ایران میں ریلوے مسافروں کیلئے بہترین سہولیات میسر ہیں

0

قسط نمبر 48
معروف ماہر ارضیات شمس الحسن فاروقی مختلف سرکاری اداروں میں خدمات انجام دے چکے ہیں۔ پاکستان معدنی ترقیاتی کارپوریشن (PMDC) میں چیف جیولوجسٹ کے عہدے پر بھی فائز رہے۔ افغانستان اور ایران کے تفصیلی ارضیاتی دورے کئے۔ اس کے علاوہ خطے کے معدنی دخائر پر متعدد تحقیقی مقالے بھی تحریر کر چکے ہیں۔ شمس الحسن فاروقی کی کتاب ’’رودادِ ایران‘‘ بلاشبہ تحقیق و مشاہدات پر مبنی ایسی تصنیف ہے جو ارضیات کے طلبہ سمیت ذوق مطالعہ رکھنے والے ہر فرد کو پسند آئے گی۔ قارئین کی دلچسپی اور معلومات کیلئے اس کتاب کے اقتباسات پیش کئے جارہے ہیں۔
بچوں کی دکان پر آکر مجھے کئی اہم فوائد حاصل ہوئے۔ اول یہ کہ مجھے معلوم ہوا کہ سیمنان کے بچے بھی بڑے پر اعتماد اور کامیاب دکاندار ہوتے ہیں۔ انہوں نے اپنی کامیاب دکانداری سے ایک غیر ملکی گاہک کو جو پوری طرح ان کی زبان بھی نہ سمجھتا تھا خاصی مقدار میں پنیر، شہد اور ایسا سفوف بھی فروخت کر ڈالا کہ جس کی بابت اسے معلوم نہ تھا کہ وہ ہے کیا شے اور جس کا مزہ بھی اس کے لئے نا پسندیدہ یا عجیب تھا۔ دوسرا فائدہ یہ ہوا کہ میں ان بچوں سے باتیں کرکے اور ان کی کامیاب دکانداری کی باتیں سن کر اور معصوم کوششیں دیکھ کر اتنا خوش ہوا کہ میری دلازیاں ’’نمک کی دیوار‘‘ کے ٹرپ کی ساری تھکن دور ہوگئی۔ تیسرا فائدہ معلومات میں اضافے کے ناطے اس اطلاع سے ہوا کہ سیمنان میں ایسی عجیب و غریب اشیا بھی کھائی جاتی ہیں جیسا کہ وہ برائون رنگ کا سفوف تھا۔ مگر اس پوری کہانی کا اختتام بھی بڑا دلچسپ ہوا۔ اور وہ یوں کہ جب میں خریدی ہوئی اشیا بچوں سے وصول کرکے اور ان کو خدا حافظ کہہ کر رخصت ہونے لگا تو انگلش داں بچہ مجھے جاتا دیکھ کر زور سے چیخا کہ: YOU SIT DOWN ’’تم بیٹھ جاؤ‘‘۔ اس وقت میری سمجھ میں آیا کہ وہ بیچارہ YOU STAND UP کو ’خوش آمدید‘ کا ہم ممعنی سمجھتا تھا اور YOU SIT DOWN کو ’خدا حافظ‘ کا ہم معنی سمجھتا تھا۔ اس طرح اس غریب نے جو کچھ اور جس وقت کہا، وہ اپنی دانست میں بالکل ٹھیک کہا۔
