انوکھا کیس – ولدیت پاکستان لکھنے کے معاملے پر نادرا سے ریکارڈ طلب
اسلام آباد(رپورٹ اخترصدیقی )سپریم کورٹ نے ولدیت کے خانے سے والدکانام ہٹانے سے متعلق آئینی وقانونی معاونت کے لیے مخدوم علی خان کوعدالتی معاون مقررکرتے ہوئے لڑکی کے والدکے مالی ریکارڈکامعاملہ ایف آئی اے کے ہاتھ میں دے دیاہے اور 10 میں رپورٹ طلب کی ہے ۔16سال بعدبیٹی کاباپ کاسپریم کورٹ میں آمناسامنا،لڑکی نے باپ کوسرپر ہاتھ رکھنے کی بھی اجازت نہیں دی ،اور کمرہ عدالت میں بھی والدکی جانب دیکھنے سے بھی گریزکرتی رہی ،میڈیاسے گفتگومیں بھی لڑکی کالہجہ والدکے لیے زہر سے بھراہواتھااوروہ مسلسل درخواست کرتی رہی کہ عدالت اس کی ولدیت کے خانے سے والدکانام نکال دے ۔چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے لڑکی کے والدکوسخت ڈانٹ پلاتے ہوئے کہاکہ وہ کیسے والدہیں کہ سولہ سال کاعرصہ گزرگیااور اپنی بیٹی سے ملے تک نہیں ،بچی کے ضائع شدہ ماہ وسال توواپس نہیں لاسکتے مگر گزرے سالوں کاحسا ب والدسے ضرور لیں گے ۔بیٹی کے اتنے سال ضائع کردیے ،اب والدچاہے چوری کرے یاڈاکہ ڈالے انھیں سار ے سالوں کاحساب دیناہوگا۔جمعرات کوایک با رپھر عدالتی تاریخ کے انوکھے مقدمے کی دوسری سماعت ہوئی جس میں ماں ،بیٹی کے ساتھ ساتھ والدبھی عدالت میں پیش ہوئے والدجتنی دیر عدالت میں موجودرہے اپنی بیٹی اور سابقہ بیوی سے آنکھیں چراتے رہے ،اور لڑکی نے بھی اپنے باپ کی جانب ایک باربھی نگاہ بھرکرنہیں دیکھا۔بیٹی کا چہرہ سپاٹ اور سخت تھا۔وہ بار بار کمرہ عدالت میں مسلسل ہونٹ چباتی رہیں اور ہاتھو ں کومروڑتی رہیں ۔جمعرات کوسپریم کورٹ نے والد کے چھوڑ جانے پر لڑکی کی ولدیت میں ’پاکستان‘ لکھنے کے معاملے پر نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) سے 10 روز میں تمام ریکارڈ طلب کرتے ہوئے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کو والد کا مالی ریکارڈ پیش کرنے کا حکم دے دیا۔چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے سرکاری دستاویز سے لڑکی کے والد کا نام ہٹا کر پاکستان لکھنے سے متعلق کیس کی سماعت کی، اس دوران درخواست گزار لڑکی تطہیر فاطمہ، ان کی والدہ فہمیدہ بٹ اور والد محمد شاہد ایوب، نادرہ ڈائریکٹر و دیگر عدالت پیش ہوئے۔دوران سماعت چیف جسٹس نے لڑکی کے والد سے استفسار کیا کہ اتنے سال آپ نے اپنی بیٹی سے کیوں رابطہ نہیں کیا، یہ لڑکی اپنے نام سے آپ کا نام ہٹانا چاہتی ہے، یہ کہہ رہی ہے کہ میرا نام تطہیر فاطمہ بنت پاکستان کریں، پاکستان ہماری ماں اور باپ بھی ہے۔اس پر لڑکی کے والد نے بتایا کہ یہ میری بیٹی ہے، میں نے اس سے ملنے کی بہت کوششیں کیں، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کیا کوششیں کیں، ہمیں تو کچھ نظر نہیں آرہا۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیسے والد ہیں، لڑکی کو چھوڑ کر چلے گئے، جس پر والد نے کہا کہ میں نے نہیں چھوڑا، مجھے تو لڑکی کی ماں ملنے ہی نہیں دیتی تھی۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ لڑکی سے آخری بار کب ملے تھے، جس پر والد نے بتایا کہ 2002میں آخری بار ملا تھا، اس کے بعد ملنے نہیں دیا گیا۔اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ 16سال سے آپ بیٹی سے نہیں ملے، آپ کو شرم آنی چاہیئے، ہم خود دیکھیں گے کہ کس طرح لڑکی کے نقصان کا مداوا کیا جائے۔دوران سماعت عدالت میں موجود تطہیر فاطمہ کا کہنا تھا کہ میں جب میٹرک میں تھی تو اس وقت کچھ دستاویزات کی ضرورت پڑی لیکن مجھے میرے والد نے کہا کہ دستاویز تب دوں گا، جب قریبی تھانے میں لکھ کر دو گی کہ تمہاری والدہ ’بدکردار‘ عورت ہے اور میں اس کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی۔لڑکی کے بیان پر چیف جسٹس نے والد کو مخاطب کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ آپ نے اس لڑکی کے کئی سال ضائع کردیے، آپ کو اس کا مداوا کرنا پڑے گا، چاہے چوری کرو یا ڈاکہ ڈالو لیکن تمام گزرے برسوں کا خرچ آپ سے لیا جائے گا۔اس پر لڑکی کے والد کا کہنا تھا کہ میں غریب آدمی ہوں، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ غریب ہو تو جیل چلے جاوٴ، سول مقدمات کا سامنا کرو۔عدالت میں تطہیر نے مزید بتایا کہ جو بچے والدین کے ستائے ہوئے ہیں، ان کو حق ہونا چاہیے کہ جو اس کی کفالت کرے اسی کا نام اس کو لکھنے دیں۔تطہیر فاطمہ نے کہا کہ میری ماں نے بہت مشکلات سے مجھ کو پالا، لہٰذا میرے والد کا نام تمام سرکاری دستاویز سے ہٹایا جائے۔اس دوران تطہیر فاطمہ کی والدہ نے کہا کہ صرف پیسے ہی کفالت نہیں ہوتے، والد کا نام ہٹ جائے گا تو لڑکی کو اطمینان ہوگا۔چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیے کہ شریعت اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ بیٹی کے نام کے ساتھ والد کا نام ہٹایا جائے۔لڑکی کا والد شاہد انجم بھی عدالت میں پیش ہوا اور موقف اختیار کیا کہ ’میں مرتے دم تک اس بچی کا باپ ہوں، مجھے افسوس ہے کہ بچی کی وجہ سے آج اس جگہ کھڑا ہوں‘۔چیف جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے کہ ’آپ بچی کی وجہ سے نہیں، اپنی وجہ سے یہاں کھڑے ہیں‘۔شاہد انجم نے کہا کہ ’1996 میں بیوی سے علیحدگی کے وقت مجھے سربازار بے عزت کیا گیا اور مجھے کبھی بیٹی سے ملنے نہیں دیا گیا‘۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا کبھی بیٹی سے ملنے کی کوشش کی؟ یا بیٹی سے ملاقات نہ کروانے کے خلاف عدالت سے رجوع کیا؟جس پر لڑکی کے والد شاہد انجم نے جواب دیا، ’جی نہیں کیا‘۔چیف جسٹس نے شاہد انجم سے مزید استفسار کیا، کہ کیا کبھی اپنی بیٹی کو خرچہ بھجوایا؟ بعد ازاں عدالت نے مخدوم علی خان کو عدالتی معاون مقرر کرتے ہوئے 10 دن میں نادرا کو تمام ریکارڈ فراہم کرنے کا حکم دے دیا۔