کراچی( رپورٹ:عمران خان )سندھ کے سرکاری اسپتالوں کے لئے اسلام آباد کی بدنام زمانہ ایورسٹ فارما کمپنی سے 10کروڑ روپے کی جعلی اور مضر صحت ادویات کی خریداری کی تحقیقات میں ایف آئی اے نے سابق سیکرٹری صحت سندھ فضل اللہ پیچوہو کی نگرانی میں ٹینڈر دے کر خریداری کرنے والی کمیٹی کے اراکین اور طریقہ کار کا ریکارڈ طلب کرنے کے لئے 194کے تحت حتمی لیٹرز ارسال کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔محکمہ صحت سندھ کو ایف آئی اے کی جانب سے ریکارڈ طلبی کے لئے پہلے ارسال کردہ لیٹرز کے جواب میں محکمہ صحت سندھ کے حکام ریکارڈ فراہم کرنے سے گریزاں ہیں جس کے نتیجے میں اس اسکینڈل کی تحقیقات متاثر ہو رہی ہیں۔ایف آئی اے نے دو ماہ قبل محکمہ صحت سندھ کو ارسال کردہ لیٹرز میں نہ صرف خریداری کا ریکارڈ طلب کیا تھا بلکہ خریداری کی منظوری دینے والے افسران اور ان کے کردار کے حوالے سے بھی معلومات طلب کی گئیں تاہم یہ ریکارڈ دینے کے بجائے محکمہ صحت سندھ کے حکام نے ایف آئی اے کے لیٹرز ضلعی اور تحصیل سطح کے اسپتالوں کے ایم ایس کو بھیج دئے تاکہ وہ جواب دیں ،ایف آئی اے ذرائع کے بقول ریکارڈ فراہم کرنا محکمہ صحت کے مرکزی سیکریٹریٹ آفس کی ذمے داری ہے کیونکہ مالی سال 2017-2018کے بجٹ میں سے سندھ کے 23سرکاری اسپتالوں کے لئے کی گئی ادویات کی اس خریداری کی ذمے داری پروکیورنمٹ کمیٹی کی تھی جس کے لئے سابق سیکرٹری صحت فضل اللہ پیچوہو کی جانب سے ان کے دست راست ریحان بلوچ کے کہنے پر سینٹرل پروکیورنمنٹ کمیٹی بنائی گئی تھی تاکہ ٹی ایچ کیو اور ڈی ایچ کیو کی سطح پر ٹینڈرز دے کر خریداریاں کرنے کے بجائے ایک ہی سینٹرل خریداری کمیٹی تمام ضروری خریداریوں کے امور نمٹا کر ضلعی ،تحصل اور تعلقہ کے سرکاری اسپتالوں کو ان کی طلب کردہ ادویات فراہم کرسکے۔ اس کے لئے جو طریقہ کار اپنایا گیا تھا اس کے مطابق تمام ضلعی اور تعلقہ کے اسپتال اپنے ایم ایس کے ذریعے سینٹرل پروکیورنمنٹ کمیٹی کو آگاہ کرتے تھے کہ انہیں کو ن سی ادویات کس مقدار میں درکارہیں تاہم جب سے ایف آئی اے کی جانب سے تحقیقات شروع کی گئی ہیں سیکریٹریٹ کی جانب سے خود ریکارڈ فراہم کرنے کے بجائے ضلعی اور تعلقہ کے اسپتالوں کے انچارجوں کوپابند کیا جا رہا ہے کہ وہ ریکاردڈ فراہم کریں ،ایف آئی اے ذرائع کے بقول تحقیقات شروع ہونے کے بعد جب پہلی بار نوٹس ارسال کئے گئے تو محکمہ صحت کے اعلیٰ حکام کی جانب سے ریکارڈ آنے کے بجائے ضلع اور تحصیل کے سرکاری اسپتالوں کے انچارجوں کی جانب سے ایف آئی اے کو ریکارڈ فراہم کردیا کہ ایورسٹ فارما کمپنی سے فلاں فلاں ادویات مذکورہ اسپتال میں آئی ہیں