سرفروش

0

عباس ثاقب
کچھ ہی دیر میں وہ دونوں شادی سے متعلق دیگر موضوعات پر گفتگو میں الجھ گئے اور میں نے اطمینان کا سانس لیا۔ ان دونوں کا باہمی پیار قابلِ رشک تھا۔ تاہم وہ ہر کچھ دیر بعد کسی نہ کسی بات پر الجھ پڑتے تھے اور پھر خود بہ خود مان جاتے۔ اس دوران وہ مجھے بھی بار بار اپنی گفتگو میں شامل کرتے رہے۔ ان کے اصرار پر مجھے کھانے میں بھی شریک ہونا پڑا۔
اس دوران میری نظریں ٹرین سے باہر کے مناظر پر جمی ہوئی تھیں۔ میری دلچسپی محسوس کرتے ہوئے ان میاں بیوی نے کھڑکی کے ساتھ والی نشست میرے حوالے کر دی تھی۔ فریدکوٹ سے روانگی کے لگ بھگ آدھے گھنٹے بعد ٹرین دو منٹ کے لیے کوٹ کپورا کے ریلوے اسٹیشن پر رکی اور مسافروں کی ایک چھوٹی سی ٹولی سوار ہوئی۔ مزید آدھے گھنٹے بعد ایک اور چھوٹا سا اسٹیشن دو منٹ کا اسٹاپ بنا، جس کا نام میں صحیح طرح پڑھنے میں ناکام رہا۔
میں ابھی تک کوئی خطرے والی بات نہیں بھانپ سکا تھا۔ تاہم جیسے جیسے بٹھنڈا قریب آرہا تھا، میرا اضطراب بڑھ رہا تھا۔ ایک ساتھ پانچ اہل کاروں کی خفیہ پولیس کے تھانے میں ہلاکت کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ دلّی تک کھلبلی مچ گئی ہوگی۔ جانے کیا کیا ہنگامی انتظامی سرگرمیاں جاری ہوں گی۔ اس خون خرابے کو یقیناً میری گرفتاری اور فرار سے جوڑا گیا ہوگا اور میری تلاش زور و شور سے جاری ہوگی۔ میں ایک طرح سے سیدھا موت کے پھندے میں جا رہاں ہوں۔ کیونکہ اس شہر کے بہت سے لوگوں نے مجھے بغور دیکھا ہے۔ کوئی بھی مجھے پہچان کر میرے لیے مصیبت کھڑی کر سکتا ہے۔
اگرچہ اس واقعے کو دو دن گزر چکے ہیں، تاہم قوی امکان تھا کہ ریلوے اسٹیشن اور بس اڈوں وغیرہ پر نظر رکھی جا رہی ہوگی۔ کہیں میں ٹرین سے اترتے ہی ان درندوں کے شکنجے میں نہ پھنس جاؤں۔ اب تو ظہیر بھی میرے لیے فرشتۂ رحمت بن کر نہیں آئے گا۔ توکیا میں بٹھنڈا اترنے کے بجائے آگے روانہ ہو جاؤں؟۔
میں ابھی شش و پنج میں ہی تھا کہ لاجو ’’بھرجائی‘‘ نے مجھے مخاطب کر کے چونکا دیا ’’آکاش بھرا جی، تُسی وی بٹھنڈے جانا اے؟‘‘۔
میرے منہ سے بے ساختہ ہاں نکل گیا، جس پر مجھے جھنجلاہٹ بھی ہوئی، لیکن اب کچھ نہیں ہو سکتا تھا۔ میری بات سن کر وہ دونوں خوش ہوگئے۔ لیکن ساتھ ہی جوگندر جی نے سوال جڑ دیا ’’تُسی بٹھنڈے شہر وچ رہندے او؟‘‘۔
میں نے نفی میں سر ہلایا اور اچانک ذہن میں آنے والی ایک کہانی سنادی ’’نئیں جی، میں تے تنگوالی جانا اے‘‘۔
میری بات سن کر جوگندر خوش ہوکر بولا ’’او جی اے تے کمال ہوگیا، سانوں وی اسی پاسے گلاب گڑھ جانا اے۔ تنگوالی تے بس دو تین میل رہ جاندا اے اوتھوں!‘‘۔
