعداد بیس کروڑ سے زیادہ ہوچکی ہے جو روزانہ اربوں پیغامات بھیجتے ہیں۔ ٹائمز آف انڈیا نے واٹس ایپ کی تباہ کاریوں کے حوالہ سے بتایا ہے کہ اس سلسلہ میں ڈاکٹرز بھی انتہائی پریشان ہیں اور بھارت کے چنیدہ اور ماہر ڈاکٹرزکے تصاویری پیغامات نے مریضوں اور ان کے لواحقین کو ہلکان کیا ہوا ہے کیونکہ بھارت بھر میں واٹس پر ایسے ڈاکٹرز کی ذیابیطس، کینسر، تپ دق، ایڈز اور دیگر مہلک بیماریوں کیلئے ’’جھوٹے طبی مشوروں‘‘ کی بھرمار ہوچکی ہے اور خود ڈاکٹرز اس سلسلہ میں اپنا سر پکڑے بیٹھے ہیں کہ ہم نے تو کوئی ایسی ایڈوائس نہیں دی، جو باقاعدہ پی ڈی ایف اور دیگر فارمیٹس پر مشوروں کے ساتھ دھڑا دھڑ بھیجے جارہے ہیں۔ لیکن ان کا حقیقت سے کوئی لینا دینا نہیں ہوتا۔ آگرہ میں موجود ڈاکٹر سندیپ بدھی راجا کہتے ہیں کہ واٹس ایپ نے ہمارا دماغ خراب کردیا ہے، ایسی جھوٹی اور بناوٹی احتیاطی تدابیر سے لوگوں کو بے وقوف بنایا جا رہا ہے کہ نہ پوچھیں۔ ایک واٹس ایپ پیغام میں جلدی کینسر کے مریضوں کو طبی مشورہ دیا گیا ہے کہ وہ گائے کے پیشاب سے نہائیں اورکوشش کریں کہ گندے پانی کے نالے میں دن میں ایک بار دو گھنٹہ کیلئے لیٹیں۔ اس سلسلہ میں بھارتی جریدے ٹیلی گراف نے بتایا ہے کہ ماضی میں اٹل بہاری واجپائی کی ہلاکت کی جھوٹی افواہ پھیلا دی گئی تھی حالانکہ اس وقت وہ حیات تھے۔ اسی پورٹل کی مدد سے عالمی شہرت یافتہ بھارتی اداکار دلیپ کمار کی وفات کی اطلاع بھی پھیلا دی گئی تھی، جبکہ واٹس ایپ ہی کی مدد سے افواہیں بھیلانے والے عناصر نے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی اہلیہ کی ایک نوجوان سے شادی کی افواہ بھی پھیلا دی تھی، جبکہ 1000 سے زائد واقعات میں مقامی ہندو انتہا پسندوں نے مقامی مسلمانوں پر گجرات، راجستھان، ہریانہ، دہلی، آسام اور آندھرا پردیش میں گائے کشی کے جھوٹے واقعات کی بناوٹی ویڈیوز اور الزامات عائد کرکے ہجومی حملوں کی راہ ہموار کردی تھی لیکن خوش قسمتی سے مقامی مسلمانوں نے پولیس کو فی الفور مطلع کرکے اپنی جانیں بچائیں۔ اس سلسلہ میں گجرات کے مہسانہ ضلع کے ایک اعلیٰ افسر پٹیل نے بتایا کہ اس وقت واٹس ایپ کے جعلی پیغامات اور جھوٹی اور بناوٹی ویڈیوز نے ہماری ناک میں دم کردیا ہے اور روزانہ کی بنیاد پر ہمیں واٹس ایپ کی تباہ کاریوں سے نمٹنے کیلئے ہائی الرٹ رہنا پڑتا ہے، جس سے پولیس اور انتظامیہ اہلکار ذہنی مریض بنتے جارہے ہیں۔ واٹس ایپ کی وجہ سے شادی ٹوٹنے کا واقعہ ریاست اتر پردیش میں رونما ہوا ہے، جہاں ہندوستان ٹائمز کے مطابق ضلع امروہہ کے نوگائوں سادات دیہہ میں بارات دلہن کو بیاہنے کے بجائے گھر پرہی رہی اور ٹیلی فون پر دولہا کے ایک قریبی عزیز نے دولہن کے والد کو بتایا کہ بارات نہیں آرہی ہے کیونکہ دولہا والوں کو گائوں کے اندر موجود ایک ’’ہمدرد‘‘ نے بتایا ہے کہ دلہن گھریلو کام کے بجائے زیادہ تر وقت واٹس ایپ پر گزارتی ہے اس لئے وہ ایک اچھی بہو نہیں بن سکتی۔ ہندوستان ٹائمز کے مقامی نمائندے نے انکشاف کیا ہے کہ دلہن کے والد سے اس انوکھی وجہ پر شادی ٹوٹنے کی تفصیل پوچھی گئی تو دولہن کے والد عروج مہدی نے بتایا کہ واٹس ایپ کا تو محض بہانہ ہے البتہ دولہا والوں نے مجھ سے شادی کیلئے بارات لانے سے عین قبل 65 لاکھ روپیہ کا جہیز طلب کیا تو جو میری بساط سے باہر تھا اس لئے انہوں نے واٹس ایپ کا بہانہ بنایا ہے۔ دلہن کے والد کی تحریری شکایت پر پولیس اس واقعہ کی جانچ کررہی ہے۔ ادھر بھارتی جریدے انڈین ایکسپریس نے اپنی 12 اگست کی اشاعت میں انکشاف کیا ہے کہ دار الحکومت دہلی اور معاشی حب ممبئی سمیت ایک درجن بھارتی شہروں میں بچوں کے ساتھ جنسی جرائم کی وارداتیں کرنے والے متعدد گروہ واٹس ایپ پر سرگرم ہیں، لیکن پولیس ان کا زور توڑ نہیں پائی ہے اور یہ کاروبار واٹس ایپ کی مدد سے بھارت بھر میں پھل پھول رہا ہے۔
٭٭٭٭٭
Prev Post