اور ان کی مقدار کا ریکارڈ بھی فراہم کردیا گیا اور ساتھ ہی آگاہ کردیا کہ یہ اسٹاک اب ”سیلڈ “ ہے اور اسپتال میں موجود ہے اس کے بعد دوبارہ درست ریکارڈ حاصل کرنے کے لئے ایک بار پھر ایف آئی اے کی جانب سے ریمائنڈر نوٹس ارسال کئے گئے اور اس پر بھی صوبائی محکمہ صحت سندھ کے سیکریٹریٹ سے جوا ب میں ریکارڈ دینے کے بجائے اسپتالوں کے ڈاکٹرز کو ارسال کردئے گئے ،ایف آئی اے کرائم اینڈ اینٹی کرپشن سرکل کراچی میں جاری اس انکوائری کے افسر نے ’’امت‘‘ کو بتایا ہے کہ اہم کیس پر تحقیقات محکمہ صحت کی جانب سے متعلقہ ریکارڈ فراہم نہ کرنے کی وجہ سے رکی ہوئی ہیں اور اب ریکارڈ کی طلبی کے لئے 194کے تحت حتمی نوٹس ارسال کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے جس کے بعد ایک ریمائنڈر دینے کے بعد عدالت کے ذریعے ریکارڈ حاصل کرنے کے لئے چھاپہ مار کارروائی کرنے کی اجازت حاصل کی جائے گی ،ذرائع کے بقول گزشتہ مالی سال میں محکمہ صحت سندھ کی جانب سے ایورسٹ فارما نامی کمپنی سے10کروڑ روپے کی درجنوں اقسام کی ادویات خرید کرکے سندھ کے تمام سرکاری اسپتالوں میں فراہم کی گئی تھیں جن میں مختلف قسم کے سیرپ اور انجکشن شامل تھے ،بعد ازاں رواں برس فروری میں ایورسٹ فارما کی جعلسازیوں کے معاملات اس وقت سامنے آنا شروع ہوئے جب وفاقی ڈرگ ریگو لیٹری اتھارٹی کے حکام کی جانب سے کمپنی اور اس کے مالک کے خلاف سپریم کورٹ میں رپورٹ جمع کروائی گئی تھی۔ڈرگ ریگو لیٹری اتھارٹی (ڈریپ ) کے حکام نے عدالت کو آگاہ کیا تھاکہ ایورسٹ فارما کے مالک چوہدری عثمان سنگین خلاف ورزیوں کے مرتکب ہوئے ہیں اور بااثر ہونے کی وجہ سے ڈریپ کے افسران کو خاطر میں نہیں لاتے جس پر سپریم کورٹ کی جانب سے نوٹس لیا گیا اور نہ صرف اس کمپنی کو ادویات سمیت سیل کیا گیا بلکہ لیبارٹری ٹیسٹ بھی کروائے گئے جس میں ادویات غیر قانونی اور غیر معیاری ثابت ہوئیں۔ بعد ازاں سپریم کورٹ کے احکامات پر کمپنی کے مالک چوہدری عثمان کو 6مارچ کو احاطہ عدالت سے گرفتار کرکے اڈیالہ جیل منتقل کردیا گیا چونکہ اس وقت تک سندھ حکومت کے حکام اس کمپنی سے کروڑوں روپے کی ادویات خرید چکے تھے اس لئے خود کو بچانے کے لئے صوبائی ڈرگ انسپکٹرز کو استعمال کرکے سندھ کے تمام 29اضلاع میں 26ڈرگ انسپکٹرز کے ذریعے 40سے زائد سرکاری اسپتالوں سے ایورسٹ فارما کی فراہم کردہ ادویات کے نمونے اٹھوائے گئے اور انہیں جانچ پڑتال کے لئے لیبارٹری بھجوادیا گیا جہاں سے معلوم ہوا کہ 37ادویات کے نمونوں میں سے زیادہ ترغیر رجسٹرڈ اور غیر قانونی ہیں جبکہ باقی غیر معیاری ثابت ہوگئے جس کے بعد یہ اسٹاک سیل کردیا گیا۔ اس طرح سندھ حکومت کے کروڑوں روپے ضائع کر دئے گئے۔ذرائع کے بقول جس وقت یہ خریداری کی گئی اس وقت بھی ایورسٹ فارما سوٹیکل کمپنی کی ساکھ اچھی نہیں تھی کیونکہ ڈرگ ریگو لیٹری اتھارٹی میں اس کمپنی کے حوالے سے بہت سی شکایات موجود تھیں اور صوبائی ڈرگ ڈپارٹمنٹ کے افسران بھی اس کمپنی کی ساکھ اور شکایات کے حوالے سے باخبر تھے تاہم اس کے باجود صوبائی سیکرٹری صحت فضل اللہ پیچوہو اور ان کے قریبی افسر ریحان بلوچ کی منظوری سے مذکورہ کمپنی سے اتنی بھاری مقدار میں ادویات کی خریدی گئیں،ذرائع کے مطابق فرحان بلوچ پر الزامات ہیں کہ انہوں نے سابق سیکرٹری ہیلتھ کے توسط سے سینٹرل پروکیورنمنٹ کمیٹی اس لئے بنوائی تھی تاکہ بھاری کمیشن کے عوض من پسند کمپنیوں کو نوازنے اور ان کے ٹینڈر منظور کرنے کی راہ ہموار کی جاسکے،جبکہ معاملہ سامنے آنے کے بعد منصوبے کے تحت صوبائی ڈرگ انسپکٹرز کو احکامات دئے گئے کہ ایورسٹ فارما کی ادویات کے خلاف ان کی تحقیقات کی روشنی میں سندھ پولیس کے ذریعے کارروائی کو آگے بڑھایا جائے ورنہ عمومی طور پر کراچی میں جب بھی ادویات غیر قانونی یا غیر معیاری ثابت ہوں ان پر صوبائی ڈرگ انسپکٹرز ایف آئی اے کے ذریعے کارروائی آگے بڑھاتے رہے ہیں جس کے لئے انہیں صوبائی کوالٹی کنٹرول بورڈ سے اجازت لے کر ایف آئی اے میں تحریری درخواست اور لیبارٹری رپورٹس کے ہمراہ مدعی بننا ہوتا ہے جس پر ایف آئی اے افسران مقدمات درج کرکے ڈرگ کورٹ میں کیس چلاتے ہیں ،ڈرگ ڈپارٹمنٹ کے افسران کے مطابق ایف آئی اے کے ساتھ انہیں کام کرنے میں آسانی ہوتی ہے ایک تو ڈرگ ایکٹ ایف آئی اے کے شیڈول میں شامل ہوتا ہے اور ایف آئی اے افسران کے پاس ایکسپرٹیز ہیں دوسرایہ کہ مقدمہ کی تیاری اور سیزر میموبنانے میں بھی آسانی رہتی ہے جبکہ سندھ کے تھانوں میں تعینات افسران کو پروسیکیوشن کے لئے سندھی اور اردو زبان میں رپورٹیں تیار کرکے دینی ہوتی ہیں اور پھر انہیں تکنیکی معاملہ بار بار سمجھانا پڑتا ہے جس کی وجہ سے غیر ضروری تاخیر ہوتی ہے ،ذرائع کے بقول جن اسپتالوں سے اسٹاک ضبط کئے گئے ان کے متعلقہ تھانوں میں تحریری شکایات متعلقہ ڈرگ انسپکٹرز کی مدعیت میں درج کروائی گئیں جس کے لئے صوبائی کوالٹی کنٹرول بورڈ کے افسران نے خصوصی ہدایات جاری کی تھیں کہ کمپلین تھانوں میں ہی دی جائیں کیونکہ انہیں مقدمات میں تبدیل کرواناہی نہیں تھا تاکہ وقت گزرنے کے ساتھ ہی کیس کو دبایا جاسکے ۔ذرائع کے مطابق اس وقت ڈرگ ڈپارٹمنٹ کے انسپکٹرز کے شعبے کو بالکل غیر فعال کردیا گیا ہے روں برس اپریل سے چیف ڈرگ انسپکٹر کا عہدہ خالی ہے جس کی وجہ سے کئی انکوائریاں اور تحقیقات رکی ہوئی ہیں۔