اس سے پہلے کہ میں کچھ کہتا، لاجو بھرجائی نے جوش سے کہا ’’آکاش بھرا جی، تُسی ساڈے نال ای گلاب گڑھ چلو۔ حویلی تو جیپ اپڑ گئی ہونی، جگہ دی کوئی تھوڑ نی ہونی! سویرے تنگوالی ٹُر جانا!‘‘۔ (آکاش بھائی، آپ ہمارے ساتھ ہی گلاب گڑھ چلیں۔ حویلی سے جیپ آگئی ہوگی، جگہ کی کوئی کمی نہیں ہوگی۔ آپ صبح تنگوالی چلے جانا)۔
اس سے پہلے تو میں اس جوڑے سے جان چھڑانے کے طریقے ڈھونڈ رہا تھا۔ لیکن اس موقع پر مجھے ان کی پیشکش ایک نعمت خداوندی لگی۔ خصوصاً اس امید کے ساتھ کہ ریلوے اسٹیشن پر اترنے والے ایک تنہا مسافر کے مقابلے میں سکھ گھرانے کے ایک فرد کی حیثیت سے میرا پولیس والوں کی نظروں میں آنے کا امکان واضح طور پر کم ہوجاتا۔ میں نے فرضی پس و پیش کے ساتھ ان کی پیشکش قبول کرلی۔
خدا خدا کر کے پنجاب میل بٹھنڈا کے ریلوے اسٹیشن کے پلیٹ فارم پر پہنچی۔ میں نے اس سے پہلے ہی بھرجائی کی گٹھڑی اور منع کرنے کے باوجود جوگندر کا چرمی بیگ اٹھا لیا تھا۔ پلیٹ فارم پر اترتے ہی جوگندر کے بھتیجے اور ایک ملازم نے ہمارا استقبال کیا اور ملازم نے جوگندر سے اس کا بکسا اور مجھ سے گٹھڑی لے لی، تاہم میں نے چرمی بیگ نہیں دیا۔ جوگندر نے اس ہٹے کٹے نوجوان سے متعارف کراتے ہوئے کہا ’’اے میرا شیر پتیجھا مہندر اے، تے مہندر، اے آکاش جی نے، اناں نے ساڈی چنگی مدد کیتی اے، آکاش ساڈے نال گلاب گڑھ چلن گے‘‘۔
مہندر نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے گرم جوشی سے میرا خیر مقدم کیا۔ ہم لوگ ایک ٹولی کی شکل میں ریلوے اسٹیشن کے بیرونی دروازے کی طرف روانہ ہوئے۔ میں چور آنکھوں سے دیکھ رہا تھا کہ پلیٹ فارم پر پولیس کی نفری معمول سے زیادہ ہے۔ لیکن ان میں سے کوئی ہماری متوجہ دکھائی نہیں دیا۔ میں نے اطمینان کا سانس لیا۔
جوگندر کے اصرار پر میں مہندر کے ساتھ سامنے والی نشست پر بیٹھا اور جیپ بٹھنڈا شہر سے باہر جانے والی ایک سڑک پر چل پڑی۔ مہندر بڑے جوش و خروش سے اپنے چچا اور چچی سے تبادلہ خیال کرتے ہوئے گھر والوں اور شادی کی تیاریوں کا احوال بتارہا تھا۔ ان کی باتوں سے پتا چلا کہ جوگندر کے بڑے بھائی ہرمندر کی بیٹی سمرن چار دن بعد اپنے گھر کی ہونے والی ہے اور خاندانی حویلی میں جشن کا سماں ہے۔ مہندر نے چچا اور چچی کو خبردار کیا کہ انہیں اتنی تاخیر سے پہنچنے پر گھر والوں کی کھری کھری سننے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ اس دوران وہ لوگ مجھے بھی باتوں میں شریک کرتے رہے۔ لیکن اس دوران میرا ذہن تیزی سے آنے والی صورت حال کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ (جاری ہے)

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More