احمد نجیب زادے
سعودی عرب میں علاج کی جدید ترین سہولیات اور مفت طبی امداد کے باوجود اسپتالوں کا 60 فیصد عملہ تشدد کا نشانہ بن چکا ہے۔ مشتعل لواحقین علاج میں غفلت برتنے کا الزام لگاکر ڈاکٹروں اور دیگر اسٹاف پر خنجروں اور لاٹھیوں سے حملے کردیتے ہیں۔ جبکہ مسیحاؤں کو مغلظات بکے جانا عام سی بات ہے۔ تشدد کے واقعات فی میل نرسوں کیخلاف بھی رپورٹ ہوئے ہیں۔ ایک تازہ سروے میں شامل ہونے والے اسپتال کے ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل اسٹاف نے تصدیق کی ہے کہ مشتعل لواحقین اور خود مریضوں کی جانب سے تشدد کی بد ترین وارداتیں کی جاتی ہیں، جن میں ڈاکٹرز، نرسوں اور پیرا میڈیکل اسٹاف پر دوران ڈیوٹی جسمانی تشدد کیا جاتا ہے، ان پر تھوکا جاتا ہے، ان کو اور ان کے والدین کو مغلظات بکی جاتی ہیں، تھپڑ رسید کئے جاتے ہیں، دھکے دے کر گرا دیا جاتا ہے اور کئی کیسوں میں مریض کے لواحقین تلوار، خنجر یا لاٹھیوں سے لیس ہوکر اسپتالوں میں در آتے ہیں اور کسی بھی مرحلے پر ڈاکٹروں پر حملہ کرنے سے نہیں چوکتے۔ سعودی گزٹ کے مطابق سعودی کمیشن آف ہیلتھ اسپیشلسٹ کو پیرا میڈیکل اسٹاف اور ڈاکٹرز کی جانب سے صرف ایک ماہ جون 2018 میں جسمانی تشدد اور مغلطات بکنے کی 130 تحریری کمپلین موصول ہوئی ہیں۔ عربی زبان کے مقامی جریدے المدینہ نے بتایا ہے کہ حالیہ ایام میں سعودی اسپتالوں میں ڈاکٹروں، نرسوں، ٹیکنیشنز اور میڈیکل ڈائریکٹرز پر حملوں اور تشدد کی وارداتوں میں بے انتہا اضافہ ہو چکا ہے۔ جون ہی کے مہینے میں ایک بندوق بردار نے ریاض کے کنگ سلمان اسپتال میں ایک نرس پر فائرنگ کردی تھی لیکن خوش قسمتی سے وہ بچ گئی۔ سعودی اتھارٹیز نے طبیبوں اور طبی عملہ کیخلاف تشدد کی روک تھام کیلئے سخت قانون اپنایا ہے اور اعلان کیا ہے کہ تشدد کرنے پر حملہ آوروں کو دس سال قید با مشقت اور دس لاکھ سعودی ریال جرمانہ کی سزا دی جائے گی۔ ہیلتھ منسٹر ڈاکٹر توفیق الربیعہ نے بتایا ہے کہ شعبہ صحت کے اراکین اور طبیبوں کا ہر قیمت پر تحفظ کیا جائے گا۔ سعودی حکومت کی جانب سے اُٹھائے جانے والے سخت ترین اقدامات اور کارروائیوں کے باوجود سعودی اسپتالوں میں ڈاکٹروں اور نرسوں سمیت پیرا میڈیکل اسٹاف پر حملوں کو نہیں رکوایا جاسکا ہے، جس پر سعودی ہیلتھ ورکرز نے احتجاج اور ہڑتال کی دھمکی بھی دی ہے۔ تازہ رپورٹ کے حوالہ سے سعودی میڈیا نے بتایا ہے کہ رجسٹرڈ حملوں کی تعداد کے مطابق تقریباً 60 فیصد سعودی ڈاکٹرز اور طبی عملہ مریضوں اور لواحقین کے جسمانی تشدد اور مغلظات سہنے پر مجبور ہیں۔ سعودی حکومت کے ملاحظہ کیلئے پیش کئے جانے والے ایک تازہ سروے میں یہ حقیقت بیان کی گئی ہے جو ’’کنگ خالد یونیورسٹی /ابہا ‘‘ کے ماہرین کی جانب سے مکمل کیا گیا ہے۔ کنگ خالد یونیورسٹی میڈیسن فیکلٹی کے ڈائریکٹر پروفیسر سفر آل سلیم نے بتایا ہے کہ علاج میں عجلت کرنے اور اپنے مریض کی طبی حالت میں فوری سدھار چاہنے والے مشتعل لواحقین، حتیٰ کہ مریضوں نے خود بھی دوران علاج ڈاکٹروں کو تھپڑ رسید کئے اور ان کو مغلظات بکیں۔ جبکہ کئی کیسوں میں لواحقین نے طبی عملہ کے اراکین اور ڈاکٹروں کو خنجر مارے جبکہ کئی کیسوں میں مریضوں اور لواحقین نے طبی عملہ کو تھپڑ رسید کرنے اور لاٹھیوں سے سر عام پیٹنے سے بھی احتراز نہیں کیا۔ سعودی ڈاکٹرز کی ٹیم کے سروے میں 800 کے لگ بھگ ڈاکٹرز، نرسوں، اٹینڈنٹس اور فارماسسٹ حضرات سے انٹرویوز کئے گئے تھے، جن کا کہنا تھا کہ ان کو کم از کم ایک بار اور زیادہ سے زیاہ تین بار جسمانی تشدد کاہدف بنایاگیا۔ جبکہ ڈاکٹرز سمیت تمام اسٹاف کو مغلظات بکنا سعودی مریضوں اور لواحقین کا عام وطیرہ بن چکا ہے۔ سعودی اسکالرز کی جانب سے کئے جانے والے اس سروے کو متعدد سعودی میگزینز نے شائع کیا ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ گالیوں اور الزامات کا نشانہ بننے والے شعودی ڈاکٹروں اور پیرا میڈیکل اسٹاف کا تناسب 59.9 تھا، جبکہ مغلظات سننے کے ساتھ ساتھ چہرے پر تھپڑ کھانے والے اسٹاف اور ڈاکٹرز کا تناسب 33 فیصد رہا۔ اس سروے کے مطابق براہ راست جسمانی حملوں کا نشانہ بن کر شدید اور معمولی زخمی ہونے والے ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل اسٹاف کی تعدادکل سروے کا 12 فیصد رہی، جس میں ان کو خنجر سمیت لاٹھیوں اور کند ہتھیاروں سے نشانہ بنایا گیا۔ اس سروے میں مزید انکشاف کیا گیا ہے کہ سعودی مریضوں اور ان کے لواحقین کے زبانی اور جسمانی تشدد کا شکار بننے والوں میں ملکی اور غیر مرد ڈاکٹر اور عملہ کے ساتھ ساتھ خواتین ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل اسٹاف بھی شامل ہے۔