میں جلد جلد چلتا ہوا اپنے مہمان پذیر کے کمرے میں پہنچا تو معلوم ہوا کہ کمرے کا بلب فیوز ہوگیا ہے۔ ناگاہ منیجر کے کاؤنٹر پر پہنچا تو دیکھا کہ وہ خاتون موجود نہیں اور ان کی جگہ ایک خاصے بھاری بھرکم صاحب بیٹھے ہوئے ہیں۔ میں نے ان کے پاس جاکر کہا کہ جناب وہ خاتون کہاں ہیں۔ وہ صاحب مجھے گھور کر اور خاصے غصے سے بولے کہ اس خاتون سے تمہارا کیا کام ہے؟ میں نے عرض کی کہ ذاتی طور پر تو ان خاتون سے میرا کوئی کام نہیں، البتہ میں فلاں نمبر کمرے میں قیام پذیر ہوں، ابھی باہر سے آیا ہوں تو دیکھا کہ کمرے کا واحد بجلی کا بلب خراب ہے۔ کمرے میں اندھیرا ہے اور مسئلہ یہ ہے کہ مجھے ابھی اپنا رات کا کھانا بھی کھانا ہے۔ ان صاحب نے موٹی سی ’’ہونہہ‘‘ کی اور کہا چلو میرے ساتھ کمرے میں۔ میں ساتھ ہولیا۔ کمرے میں جاکر ان صاحب نے پہلے اپنی تسلی کی کہ آیا بلب واقعی فیوز ہوگیا ہے۔ پھر مجھ سے کہا کہ چلو میرے ساتھ!۔میں ساتھ ہولیا۔ وہ حضرت مجھے لے کر مہمان پذیر کے اسٹور میں گئے۔ مجھے یہ دیکھ کر تعجب بھی ہوا اور خوشی بھی کہ وہ ایک خاصا بڑا اسٹور تھا، جہاں دیواروں میں الماریاں بنی ہوئی تھیں اور متفرق بجلی کا سامان و اوزار، متفرق پلمبنگ کا سامان، متعلقہ اوزار و متفرق بڑھئی کا سامان اور اس کے ضروری اوزار اسٹور کے علیحدہ علیحدہ خانوں میں قرینے سے رکھے ہوئے تھے۔ ان صاحب نے بجلی کے سامان کے کمپارٹمنٹ سے ضروری اوزار اور ایک نیا بلب لیا و نیز ایک بڑا چوبی اسٹول لیا اور آگے آگے ہولیے۔ میرے کمرے پر پہنچ کر ان صاحب نے چوبی اسٹول کو بجلی کے متعلقہ پوائنٹ، جو کمرے کے وسط میں تھا، کے نیچے رکھا اور مجھے ہاتھ کے اشارے سے کہا کہ اس پر اپنا ہاتھ رکھ دو۔ میں نے تکلفاً اس پر اپنا دایاں ہاتھ رکھ دیا، کیونکہ کسی چار ٹانگوں والے چوبی اسٹول پر چڑھنے کے لئے عام طور سے کسی دوسرے شخص کے ہاتھ یا پیر رکھنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ مگر اس ’’خاص‘‘ اسٹول پر ہاتھ رکھنے کی ضرورت کا پتہ مجھے اس وقت چلا جب مہمان پذیر کے منیجر صاحب نے اسٹول کے ٹاپ پر چڑھنے کی کوشش میں ابھی اسٹول کے درمیانی حصے پر ہی قدم رکھا تھا کہ وہ ’’لچکدار‘ چوبی اسٹول ایک ’درد ناک‘‘ اور طویل چوں…ں… ں… ں کی آواز نکالتا ہوا مع اپنے مالک کے میرے اوپر آرہا۔ وہ تو خیر ہوئی کہ اس کی پہلی ’چوں‘ سے مجھے خطرے کا احساس ہوگیا تھا اور میں نے اپنے سیدھے ہاتھ کی مدد کے لئے اپنا بایاں ہاتھ بھی اس ’بولنے والے‘ لچکدار اسٹول پر رکھ دیا تھا اور کسی ممکنہ خطرے کا مقابلہ کرنے کے لئے اپنے آپ کو کسی حد تک تیار کرلیا تھا۔ مگر میں نے یہ بات قدرے تعجب سے دیکھی کہ منیجر صاحب کے چہرے پر اس ’حادثے‘ کے ردعمل کے طور پر کسی قسم کی پریشانی کے کوئی آثار نہیں تھے اور وہ بالکل پر سکون تھے۔ بظاہر وہ اس صورت حال کے لئے پہلے ہی تیار تھے اور مہمانوں کے ساتھ اس قسم کا مذاق کرنا اور پھر اس سے لطف اندوز ہونا ان کی عادت بن چکی تھی۔ اسی لئے انہوں نے اس بولنے والے لچکدار چوبی اسٹول کی نہ مرمت کرائی تھی، نہ ہی اسے تبدیل کیا تھا۔ اس کی ساخت اور اس کی لکڑی کی حالت کو دیکھ کر اندازہ ہوتا تھا کہ اغلباً وہ امیر تیمور کے حملوں کے دوران تباہی سے بچ جانے والے سامان کی یادگار ہے۔
قارئین کرام! ویسے تو یہ آخری جملہ تفریح طبع کے لئے ہی تحریر کیا گیا تھا، مگر اس کہنہ مشق اور لچکدار چوبی اسٹول کی حالت اور علاقے کی تاریخ کو مدنظر رکھا جائے تو اس میں حقیقت کا ایک واضح پہلو بھی نکلتا ہے اور وہ اس طرح کہ امیر تیمور اصفہان پر حملے کے لئے خراسان، سیمنان اور تہران کے راستے سے ہی گزرا تھا۔ اس زمانے میں سیمنان ایک ٹھیک ٹھاک اور لوٹے جانے کے قابل آبادی تھی۔ جبکہ تہران، جس کا نام اس زمانے میں ’رے‘‘ تھا، کسی بڑے زلزلے کے نتیجے میں ملبے کا ایک ڈھیر بن چکا تھا اور اس کی تمام آبادی اس ڈھیر کے نیچے دفن تھی۔
کمرے میں بلب یا بجلی کا قمقمہ لگ جانے کے بعد میں نے سیمنان کے پنیر، اعلیٰ قسم کے شہد اور براؤن پاؤڈر کے ملغوبے کا ڈنر کیا۔ پچھلی قضا نمازیں اور عشا کی نماز ادا کی، پھر چین کی نیند سو رہا۔ شکر ہے کہ سیمنان کے براؤن پاؤڈر نے میرے معدے میں کوئی منفی ایکٹیوٹی نہیں کی اور آسانی سے ہضم ہوگیا۔ دوسرے روز یعنی 7 مارچ 2002ء کی صبح میں سیمنان بس ’ترمینال‘ پر جا پہنچا اور وہاں سے آٹھ ہزار ریال کا ٹکٹ خرید کر بس میں سوار ہوگیا، جس نے آٹھ بجے صبح سیمنان سے کوچ کیا اور مجھے گیارہ بجے تہران کے بس ترمینال پر پہنچا دیا۔ اس طرح اس بس نے مجھے صرف تین گھنٹے میں یہ سفر طے کرادیا، جبکہ گزشتہ روز تہران سے سیمنان تک کا سفر میں نے ساڑھے تین گھنٹے میں طے کیا تھا۔ تہران پہنچ کر مہمان پذیر زنجان فیروز کوہ کے صندوق امانت سے اپنا سوٹ کیس کچھ بحث و مباحثے کے بعد وصول کیا، کیونکہ اس وقت جو لڑکا بطور منیجر کام کر رہا تھا اس نے اس بنا پر کہ میں کیونکہ اپنا سامان واپس لینے میں ڈیڑھ یا دو گھنٹے تاخیر سے پہنچا تھا اس لئے وہ مجھ سے اگلے چوبیس گھنٹوں کا کرایہ بھی چارج کر رہا تھا۔ اور وہ مجھ سے پانچ ہزار ریال مزید وصول کرکے ہی رہا۔ کیونکہ اپنی سیٹ میں نے پہلے ہی بک کرائی ہوئی تھی، اس لئے میں براہ راست تہران ریلوے اسٹیشن (ایشتگاہ راہ آہن) میں چلا گیا اور وہاں کی عام انتظار گاہ میں مع اپنے سامان ایک آرام کرسی پر دراز ہوگیا۔ سامنے ہی بڑا ٹیلی ویژن اسکرین تھا اور اس پر دلچسپ اور معلوماتی پروگرام چل رہا تھا۔ میرے ساتھ اور بہت سے مسافر حضرات بھی انتطارگاہ میں بیٹھے ہوئے تھے۔ مجھے ایرانیوں کا یہ بندوبست پاکستان کے مختلف درجات میں اور مختلف مقامات پر پھیلے ویٹنگ رومز سے بہت اچھا لگا کہ وہ آسان پہنچ رکھنے والا اور سب کے لئے ایک جیسا معیار رکھنے والا تھا۔ کاش ریلوے اسٹیشنوں پر انتظار گاہوں کا یہ سسٹم ہم ایران سے درآمد کرلیں۔ جتنی آسانیاں مسافروں کو پاکستان میں بڑے ہوائی اڈوں پر دستیاب ہوتی ہیں، اس سے زیادہ آسانیاں ایران میں بڑے شہروں کے بس اڈوں اور ریلوے اسٹیشنوں پر دستیاب ہوتی ہیں۔ ہر چند کہ پاکستان کے حالیہ دور میں ریلوے کے سفر میں نمایاں بہتری آئی ہے، مگر اس کے باوجود عام ایرانی ریل گاڑیوں پر مسافروں کو جو سہولیات میسر ہیں وہ پاکستان میں لائق صد تقلید ہیں۔ تمام یا اکثر ریل گاڑیوں کے ساتھ ڈائننگ کار منسلک ہوتی ہے اور وہاں صاف ستھرے ماحول میں اور مناسب ریٹ پر وہ تمام اقسام کے کھانے دستیاب ہوتے ہیں جو پاکستان میں کسی بھی اچھے ہوٹل میں دستیاب ہو سکتے ہیں۔ کھانے پینے کے برتن اور ان کی صفائی کا معیار بھی ہمارے اچھے ہوٹلوں کے مقابلے کا ہوتا ہے۔
ٹھیک پونے دو بجے صحیح وقت پر میری گاڑی تہران سے بندر عباس کے لئے روانہ ہوگئی۔ یہ تقریباً 1334 کلو میٹر طویل سفر تھا۔ ایران کی ٹرین پر سوار ہوا اور اپنے کمپارٹمنٹ تک گیا تو طبیعت خوش ہوگئی۔ یہ ایک صاف ستھری، جدید آسانیوں سے آراستہ ریل گاڑی تھی۔ مسافروں کے کیبنوں کے ساتھ ایک مختصر یا منی سروس روم تھا، جہاں سے مسافر حضرات کو تیار چائے، کافی اور بسکٹ وغیرہ مل سکتے تھے۔ ہر مسافر بذریعہ گیلری یا کاریڈور گاڑی کے پچھلے سرے سے اگلے سرے تک جاسکتا تھا، بغیر ہر دو بوگیوں کے درمیان ہچکو لے کھاتی پل صراطوں کے جو ہمارے ملک عزیز کی ٹرینوں کی پہچان ہیں۔ ٹرین کے ساتھ ڈائننگ کار منسلک تھی، جہاں مناسب قیمت پر مختلف قسم کا اور اعلیٰ درجے کا کھانا آپ بڑے اچھے ماحول میں نوش جان کرسکتے تھے۔ ہر مسافر کی محفوظ نشست پر ایک بڑا بنڈل موجود تھا، جس میں ڈرائی کلین کی ہوئی رضائی، ایک سفید براق چادر میں ملفوف مع ایک عدد تکیہ رکھی ہوئی تھی۔ ساتھ ہی اوپر کی برتھوں پر چڑھنے کے لئے ہر اوپری برتھ پر ایک عدد فولڈنگ ٹائپ، ہلکے اسٹیل کی سیڑھی رکھی ہوئی تھی۔ (جاری ہے)

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More