کراچی(رپورٹ:سید نبیل اختر)کے الیکٹرک کی جانب سے احسن آباد میں تار گرنے سے معصوم بچے عمر کی معذوری کا معاملہ 10 لاکھ دے کر نمٹانے کی کوشش ناکام ہو گئی ہے ۔بچے کے والد نے 10 لاکھ معاوضہ لینے کی پیشکش قبول کرنے سے انکار کرتے ہوئے کے الیکٹرک کو اپنے مطالبات سے آگاہ کر دیا ہے۔بجلی کمپنی نے ایک کروڑ روپے معاوضے اورتاحیات میڈیکل سمیت دیگر مطالبات پر غور کیلئے وقت مانگ لیا ہے ۔حادثے کے 15روز گزرنے کے باوجود کے الیکٹرک اپنی انٹرنل انکوائری مکمل نہیں کر سکی ہے ۔پیر کو بیانات لینے کیلئے مزید 4افسران کو سیفٹی ہاؤس طلب کرلیا گیا ہے ۔حادثے کی رات ہیون سٹی میں بھی 11ہزار کلوواٹ کی تار گرنے کی تفصیلات سامنے آگئی ہیں۔تفصیلات کے مطابق کے الیکٹرک کی جانب سے احسن آباد میں تاروں کے گرنے سے 8سال کے معصوم بچے عمر کے معاملے کو اسسٹنٹ کمشنر کی سفارشات کے مطابق محض 10 لاکھ روپے معاوضہ دے کر نمٹانے کی کوشش ناکامی سے دو چار ہو گئی ہے ۔یہ کوشش کے الیکٹرک کی قائم کردہ 3رکنی ٹیم کی جانب سے کی گئی ہے جو احسن آباد میں تار گرنے کے باعث زندگی بھر کیلئے دونوں بازوؤں سے محروم ہونے والےمعصوم بچے عمر کے والد عارف سے رابطے میں ہے۔با خبر ذائع کے مطابق ریجنل ڈائریکٹر ارشد افتخار کی سربراہی میں 3رکنی کمیٹی نےعمر کے والد سے رابطہ کر کے ان کو معاوضے کی مد میں 10لاکھ روپے دینے کی پیش کش کی جسے محمد عارف نے وصول اور قبول کرنے سے انکار کردیا ہے۔’’امت‘‘ کو عمر کے والد محمد عارف نے رابطے پر بتایا کہ انہوں نے کے الیکٹرک کے حکام کو اپنے مطالبات اور معاوضے کی مجوزہ رقم سے آگاہ کر دیا ہے جس پر بجلی کمپنی نے وقت مانگ لیا ہے۔کے الیکٹرک ذمہ داران کو اپنے 4مطالبات پیش کئے ہیں ۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ عمر کو تا حیات میڈیکل سہولت فراہم کی جائے۔عمر کی ماسٹرز تک تعلیم کے تمام اخراجات برداشت کئے جائیں اور اس کے بیرون ملک علاج بالخصوص فنکشنل لیونگ آرمز لگائے جانے کے تمام تر اخراجات بھی بجلی کمپنی اپنے ذمہ لے اور جاب سیکورٹی دے ۔مطالبات کے علاوہ کے الیکٹرک سے ایک کروڑ روپے بطور معاوضہ ادا کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے ۔مطالبات پر ہمیں بتایا گیا ہے کہ کے الیکٹرک انتظامیہ یہ معاملات اپنی لیگل ٹیم کے سامنے رکھی گی اور اس کی تجاویز سامنےآنے پر اس ضمن میں کوئی جواب دیا جاسکے گا۔ ادھر احسن آباد میں ہائی ٹینشن تار گرنےکے حادثےکو 15روز گزرنے کے باوجود بھی کے الیکٹرک داخلی تحقیقات مکمل نہیں کر سکی جس کے نتیجے میں معصوم عمرکو زندگی بھر کیلئے معذور ہونا پڑا ۔اب تک کے الیکٹرک آئی بی سی گڈاپ کے12 ملازمین سے بیانات لئے جا چکے ہیں۔سیفٹی ہاؤس میں افسران کے سامنے ایک لائن لائن مین کاشف نے اپنے بیان میں بتایا کہ اسے آئی بی سی میں تعینات افسر طلحہ نے ڈبل ڈیوٹی کے لیئے تیار کیا اوربطور شفٹ سپر وائزر کی ذمہ داری سونپی تھی ۔احسن آباد میں حادثے سے قبل رات2سے ڈھائی بجے کے دوران گلشن معمار سے متصل ہیون سٹی سے بھی تار گرنے کی شکایت ملی تھی ۔ اس کی تصدیق کے لیے وہ خود ایریا میں گیا تو معلوم ہوا کہ ایل ٹی کے بجائے ایچ ٹی تار گرا ہے جس میں 11ہزار واٹ کا کرنٹ دوڑ رہا تھا۔اس پر ڈس کنکشن کے لئے گرڈ کو رپورٹ کی اور انہیں بتایا کہ فیڈر بند کئے بغیر مرمت کا کام نہیں کیا جاسکتا ہے ۔ میں فیڈرسے بجلی کی بندش تک جائے وقوعہ پر موجود رہا تاکہ کوئی بڑا حادثہ نہ پیش آجائے۔ذرائع کا کہنا ہے کہ احسن آباد میں کے الیکٹرک کے12ملازمین کے انٹرویو اور ریکارڈ کئے گئے بیان کی روشنی میں انکوائری کمیٹی کے سامنے راحیل نامی ملازم کا نام بھی سامنے آیا ہے ، جس کا ایمپلائی نمبر 80015983ہے ۔بتایا گیا ہے کہ راحیل نے کلٹر کے ایک ذمہ دار کے حکم پر حادثے کے بعد ایچ ای کی پیوندزدہ تاریں تبدیل کی تھیں تاکہ پولیس کو کے الیکٹرک کی غفلت کے شواہد نہ مل سکیں۔ذرائع کا کہنا ہے کہ راحیل سے بھی تحقیقات کا فیصلہ کر لیا گیا ہے۔انکوائری کمیٹی نے راحیل سمیت کلسٹر کے 4افسران کو تحقیقات کے لیئے پیر کو شاہراہ فیصل پر واقع سیفٹی ہاؤس میں طلب کیا ہے۔