اندرون سندھ ڈکیت گروپ نے سرکاری گاڑیاں ہدف بنالیں

0

عمران خان
اندرون سندھ کے ڈکیت گروپ نے کراچی میں سرکاری گاڑیوں کو ہدف بنالیا۔ شہر سے رواں برس 18 سرکاری گاڑیاں اسلحہ کے زور پر چھین لی گئیں، جن میں ٹویوٹا کرولا سمیت دیگر لگژری گاڑیاں شامل ہیں۔ یہ گاڑیاں اندرون سندھ اور بلوچستان میں منتقل کرکے فروخت کی جا رہی ہیں، جبکہ ان کے وارداتوں میں استعمال ہونے کی بھی اطلاعات ہیں۔ اندرون سندھ کے علاقوں جیکب آباد، شکار پور اور گھوٹکی سے تعلق رکھنے والے ملزمان پر مشتمل مخصوص گروپ نے سرکاری گاڑیوں کو اس لئے ہدف بنا رکھا ہے کیونکہ یہ گاڑیاں شہر سے باہر لے کر جانا آسان ہوتا ہے اور سرکاری ہونے کی وجہ سے ملزمان سرکاری پروٹوکول کے ساتھ گاڑیوں کو اندرون سندھ اور بلوچستان منتقل کردیتے ہیں۔
گاڑیوں کی چھینا جھپٹی میں ملوث ملزمان کی گرفتاریوں اور مسروقہ گاڑیوں کی بر آمدگی کیلئے سندھ حکومت کی جانب سے قائم کردہ پولیس کے خصوصی شعبے اینٹی کارلفٹنگ سیل کیلئے چور گروپ چھلاوا بن گیا ہے اور گزشتہ 9 ماہ سے اس سرگرم ترین گروپ کو پکڑنے میں اے سی ایل سی کے افسران ناکام رہے ہیں، جس سے شعبہ کی کارکردگی اور فعالیت پر سوالیہ نشان لگ گئے ہیں۔ دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ سرکاری گاڑیاں چھینے جانے کی وارداتیں شہر کی کچی اور مضافاتی آبادیوں میں نہیں بلکہ شہر کے پوش ترین علاقوں میں کی جا رہی ہیں جہاں مضافاتی علاقوں کے مقابلے میں پولیس کا سرویلنس سسٹم اور کیمروں کی تنصیب کا نظام دیگر علاقوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے۔
گزشتہ روز شہر کے ضلع جنوبی کے تھانہ درخشاں کی حدود میں ڈیفنس شہباز کمرشل میں دن دیہاڑے میئر کراچی وسیم اختر کی سرکاری گاڑی ان کے ڈرائیور سے اسلحے کے زور پر چھین لی گئی۔ گاڑی چھیننے والے ملزمان نے اپنے چہرے چھپانے کیلئے ڈھاٹے باندھ رکھے تھے۔ پولیس سے ملنے والی معلومات کے مطابق سیاہ رنگ کی گاڑی جی ایس ڈی 999 کرولا میئر کے سیکریٹریٹ آفس کے استعمال میں تھی۔ واقعہ کے بعد ایڈیشنل آئی جی کراچی پولیس امیر شیخ نے فوری طور پر جرائم کی وارداتوں پر قابو پانے میں ناکامی پر ایس ایچ او درخشاں حاجی ثنا اللہ کو معطل کیا۔ اب تک کی تحقیقات میں جائے وقوعہ کے اطراف میں نصب کیمروں سے بننے والی ویڈیوز حاصل کی گئی ہیں، جن میں واردات میں استعمال ہونے والی گاڑی پر لگی ہوئی نمبر پلیٹ دکھائی دیتی ہے تاہم یہ نمبر پلیٹ بھی جعلی ثابت ہوئے۔ جبکہ ملزمان کے شناخت بھی نہیں ہوسکی۔ ابتدائی معلومات سے معلوم ہوتا ہے کہ ڈیفنس اور کلفٹن جیسے پوش علاقوں میں ملزمان جعلی نمبر پلیٹ لگے ہوئی گاڑی میں دندناتے رہے۔ تاہم انہیں کسی نے نہیں روکا حالانکہ درخشاں، کلفٹن، گزری، ڈیفنس اور فریئر تھانوں کے علاوہ بوٹ بیسن سمیت 6 تھانوں کی پولیس کی گشتی اور ناکے لگانے والی ٹیمیں پکٹ لگا کر کھڑی رہتی ہیں، جہاں پر اسنیپ چیکنگ معمول ہوتا ہے۔ تاہم یہ پولیس اہلکار صرف اپنی آمدنی کیلئے غریب موٹر سائیکل سواروں کو ہی روک کر مختلف بہانوں سے پیسے بٹورنے میں لگے رہتے ہیں ۔
حاصل ہونے والے اعداد و شمار کے مطابق رواں برس شہر میں اسٹریٹ کرائم کی وارداتوں خصوصی طور پر گاڑیاں چھیننے اور چوری کرنے کی وارداتوں میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ جبکہ یہ سال شروع ہوتے ہی شہر میں سرکاری گاڑیوں کی چھینا چھپٹی میں بھی ریکارڈ اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ پولیس کے ایک سینئر افسر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ یہ صورتحال اس وقت مزید سنگین ہوجاتی ہے جب اسٹریٹ کرائم پوش علاقوں میں زیادہ ہونے لگے، کیونکہ گزشتہ 20 برس میں صوبائی حکومت کی جانب سے سندھ پولیس کے ساتھ مل کر پوش علاقوں کے شہریوں کو محفوظ ماحول دینے کیلئے جتنی کوششیں کی گئی ہیں اتنی اگر پورے شہر کیلئے بھی کی جاتیں تو شاید غریب عوام کو تھوڑا ریلیف مل سکتا تھا۔ تاہم اس کے باوجود پوش علاقوں میںایسی وارداتوں نے سندھ حکومت کی کارکردگی کی قلعی کھول کر رکھ دی ہے، سندھ میں سال 2008 سے لے کر 2013 تک ڈیفنس اور کلفٹن کے علاقوں میں اسٹریٹ کرائم کے خاتمے کیلئے ’’نیبر ہڈ انفارمیشن سسٹم‘‘ اور ’’نیبر ہڈ پولیس سسٹم‘‘ کے علاوہ ریپڈ رسپانس سسٹم جیسے منصوبے نافذ کئے گئے، جبکہ یہاں پر خفیہ کیمروں کا جال دیگر علاقوں سے زیادہ بچھایا گیا۔ ان تمام منصوبوں پر کروڑوں روپے خرچ کئے گئے، جس کا کوئی فائدہ نظر نہیں آتا۔
ضلع جنوبی کی پولیس سے معلوم ہوا ہے کہ سرکاری گاڑیاں چھیننے والے گروپ کے ارکان اس قدر دیدہ دلیر ہوگئے ہیں کہ وہ اب بنگلوں اور کمرشل علاقوں سے دن دہاڑے اسلحہ کے زور پر گاڑیاں چھین کر فرار ہونے لگے ہیں۔ حاصل ہونے والے اعداد وشمار کے مطابق رواں سال کے دوران اس ضلع سے 968 گاڑیاں چھینی اور چوری کی گئیں، جبکہ 18 سرکاری گاڑیاں بھی انہیں پوش علاقوں سے چھین لی گئیں۔ تاہم اینٹی کار لفٹنگ سیل (اے سی ایل سی) اور ساؤتھ زون پولیس سرکاری گاڑیوں کی ریکوری میں اب تک ناکام ہے۔ اس ضمن میں ’’امت‘‘ کو ایس ایس پی سائوتھ عمر شاہد حامد نے بتایا کہ اینٹی کار لفٹنگ سیل کے افسران اس مخصوص گروپ کو پکڑنے میں مصروف ہیں اور ان کی تفتیش جاری ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا چونکہ سرکاری گاڑیاں چھیننے میں ملوث ایک ہی مخصوص گروپ ہے، جس کا تعلق اندرون سندھ سے ہے اور اے سی ایل سی کے پاس اندرون سندھ کے تمام اضلاع میں تھانے اور یونٹ موجود ہیں اس لئے ان وارداتوں کے خاتمے اور ملزمان کی گرفتاریوں کا ٹاسک اے سی ایل سی کو ہی دیا گیا ہے۔
ضلع جنوبی کی پولیس سے معلوم ہوا ہے کہ سرکاری گاڑیوں کی چھینا جھپٹی کی وارداتوں کی تحقیقات کیلئے متعلقہ تھانوں میں کئے گئے مقدمات اینٹی کار لفٹنگ سیل کے تفتیشی افسران کو فراہم کردیئے گئے ہیں۔ تحقیقات میں اے سی ایل سی کے تفتیشی افسران کے ساتھ تھانوں کے متعلقہ انویسٹی گیشن آفیسرز اور ایچ ایس ایچ اوز بھی مسلسل رابطے میں ہیں۔ اب تک تحقیقات میں اس گروپ کے حوالے سے یہی معلوم ہوسکا ہے کہ اس میں شکار پور، جیکب آباد اور گھوٹکی سے تعلق رکھنے والے افراد شامل ہیں جنہوں نے مختلف کار لفٹرز گروپ چھوڑ کر ایک گروپ قائم کیا ہے۔ یہ ملزمان سرکاری گاڑیاں چوری کرنے کے بعد انہیں بآسانی اندرون سندھ اور بلوچستان منتقل کردیتے ہیں کیونکہ سرکاری گاڑیوں کو مختلف ناکوں اور چیکنگ پوائنٹس پر زیادہ چیک نہیں کیا جاتا ہے۔ بلکہ پروٹول دے کر آگے جانے کی اجازت دی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ملزمان نے سرکاری گاڑیوں کو ہدف بنا لیا ہے۔ جبکہ دوسری اہم وجہ یہ ہے کہ جوسرکاری گاڑیاں چھینی جا رہی ہیں وہ زیادہ تر گریڈ 19سے اوپر کے افسران اور سرکاری حکام کی ہوتی ہیں، جوکہ یا تو قیمتی ٹویوٹا کرولاہوتی ہیں یا اسی طرح ویگو اور دیگر لگژری گاڑیاں ہوتی ہیں اور یہی گاڑیاں کار لفٹر گروپوں کی ترجیح ہیں ۔
ادھر آئی جی سائوتھ جاوید اوڈھو نے میئر کراچی کی گاڑی چھینے جانے کے معاملے پر بیان دیتے ہوئے کہا کہ وسیم اختر کی گاڑی کی تلاش جاری ہے اور ساتھ ہی انہوں نے دعویٰ کیا کہ سرکاری گاڑیاں چوری کرنے والے 2 گروپس کو ٹریس کرلیا گیا ہے۔ انہوں نے میئر کراچی کی گاڑی چھیننے کے واقعہ کا ذمہ دار ایس ایچ کو قرار دیتے ہوئے کہا کہ ایس ایچ او جرائم روکنے کا ذمہ دار ہوتا ہے۔ ٭
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More