سرفروش

0

قسط نمبر112
عباس ثاقب
یہ ایک ایسے شخص کی کہانی ہے جس نے نوجوانی کے امنگوں بھرے دور میں اپنی جان خطرے میں ڈال دی۔ صرف اس لئے کہ وطن عزیز پاکستان کو دشمنوں سے محفوظ رکھا جا سکے۔ جمال صاحب کراچی کے قدیم رہائشی ہیں اور ان دنوں گمنامی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ عمر کے آخری حصے میں بصد اصرار اس بات پر آمادہ ہوئے کہ اپنی زندگی کے تہلکہ خیز گوشوں سے پردہ اٹھائیں۔ ان کا اصل نام کچھ اور ہے۔ بعض نا گزیر اسباب کی بنا پر انہیں ’’جمال‘‘ کا فرضی نام دیا گیا ہے۔ اس کہانی کو ڈرامائی شکل دینے کیلئے کچھ زیادہ محنت نہیں کرنی پڑی۔ کیونکہ یہ حقیقی ایڈوینچر کسی سنسنی خیز ناول سے زیادہ دلچسپ ہے۔ جمال صاحب کی کہانی ان لوگوں کیلئے دعوتِ فکر ہے، جنہیں یہ ملک بغیر کسی جد و جہد اور محنت کے ملا اور انہوں نے اس کی قدر کرنے کے بجائے اسی سے شکایات شروع کر دیں۔ امید ہے کہ قسط وار پیش کی جانے والی یہ کہانی ’’امت‘‘ کے خوش نظر قارئین کی پذیرائی حاصل کرے گی۔ (ادارہ)
میں نے کیمرا سنبھال کر سب سے پہلے اپنی اس رات کے رت جگے کا نتیجہ دیکھا۔ و ہ فوٹو گرافس باقیوں کے لیے خواہ کتنے ہی دھماکا خیز رہے ہوں، کتابی صفحے کے سائز کے پرنٹس میں میرے لیے کوئی نئی بات نہیں تھی۔ لیکن اتنے چھوٹے سے کیمرے کے اتنے عمدہ رزلٹ نے مجھے حیران کر دیا۔ اکثر تصاویر اپنی جزویات کی حد تک واضح تھیں اور ایک آدھ تو کسی معیوب رسالے کے سر ورق کے لیے منتخب ہو سکتی ہیں۔ ان میں سچن اور اس کی شریکِ شب کی شکلیں بالکل واضح تھیں۔
ان اشتعال انگیز تصویروں کو دوبارہ براؤن لفافے میں رکھ کر میں نے اس میں موجود پرچے پر درج تحریر پر توجہ مرکوز کر دی۔ نکتہ در نکتہ، مرحلہ بہ مرحلہ مندرج ہدایات و مشورے بلا شبہ انتہائی عرق ریزی سے مرتب کیے گئے تھے۔ خاص بات یہ تھی کہ مجھے حسبِ موقع اپنے ذہن کے مطابق حکمتِ عملی مرتب کرنے اور اس پر عمل درآمد کرنے کی بھی اجازت دی گئی تھی۔ جبکہ ان ہدایات کے مطابق مجھے اپنے تحفظ و سلامتی یقینی بنانے کو بھی کہا گیاتھا اور رازکھلنے کا خطرہ درپیش ہونے پر سچن کو گولی مارکر فرار ہونے کا مشورہ دیا گیا تھا۔
میں نے خاصی توجہ کے ساتھ ان ڈھیروں تصویروں میں سے کل پانچ تصویروں کا انتخاب کیا اور انہیں اسی لفافے میں رکھ کر سیدھا سچن کے گھر جا پہنچا۔ اس نے مجھے گھر میں آنے کی دعوت دیتے ہوئے طنزیہ لہجے میں پوچھا ’’ابے آج خالی ہاتھ آگیا اپنے گُرو کے پاس؟‘‘۔
میں نے مصنوعی خفگی سے کہا ’’یس باس، ہم کل سمجھ گیا ہے…۔ کباب کھائے گا تو ساتھ تم ڈرنک بھی کرے گا، اور پھر ہمارا ٹریننگ گول ہو جائے گا۔ تم پہلے میں آج کا لیسن (سبق) دو، اس کے بعد تم جو کہے گا، وہ لاکر کھلائے گا‘‘۔
میری بات سن کر وہ ہنس پڑا۔ ’’ابے بوتل بھی ختم ہے!‘‘۔
میں نے فیاضانہ لہجے میں کہا ’’فکر نہ کرو، ہم اپنا گُرو کو بوز (شراب) بھی لاکر دے گا۔ مگر پہلے ہمارا آج کا ٹریننگ!‘‘۔
