نعیم اللہ/ محمد شاہد
نوشہرہ کے عوام بلند و بانگ دعوے کرنے والی تحریک انصاف سے اکتا گئے۔ گزشتہ الیکشن میں کلین سوئپ کرنے والی پی ٹی آئی کو اس بار قومی کی دو اور صوبائی اسمبلی 5 نشستوں پر متحدہ مجلس عمل (ایم ایم اے) کی جانب سے سخت مقابلے کا سامنا ہے۔ ضلع میں صوبائی حکومت کی نااہلی کے باعث گندگی سمیت دیگر مسائل کے انبار لگ گئے۔ جبکہ یہاں سے منتخب ہو کر وزیر اعلیٰ خیبر پختون بننے والے پرویز خٹک اہم سرکاری عہدوں پر اپنے رشتہ داروں کو فٹ کراتے رہے۔
ضلع نوشہرہ پشاور ڈویژن کا تیسرا بڑا ضلع ہے، جہاں ان دنوں الیکشن کی سرگرمیاں عروج پر ہیں۔ ضلع نوشہرہ میں قومی اسمبلی کے 2 حلقوں این اے 25 اور 26 سے11 امیدوار عام انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔ یہ حلقے پہلے این اے4 اور 5 شمار کئے جاتے تھے۔ حالیہ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق حلقہ این اے 25کی کل آبادی 748777 اور این اے 26کی کل آبادی 769763 ہے۔ آبادی کے اعتبار سے حلقہ این اے26 بڑا حلقہ ہے اور یہ زیادہ دیہی علاقوں پر مشتمل ہے،جس میں چراٹ، تحصیل پبی، پبی میونسپل کمیٹی اور دیگر ملحقہ دیہی علاقے شامل ہیں۔ اسی طرح این اے 25 میں نوشہرہ کینٹ، نوشہرہ میونسپل کمیٹی اور دیگر ملحقہ علاقے شامل ہیں۔ ان حلقوں میں 2002ء سے 2013ء تک تین انتخابات کے دوران ووٹر ٹرن آئوٹ 35 سے 47 فیصد تک رہا۔ ضلع نوشہرہ کے 5 صوبائی حلقوں 61 تا 65 پر مجموعی طور پر 25 امیدوار مدمقابل ہیں۔ تاہم اصل مقابلہ متحدہ مجلس عمل، پاکستان تحریک انصاف اور عوامی نیشنل پارٹی کے امیدواروں میں ہوگا۔ این اے25 میں سابق وزیر اعلیٰ پرویز خٹک خود میدان میں ہیں۔ ان کا مقابلہ عوامی نیشنل پارٹی اور متحدہ مجلس عمل کے امیدواروں سے ہوگا۔ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ ضلع میں پہلے پاکستان تحریک انصاف نے کلین سویپ کیا تھا۔ اس وقت مذہبی جماعتوں کا ووٹ بینک تقسیم تھا، اگر اس بار یہ ووٹرز متحد ہو گیا تو ضلع نوشہرہ میں نتائج مختلف ہوں گے۔ دوسری جانب عوام کا کہنا ہے کہ ضلع نوشہرہ کے مسائل کا فوری حل نہ ہونا ایک بڑا مسئلہ رہا ہے، کیونکہ ہر مسئلہ کا حل وزیراعلیٰ ہائوس کی ٹیلی فون کال تھی۔ اس کے بغیر ضلع کے مسائل حل نہیں ہوتے تھے، جس سے متعدد معاملات زیر التوا ہیں۔ دھرنا سیاست نے ضلع نوشہرہ کے عوام کو کافی متاثر کیا۔ تحریک انصاف کی صوبائی قیادت اسلام آباد دھرنے میں شریک رہتی تھی اور ادھر عوام کے چھوٹے بڑے مسائل جوں کے توں رہے۔ فنڈز کی خرد برد کا مسئلہ ہر محکمہ میں موجود رہا، جن میں اسپورٹس فنڈز کی خرد برد زبان زد عام ہے۔ عوامی نمائندے غیر معیاری ترقیاتی کاموں کی بھی نشاندہی کرتے رہے، لیکن صوبائی حکومت نے ان کی ایک نہ سنی۔ بلکہ اکثر ٹھیکے وزیر اعلیٰ ہاؤس کے منظور نظر افراد کو دئیے جاتے رہے۔ قومی اسمبلی کے انتخاب میں سابق وزیر اعلیٰ کے مد مقابل امیدواروں نے نشاندہی کی ہے کہ پرویز خٹک کا نواسا ابھی تک محکمہ سی اینڈ ڈبلیو نوشہرہ کا ڈائر یکٹر ہے، جو الیکشن کمیشن کے قواعد وضوابط کی خلاف ورزی ہے۔ شہر بھر میں صفائی ستھرائی کی صورت حال ابتر ہے۔ پرویز خٹک کے اپنے محلے مانکی شریف میں گندگی نے لوگوں جینا محال کر دیا ہے۔ جبکہ ان کا بیٹا تحصیل ناظم اور بھائی بھی ضلع ناظم ہیں۔ حلقہ این اے25 میں سابق وزیر اعلیٰ پرویز خٹک پاکستان تحریک انصاف، ذوالفقار علی شاہ متحدہ مجلس عمل اور اے این پی کے ملک جمعہ خان کے درمیان مقابلہ ہوگا۔ پرویز خٹک کو مضبوط امیدوار کہا جارہا ہے، لیکن تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ اس بار حلقہ کے عوام سرپرائز دے سکتے ہیں۔ اس حلقے سے مسلم لیگ (ن) کے سراج محمد خان اور پاکستان پیپلز پارٹی کے خان پرویز خان بھی انتخابی دوڑ میں شامل ہیں۔ این اے 26 میں پی ٹی آئی کے امیدوار سابق وزیر اعلیٰ پرویز خٹک کے داماد ڈاکٹر عمران خٹک پی ٹی آئی، ایم ایم اے کے امیدوار مرحوم قاضی حسین احمد کے صاحبزادے آصف لقمان قاضی اور اے این پی کے جمال خان خٹک میں مقابلہ ہوگا۔ اس حلقے سے پاکستان پیپلز پارٹی کے فیروز جمال شاہ اور مسلم لیگ (ن) کے حاجی نواب خان بھی میدان میں ہیں۔ یہاں سے پاکستان تحریک انصاف کی منحرف رکن عائشہ گلالئی نے بھی الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔
واضح دوسری جانب 2018ء میں ضلع نوشہرہ کے صوبائی حلقوں کا نمبر شمار تبدیل کردیا گیا ہے۔ صوبائی حلقہ پی کے 65 سے اے این پی کے مرکزی جنرل سیکرٹری میاں افتخار حسین الیکشن لڑ ر ہے ہیں، جن کے مقابلے میں پی ٹی آئی کے سابق ایم پی اے خلیق الرحمان اور ایم ایم اے محمد طارق خٹک کھڑے ہیں۔ دیگر امیدواروں میں پی پی پی کے محمد داؤد خٹک، اور قومی وطن پارٹی کے اشتیاق الرحمان شامل ہیں۔ پی کے64 پر پی ٹی آئی کے امیدوار پرویز خٹک، ایم ایم اے کے امیدوار پرویز خان اور اے این پی کے محمد شاہدکے درمیان کانٹے دار مقابلے کا امکان ہے۔ اس نشست پر پی پی پی کے میاں یوسف جمال شاہ بھی مقابلے کے دوڑ میں شامل ہیں۔ پی کے 63 قربان علی ایم ایم اے کے امیدوار ہیں، ان کے مد مقابل پی ٹی ائی کے امیدوار جمشید اور اے این پی کے محمد شاہد ہیں۔ جبکہ پی پی پی کے ٹکٹ پر سابق صوبائی وزیر لیاقت علی شباب اور ن لیگ کے اختر ولی حصہ لے رہے ہیں۔ پی کے 62 پر ایم ایم اے کے امیدوار عالم خان، پی ٹی آئی کے محمد ادریس، اے این پی کے ٹکٹ پر خلیل عباس انتخاب لڑ رہے ہیں۔ جبکہ پی پی پی کے ٹکٹ پر بصیر احمد خٹک اور ن لیگ کے ٹکٹ سے محمد نہال الیکشن میں شریک ہیں۔ پی کے 61 پر پانچ امیدوار مد مقابل ہیں، جن میں اہم مقابلہ پرویز خٹک، اے این پی کے امیدوار پرویز احمد خان اور ایم ایم کے امیدوار عنایت الرحمان کے درمیان ہوگا۔ یہاں پیپلز پارٹی کے امیدوار محمد اسلام اور پی ٹی آئی (گلالہ) کے راشد خان بھی مقابلے کی دوڑ میں شامل ہیں۔ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ ’’ کسی دور میں نوشہرہ پیپلز ہارٹی کا گڑھ تصور کیا جاتا تھا۔ پھر اسے عوامی نیشنل پارٹی نے اپنا مرکز بنایا۔ اس کے بعد یہاں تحریک انصاف چھا گئی۔ تجزیہ نگاروں کا مزید کہنا ہے کہ نوشہرہ سابق وزیر اعلیٰ پرویز خٹک کا اپنا انتخابی حلقہ ہے، ان سے عوام کو بہت امیدیں وابستہ تھی لیکن وہ عوام کی امیدوں پر پورا اترنے میں ناکام رہے۔ اپنے دور اقتدار میں انہوں نے سیاسی مخالفین کو نشانہ بنایا جس کی وجہ سے ان کے بارے میں عوام میں کوئی مثبت رائے نہیں پائی جاتی۔
Prev Post