مرزا محمد سلطان فتح الملک شاہ بہادر عرف مرزا غلام فخرالدین عرف مرزا فخرو کی عمر اس وقت کوئی بتیس چونتیس کی ہوگی۔ ان کی تاریخ پیدائش 1233ء مطابق 1812ء ہے۔ وہ ابو ظفر محمد سراج الدین بہادر شاہ کے چوتھے بیٹے تھے۔ ابو ظفر محمد سراج الدین بہادر شاہ ثانی 29 ستمبر 1837ء کو سریر آرائے سلطنت ہوئے تھے۔ اس وقت مرزا محمد دارا بخت بہادر عرف میراں شاہ سب سے بڑے بیٹے تھے اور ٹامس مٹکاف نے انہیں پانچ اشرفیاں اسی وقت نذر کر کے ان کی ولی عہدی کا اعلان کر دیا تھا۔ میران شاہ بہادر کے بعد بہادر شاہ کے دوسرے بیٹے مرزا محمد شاہ رخ بہادر تھے۔ انہیں وزیر اعظم و مختار عام کا عہدہ تفویض ہوا۔ تیسرے بیٹے مرزا کیومرث بہادر کو ولی عہد دوم کا عہدہ دیا گیا۔ ان کے بعد مرزا محمد سلطان فتح الملک بہادر تھے، جنہیں ولی عہد سوم مقرر کیا گیا۔ یہ بات واضح نہیں ہوئی ہے کہ مرزا محمد شاہ رخ بہادر کو ولی عہد دوم کیوں نہیں مقرر کیا گیا اور کیا وجہ تھی کہ وزیر اعظم و مختار عام
جیسے جلیل القدر مناصب کے حامل ہونے کے باوجود انہیں بادشاہی کی وراثت میں کوئی درجہ نہیں دیا گیا تھا۔ ممکن ہے اس کی وجہ یہ ہو کہ بادشاہ کی نظر میں مرزا محمد شاہ رخ بہادر کسی نامعلوم بنا پر بہت محبوب نہ تھے۔
مرزا کیومرث بہادر کے بارے میں مشہور کیا گیا ہے کہ وہ لیاقت ذاتی کی بنا پر، یا محض ہوس کے باعث، خود کو ولی عہدی کا سب سے بہتر مستحق سمجھتے تھے۔ دولت مغلیہ میں ولی عہد نام کا کوئی منصب نہ تھا اور حکمراں کی موت یا معزولی کی صورت میں خانہ جنگی یا خونریزی کے بعد ہی نئے حکمراں کا فیصلہ ہوتا تھا۔ لیکن انگریزوں نے یہاں بھی تصرف کر کے ابو ظفر محمد سراج الدین بہادر شاہ ثانی کی ولی عہدی کے وقت سے یہ طے کر دیا قتھا کہ حکمراں کا سب سے بڑا بیٹا ولی عہد، اور پھر وارث تاج و تخت ہوگا۔ لہذا خود ٹامس مٹکاف ہی نے مرزا دارا بخت کی ولی عہدی کا اعلان ابو ظفر سراج الدین بہادر شاہ کی تخت نشینی کے وقت کر دیا تھا۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہ تھا کہ ولی عہدی اور پھر وراثت کے جھگڑے آئندہ نہ پیدا ہو سکیں گے یا شہزادگان اپنے
لئے اپنے طور پر ولی عہدی یا بادشاہی کے لئے ساعی نہ ہوں گے۔
اس زمانے کے شہزادوں کی طرح مرزا فخرو نے بھی اعلیٰ تعلیم حاصل کی تھی۔ وہ کئی طرح کے خط نہایت عمدہ لکھتے تھے اور رقص و موسیقی میں کلاونت اور مہاراج کا درجہ رکھتے تھے تو شہسواری اور تیر اندازی میں بھی طاق تھے۔ انگریزی وہ اچھی خاصی سیکھ چکے تھے۔ ریختہ میں وہ استاد ذوق کے شاگرد تھے اور رمز ان کا تخلص تھا۔ فارسی میں انہوں نے مولانا صہبائی کے آگے زانوئے تلمذ تہ کیا تھا، اگرچہ خود فارسی نہ کہتے تھے۔ صورت شکل ان کی ہوبہو باپ جیسی تھی۔ اور شاہزادوں کے برخلاف وہ اکثر سوار ہو کر شہر میں نکلتے اور بعض ممتاز ہندیوں اور انگریزوں سے سلسلہ ملاقات بھی رکھتے تھے۔ ان سب باتوں کے باوجود مرزا فخرو اپنے باپ کے بہت چہیتے نہ تھے۔ ممکن ہے ان کے مزاج کی یہی سب خصوصیات، یعنی ان کی بیدار مغزی، جدید حالات کا شعور اور ان حالات سے ساز کرنے، یا ان کے خلاف مقاومت کرنے کے لئے ان کی تیاریاں، بادشاہ کے لئے ناخوشنودی کا سامان فراہم کرتی ہوں۔ اور شاید انہیں باتوں کی وجہ سے، کہ مرزا فخرو خود کو بدلی ہوئی اور مزید بدلتی ہوئی تیرہویں صدی کا اہل بنانا چاہتے تھے، بادشاہ جم جاہ کو مرزا فخرو سے کچھ بہت لگاؤ نہ تھا اور وہ انہیں بیشتر دور ہی دور رکھتے تھے، لیکن مرزا نے فخرو نے اپنی راہ متعین کرلی تھی۔
مرزا فتح الملک بہادر کی ازدواجی زندگی عام تیموریوں کے برخلاف بہت محدود تھی۔ ان کی پہلی شادی چہیتی عم زاد فضیلت النسا بیگم سے ہوئی تھی، جو شاہزادہ جہانگیر مرزا، یعنی ابو ظفر سراج الدین بہادر شاہ ظفر کے خوبصورت، حریت پسند لیکن آزاد رو چھوٹے بھائی کی بیٹی تھیں۔ جس طرح باپ کا حسن ضرب المثل تھا، اسی طرح بیٹی کے بھی جمال سے سارا قلعہ روشن کہا جاتا تھا۔ جیسا کہ پہلے مذکور ہوا، مرزا جہانگیر نے دو بار انگریز کے ساتھ شوریدہ سری اور سختی کا برتاؤ کیا تھا اور دو بار جلا وطن ہوکر بنارس اور پھر الہ آباد بھیج دیئے گئے تھے۔ دوسری جلا وطنی ان کی موت کا پروانہ ثابت ہوئی۔ یہ سال 1821ء کا تھا۔ ان کی چہیتی بیٹی بھی بہت دن نہ جی سکیں۔ انہیں فضیلت النسا بیگم کے بطن سے مرزا ابو بکر پیدا ہوئے تھے۔ مرزا ابو بکر 1857ء کے زمانے میں انگریز کی مخالفت میں پیش پیش اور اپنے چچا مرزا ظہیرالدین عرف مرزا مغل بہادر (بہادر شاہ ظفر کے چھٹویں بیٹے) کے ساتھ انگریز کے خلاف نبرد آرا تھے۔ انہوں نے مرزا مغل اور مرزا خضر سلطان (بہادر شاہ ظفر کے آٹھویں بیٹے) کے ساتھ فتح دہلی کے بعد انگریز افسر ہاڈسن کے ہاتھوں جام شہادت نوش کیا۔
مرزا محمد سلطان فتح الملک بہادر نے پہلی بیوی کے انتقال کے بعد ہی دوسری شادی کی۔ یہ مرزا ہدایت افزا عرف مرزا الہیٰ بخش کی بیٹی حاتم زمانی بیگم تھیں۔ ان سے ایک بیٹی پیدا ہوئی تھی۔ بہادر شاہ نے اسی بیٹی کی دودھ چھڑائی کے موقع پر منعقد تقریبات رقص و سرود میں شرکت کی تھی اور شرکا کو انعامات سے سرفراز کیا تھا۔ مرزا الہیٰ بخش وہی ہیں، جن کے بارے میں مشہور ہے کہ انگریزوں کے جاسوس اور بہی خواہ اور بادشاہ کے بدخواہ تھے۔ فتح دہلی کے بعد انگریزوں نے انہیں بہت نوازا اور خاندان شاہی کا سرپرست تسلیم کر لیا تھا۔ گمان غالب ہے کہ حاتم زمانی بیگم اور فتح الملک بہادر میں بنتی نہ تھی۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