محمد زبیر خان
بیگم کلثوم نواز کے انتقال پر مقبوضہ کشمیر میں بھی سوگ منایا جا رہا ہے۔ مرحومہ کے آبائی قصبے سمیت مختلف مقامات پر قرآن خوانی کا اہتمام اور تعزیتی ریفرنس منعقد کئے گئے۔ سابق خاتون اول کو سوشل میڈیا پر دختر کشمیر قرار دیا جا رہا ہے۔ کلثوم نواز کے آبا و اجداد کا تعلق مقبوضہ کشمیر کے علاقے اسلام آباد (اننت ناگ) کے ایک چھوٹے مگر سیاحتی قصبے ویری ناگ (Verinag) سے تھا۔ بیگم کلثوم نواز نے اپنے بزرگوں سے اپنے آبائی علاقے کے حوالے سے تفصیلات اور مختلف واقعات سے آگاہی حاصل کر رکھی تھی۔ مرحومہ اپنی زندگی میں مقبوضہ کشمیر میں موجود اپنے رشتہ داروں کے ساتھ نہ صرف رابطے میں رہتی تھیں، بلکہ ممکنہ حد تک ان کی مدد بھی کیا کرتی تھیں۔
واضح رہے کہ مرحومہ کلثوم نواز رستم زمان غلام محمد عرف گاما پہلوان کی نواسی تھیں۔ جنہوں نے قیام پاکستان کے وقت کشمیر میں اپنے آبائی علاقے کو خیرباد کہہ کر پاکستان کا انتخاب کیا تھا۔ آزادی سے قبل ہی رستم زمان گاما پہلوان نے کئی ملکی اور بین الاقوامی اعزاز جیت لئے تھے۔ وہ پچاس سال تک اپنی پشہ ورانہ کشتی میں ناقابل شکست رہے تھے۔ انہوں نے 1963ء میں لاہور میں وفات پائی۔ بیگم کلثوم نواز 1950ء کو لاہور میں پیدا ہوئیں اور انہوں نے اپنے بچپن کا بیشتر وقت اپنے نانا کے ساتھ گزارا۔ رستم زمان کے خاندانی ذرائع نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ غلام محمد عرف گاما پہلوان اکثر اوقات اپنے پوتے پوتیوں اور نواسے نواسیوں کو کشمیر کے واقعات، وہاں پر لڑی جانے والی کشتیاں، اپنے پہلوان والد محمد عزیز جو کے واقعات، اپنے دوستوں اور رشتہ داروں کے واقعات سنایا کرتے تھے۔ ان ذرائع کے مطابق اس موقع پر بیگم کلثوم نواز ان واقعات میں بہت زیادہ دلچسپی لیا کرتی تھیں۔ ان کو اپنے نانا اور دیگر بزرگوں سے سنے گئے مقبوضہ کشمیر اور وہاں موجود رشتہ داروں کے حوالے سے تمام واقعات ازبر تھے۔ ذرائع نے بتایا کہ گاما پہلوان اور پھر ان کے بعد لاہور میں موجود ان کے خاندان کے بعض افراد مقبوضہ کشمیر میں اپنے اعزہ سے کسی نہ کسی حد تک رابطہ رکھتے تھے۔ تاہم بیگم کلثوم نواز نے ہمیشہ رابطے رکھے اور ان کی اولادوں سے بھی اپنی زندگی کے آخری لمحے تک رابطے میں رہیں۔ خاندانی ذرائع نے بتایا ہے کہ سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کی اہیلہ مرحومہ بیگم کلثوم نواز نہ صرف یہ کہ مقبوضہ کشمیر میں موجود اپنے رشتہ داروں کے ساتھ رابطے میں رہتیں، بلکہ ممکنہ حد تک جو کچھ بھی ہوسکتا ان کی مدد بھی کیا کرتی تھیں۔ بالخصوص ان کشمیریوں سے جو وقتاً فوقتاً ہجرت کرکے پاکستان آتے رہے، ان کو پاکستان میں رہائش، کاروبار اور ملازمت کے معاملات میں مدد کی اور بعد ازاں ان کی خبر گیری بھی کرتی رہیں۔ ذرائع کے مطابق بیگم کلثوم نواز ہجرت کرنے والے دیگر کشمیری نوجوانوں کی بھی مالی مدد کرتی تھیں۔ کئی نوجوانوں کو بیرونی ممالک میں اعلیٰ تعلیم دلوانے کیلئے وسائل فراہم کئے۔ ذرائع کے بقول اسی کردار کی وجہ سے بیگم کلثوم نواز مقبوضہ کشمیر میں اپنے آبائی علاقے اور رشتہ داروں میں کافی معروف تھیں۔ ان کے انتقال پر ان کے آبائی علاقے ویری ناگ سمیت کئی مقامات پر قرآن خوانی کا اہتمام اور تعزیتی ریفرنس منعقد کئے گئے ہیں۔
سابق خاتون اول بیگم کلثوم نواز کی وفات پر جہاں بھارت کے میڈیا نے خبریں، اداریے اور مضامین شائع کئے ہیں، وہیں مقبوضہ کشمیر کے میڈیا، اخبارات اور رسائل نے بھی اداریے، کالم اور مضمامین شائع کئے ہیں۔ کئی ایک اخبارات نے بیگم کلثوم نواز کی وفات کی خبر کو نمایاں طور پر شائع کیا۔ اس حوالے سے مختلف قسم کے مضامیں کی اشاعت کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ بیگم کلثوم نواز کے انتقال پر حریت کانفرنس کے چیئرمین سید علی گیلانی نے خصوصی طور پر اپنے تعزیتی پیغامات جاری کئے ہیں۔ یاسین ملک کی پاکستان میں موجود اہلیہ مشال ملک نے بھی اپنی بیٹی کے ہمراہ گزشتہ روز میاں نواز شریف سے تعزیت کی۔ جبکہ یاسین ملک نے نواز شریف سے فون پر تعزیت کا اظہار کیا۔ دیگر حریت رہنمائوں نے بھی تعزیتی پیغامات بھیجے ہیں۔ علاوہ ازیں مقبوضہ کشمیر سے سوشل میڈیا پر بھی کلثوم نواز کی سیاسی جدوجہد پر خراج تحسین پیش کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ مقبوضہ کشمیر کے ممتاز صحافی یوسف جمیل نے اپنے ٹویٹر اکائونٹ پر فیس بک کے ایک صارف جو اسلام آباد سے تعلق رکھتے ہیں، کو ایک پوسٹ شیئر کی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ ’’دختر کشمیر محترمہ کلثوم نواز کینسر کے عارضہ سے لڑتے ہوئے بالآخر زندگی کی بازی ہار گئیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں جنت الفردوس میں جگہ عنایت فرمائے۔ ہم کشمیری دعائے مغفرت کے علاوہ اور کر بھی کیا سکتے ہیں‘‘۔ صحافی یوسف جمیل نے اپنے سوشل میڈیا پیغام میں بتایا ہے کہ ’’کلثوم نواز شریف کی وفات پر کشمیر میں بڑے پیمانے پر تعزیتی تقاریب منعقد کی جا رہی ہیں اور لوگ افسردہ ہیں۔ سوشل میڈیا پر مرحومہ کو خراج تحسین پیش کرنے کا سلسلہ جاری ہے‘‘۔
٭٭٭٭٭