کراچی( رپورٹ:نواز بھٹو) سندھ میں فنڈ ز کی قلت اور سیاسی بنیادوں پر تقسیم کے سبب 50 ہزار مستحقین زکوۃ کی رجسٹریشن نہ کی جاسکی۔ یہ درخواستیں گزشتہ کئی برس سے زیر التوا ہیں۔دوسری جانب 2017 کی غیر منظور شدہ مردم شماری کے مطابق سندھ میں زکوٰۃ مستحقین کی تعداد میں 15 ہزار اضافے کے ساتھ ایک لاکھ ہو گئی ہے جن کیلئے وفاقی حکومت نے 2 ماہ کی تاخیر سے گزارہ الاؤنس کی مد میں 1 ارب، 66 کروڑ، 20 لاکھ روپے جاری کر دئیے ہیں۔ادھر قومی ادارہ امراض قلب اپنے وسائل میں خود کفیل ہوگیا ہے اور اس نے محکمہ زکوۃ وعشر کو خط لکھ کر کہا ہے کہ ادارہ اپنے پاؤں پر کھڑا ہوچکا ہے اس لئے اسے دیئے جانے والے زکوۃ فنڈز کے ڈیڑھ کروڑ دیگر اسپتالوں میں خرچ کئے جائیں۔واضح رہے کہ محکمہ عشر و زکوٰۃ کی طرف سے مختلف اسپتالوں کو سالانہ 37 کروڑ، 59 لاکھ روپے جاری کئے جاتے ہیں جن میں اندرون سندھ کے چھوٹے اسپتالوں کے مریضوں کی امداد کے لئے 5 کروڑ، 4 لاکھ روپے بھی شامل ہیں۔ محکمہ زکوٰۃ کی جانب سے گردوں کے امراض، ڈائلسز اور کینسر میں مبتلا غریب مریضوں کی بھی معاونت کی جاتی ہے ۔ سندھ زکوٰۃ عشر ایکٹ 2011 کی دفعہ 9 کے تحت محکمہ زکوٰۃ آبادی کے تناسب کے حساب سے زکوٰۃ کی تقسیم اور مستحقین کی تعداد کا تعین کرنے کا پابند ہے تاہم فنڈز کی قلت کے باعث گذشتہ کئی برسوں سے مختلف اضلاع میں مزید 50 ہزار سے زائد درخواستیں زیر التوا ہیں۔محکمہ زکوٰۃ کے ذرائع کے مطابق اس وقت سندھ کے 5 اضلاع گھوٹکی، سکھر، خیرپور میرس، شکارپور اور لاڑکانہ میں بڑی تعداد میں مقامی افسران کی جانب سے سیاسی اثر رسوخ کی بنیاد پر زکوٰۃ دینے کی منظوری دی گئی ہے جن کی سفارش حکمراں جماعت کے اراکین پارلیمنٹ اور مقامی ضلعی عہدیداروں نے کی تھی۔ محکمہ زکوٰۃ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ سیاسی بنیادوں پر زکوٰۃ کے جاری ہونے کا سبب زکوٰۃ چیئرمینوں کا سیاسی بنیادوں پر تعینات کیا جانا ہے اس لئے وہ اپنے پارٹی عہدیداروں کی منظوری سے ہی مستحقین کے ناموں کی فہرست مرتب کرتے ہیں اور بے نظیر معاونت کارڈ جاری ہوتے ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ زکوٰۃ مستحقین میں سے درجنوں افراد کے انتقال کے بعد بے نظیر معاونت کارڈ ان کے ورثا استعمال کر رہے ہیں جبکہ محکمے کا دعویٰ ہے کہ ہر تین سال بعد جاری شدہ کارڈوں کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ سیکریٹری عشر و زکوٰۃ ریاض احمد سومرو نے رابطہ کرنے پر کہا کہ سیاسی بنیادوں پر زکوٰۃ چیئرمینوں کی تعیناتی کی وجہ سے ایسا ممکن ہے لیکن اگر ایسا ہے تو اس کی تحقیقات کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے لئے یہ اہمیت نہیں رکھتا کہ زکوٰۃ کس کو دی جا رہی ہے اہم بات یہ ہے کہ زکوٰۃ صرف مستحق افراد تک پہنچنی چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ اندرون سندھ کی مختلف اسپتالوں میں دی جانے والی زکوٰۃ استعمال نہیں ہو پاتی جس کی کئی وجوہات ہیں جن میں سے ایک اہم وجہ زکوٰۃ کے حصول کے طریقے سے آگاہی نہ ہونا بھی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جہیز فنڈ کے نام پر سالانہ 4 کروڑ روپے مختص کئے جاتے ہیں جس کے اجرا کو شفاف رکھا جاتا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ صوبے کی یونیورسٹیز میں زیر تعلیم 1 لاکھ، 45 ہزار، 125 طلبہ کی مالی معاونت کے لئے 10 کروڑ روپے سالانہ جاری کئے جاتے ہیں یہ رقم ہائر ایجوکیشن کی معرفت ادا کی جاتی ہے۔