وہ میری بات مان گیا اور میری ٹریننگ کا باقاعدہ آغاز ہو گیا۔ ظاہر ہے یہ سب تو اس کی جڑوں میں اترنے کا ایک ہتھکنڈا تھا، تاہم میں پوری دلچسپی سے اس کی ’’استادی‘‘ دیکھتا رہا۔ بالآخر اس نے اس روز کا سبق ختم ہونے کا اعلان کیا۔ اس پر میں نے گفتگو کا رخ اپنے مطلب کی جانب موڑتے ہوئے کہا ’’باس میں نے بہت پہلے ایک انگلش فلم دیکھا تھا، بہت پسند آیا تھا۔ اس کا نام Betrayal (اعتماد کو دھوکا دینا، بے وفائی، دغا بازی) تھا۔ تم نے دیکھا تھا وہ فلم؟‘‘۔
اس نے بے توجہی سے کہا۔ ’’نہیں، اس نام کی کوئی ہالی وڈ مووی مجھے تو یاد نہیں‘‘۔
میں نے کہا ’’زیادہ ہٹ نہیں ہوا تھا۔ مگر میرے کو اس کا اسٹوری بہت پاور فل لگا تھا۔ ایک کوئین ہوتا ہے۔ وہ اپنے ایک سرونٹ کو پسند کر کے اس سے شادی کرلیتا ہے۔ مگر بعد میں پتا چلتا ہے کہ اس کے ہزبینڈ کا کریکٹر بہت لوز (خراب) ہے۔ وہ اسے دھوکا دے کر اسی کا دولت پر عیاشی کرتا ہے اور پراسٹیچیوٹس (جسم فروش عورتیں) کے ساتھ ریلیشن شپ رکھتا ہے۔ بہت سے ٹوئسٹ اینڈ ٹرن (پیچ و خم) کے بعد فلم کا آخر میں اس کا پول کھل جاتا ہے اور پرنسس اپنے ہزبینڈ کو شوٹ کردیتا ہے‘‘۔
میں نے سچن کو واضح طور پر چونکتے ہوئے دیکھا۔ اس نے غور سے میری طرف دیکھا۔ میں نے انجان بنتے ہوئے کہانی جاری رکھی۔ ’’مجھے تو اس دو نمبر باسٹرڈ پر بالکل رحم نہیں آیا۔ کوئین کو اسے اس سے بھی بری پنشمنٹ (سزا) دینا چاہیے تھا۔ تمہارا کیا خیال ہے باس؟‘‘۔
میرا لہجہ نہ چاہتے ہوئے بھی معنی خیز ہو گیا تھا۔ میں نے اس کے چہرے پر تشویش کی جھلک دیکھی۔ بالآخر وہ بولا تو اس کی آواز میں لرزش تھی۔ ’’اس نے ٹھیک کیا۔ اچھا اب جاؤ۔ مجھے نیند آرہی ہے‘‘۔
میں نے معنی خیز لہجے میں کہا ’’کیوں باس۔ کیا آج بھوکے ہی سونا ہے؟ بھول گئے، مجھے تمہارے لیے باربی کیو اور بلیک لیبل وسکی لانا ہے؟ ہاں ، کامنی دیوی کو بلانا یا نہ بلانا تمہاری مرضی ہے!‘‘۔
یہ سنتے ہی اس کا چہرہ لٹھے کی چادر کی طرح سفید ہوتا چلا گیا۔ اس نے کچھ کہنا چاہا، لیکن آواز اس کے حلق میں اٹک کر رہ گئی۔ میں نے لوہا گرم دیکھتے ہوئے ایک اور ضرب لگائی ’’ویسے شاید تم بھی نہیں جانتے ہوگے کہ بظاہر گزارے لائق شکل کی وہ عورت کافی فوٹو جینک (تصویر میں اچھا دکھائی دینا) چہرے کی مالک ہے‘‘۔
یہ سن کر اس کی حالت مزید بگڑتی دکھائی دی۔ میں نے بات جاری رکھی۔ ’’مجھے تو اس پر رحم آرہا ہے۔ اس کے ساتھ تم تو بالکل بن مانس لگتے ہو۔ یقین نہیں آرہا تو یہ تصویر دیکھ لو۔ خود ہی مان لو گے‘‘۔
یہ کہہ کر میں نے اس رات کھینچی گئی سنگین تصویروں میں سے ایک نکال کر اس کے سامنے رکھ دی۔ اس کی آنکھیں حیرت اور وحشت سے پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ میں نے تھوڑے تھوڑے وقفے سے باقی چاروں تصویریں بھی اس کے سامنے میز پر سجا دیں۔ اس کی نظریں دیوانہ وار ان پانچوں تصویروں پر چکرا رہی تھیں۔ بالآخر اس نے میری طرف دیکھا۔ لیکن میرے چہرے پر معنی خیز مسکراہٹ دیکھ کر وہ گڑبڑا گیا۔
اس نے خود کو سنبھالنے کی کوشش کی۔ بالآخر اپنے لہجے کو حتی الامکان مضبوط بناتے ہوئے وہ بولا۔ ’’تمہیں شاید علم نہیں ہے کہ میں نیول فورس کا سینیئر آفیسر ہوں۔ تم نے میری جاسوسی کر کے سنگین جرم کیا ہے۔ تم جانتے ہو یہ جرم تمہیں کتنی لمبی سزا دلا سکتا ہے؟‘‘۔ (جاری ہے)

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More