مرزا غلام فخرالدین کے چہرے پر کچھ تکلف، کچھ خجالت کے سے آثار ہویدا ہوئے۔ ایک پل چپ رہ کر انہوں نے کہا۔ ’’استاد، کل رات خدا جانے مجھ پہ کیا افتاد تھی کہ نہ چین پڑتا تھا نہ آنکھ لگتی تھی۔ ساری رات کروٹیں بدلتے گزری، اور وہ جو شیخ ناسخ کی غزل ہے نہ
وہ نہیں بھولتا جہاں جاؤں
ہائے میں کیا کروں کہاں جاؤں
بس اسی کا ورد کئے بنتی تھی۔ بار بار درود شریف کا دورہ کیا، چپی والیوں نے آیت الکرسی شریف پڑھ پڑھ کر دم کی، لیکن نیند نہ آنی تھی نہ آئی۔ بالآخر استاد آپ ہی کا قطعہ حسب حال نکلا کہ
موذن مرحبا بر وقت بولا
تری آواز مکے اور مدینے
ادھر زینت المساجد سے اذان فجر سنائی دی، ادھر بندے نے وضو بنا، نیت باندھ، جوں توں کر کے سنتیں اور فرض فجر ادا کئے اور تب جاکر پلنگڑی پر پڑ رہا کہ بارے کچھ غنودگی سی آگئی۔ آنکھ کھلی تو پھر وہی شیخ صاحب کا مطلع ورد زبان تھا کہ وہ نہیں بھولتا جہاں جاؤں…‘‘۔
استاد ذوق نے فوراً کان کھڑے کئے۔ قلعے میں نئی نئی افواہیں روز راج ہوتی تھیں، ایک افواہ کی عمر پوری ہوتی یا وہ غلط ثابت ہوتی تو اس کی طرح کی دو مزید افواہیں گشت کرنے لگتیں۔ ہر اچھے درباری کی طرح استاد ذوق بھی قلعے میں دوڑتی پھرتی تمام خبروں، افواہوں، گپوں اور ہوائیوں کی اطلاع رکھتے تھے۔ چنانچہ انہوں نے سن رکھا تھا کہ صاحب عالم و عالمیان کو چھوٹی بیگم کی شبیہ کی تلاش ہے اور اس غرض سے انہوں نے میاں غلام علی نقاش کو دربار میں طلب کیا ہے۔ اب جو صاحب عالم کی زبان سے شیخ ناسخ کا مطلع اور رات کی کم خوابی کا حال سنا تو گمان کیا کہ ہو نہ ہو صاحب عالم کا دل ادھر جا اٹکا ہے۔ اب خدا ہی خیر کرے۔ لیکن ظاہر ہے کہ کچھ کہنے یا پوچھنے کی تاب تو تھی نہیں، وہ شہزادے کی گفتگو بتوجہ سنتے رہے۔
جب شاہزادے نے شیخ صاحب کا شعر پڑھا اور پھر وہ ایک لمحے کے لیے ٹھہرے تو استاد ذوق نے عرض کیا: ’’لیکن مجھے یقین ہے حضرت صاحب عالم نے بھی اس زمین میں تو سن طبع کو جولان کیا ہوگا۔ بھلا طبائع موزون و مشحون کو قرار کہاں؟‘‘۔
شہزادے نے خفیف سی مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔ ’’جی ایک دو شعر تو ضرور ہوگئے تھے، کبھی غزل بھی ہو جائے گی۔ فی الحال یہ دو چار شعر بنظر اصلاح حاضر کرتا ہوں‘‘۔
’’ اے سبحان اللہ، ارشاد فرمائیں‘‘۔
شہزادے نے سینے پر ہاتھ باندھ کر مطلع پڑھا
نہیں اس کا نشاں جہاں جاؤں
میں یہ دل لے کے اب کہاں جاؤں ’’سبحان اللہ صاحب عالم، کیا خوب مطلع فرمایا‘‘۔ استاد ذوق نے بے ساختہ کہا۔ ’’واللہ شیخ صاحب کی بھی روح کو تواجد بہم پہنچا ہوگا!‘‘۔
’’حضور تو کانٹوں میں گھسیٹتے ہیں‘‘۔ مرزا فخرو نے مسکرا کر کہا۔ ’’زیب مطلع ملاحظہ فرمائیں، شاید کسی لائق ہو
تھام لے گر نہ مجھ کو تیرا غم
یہ جہاں چھوڑ اس جہاں جاؤں
شعر پڑھ کر مرزا فخرو نے ذوق کی طرف داد خواہ نگاہوں سے دیکھا۔ استاد نے بھی کچھ کمی نہ کی اور دل کھول کر داد دینے کے بعد کچھ کہنا چاہا تو مرزا فخرو نے کہا۔ ’’استاد ذرا یہ بیت بھی گوش مبارک تک پہنچ جائے‘‘۔
’’بیشک، بیشک۔ ذرا بہتر اس سے بھی مضمون نکالا ہو تو ہم بھی دیکھیں۔ ان دنوں تو روانی طبع صاحب عالم کی آب گنگ و جمن کے زمانہ سیل کو بھی مات کر رہی ہے‘‘۔ ذوق نے کہا، اور شہزادے نے شعر پڑھا
میں ہوں ظاہر وہ روح عالم غیب
میں نہیں ہوں جہاں وہاں جاؤں
استاد ذوق نے ایک عالم ابتہاج میں زانو پر ہاتھ مارا اور بولے: ’’اب تو صاحب عالم نے درجہ استادی ہی حاصل کر لیا، ایسی غزل اور کس سے ممکن تھی۔ اللہم زد فزد‘‘۔
مرزا غلام فخرالدین بہادر کی آنکھوں میں ہلکی سی نمی کا شائبہ جھلکا۔ انہوں نے نیم قد ہوکر استاد کو تسلیم کی اور دل میں کہا کہ عالم انسانی پر ہمارا دخل اب کچھ نہیں کے برابر ہے، عالم دل بھی ایک دنیا ہے، ایک جہنم بھی اور ایک فردوس بھی… لیکن اس پر بھی ہمارا کچھ دخل ہو سکتا تو… ان کی آنکھ کے سامنے وزیر خانم کا وہ پر اسرار سا تبسم کوند گیا، جس میں لگاوٹ کا شمہ برابر بھی اشارہ نہ تھا، لیکن وہ تبسم یہ بھی کہے دیتا تھا کہ اگر کوئی جوہر قابل ہو تو یہی تبسم انبساط اور ابتہاج کی ایک پوری دنیا کے درکھول سکتا ہے۔ لذت حیات و موت کے نئے شاخسار حدیقہ روح کی ہر خیابان میں کھلا سکتا ہے۔ وہ بلند گردن، نخوت حسن اور اعتماد حیات سے بھرپور جسے کوئی خم نہیں کر سکتا لیکن جو اپنے چاہے جانے والے کی انگشت میں رگ گل کی پھانس کے چبھ جانے پر بار الم سے دوہری بھی ہوجانے کا وعدہ یا امکان رکھتی تھی…۔ میں تو عالم ظاہر کی طرح غلیظ اور مرئی اور کثیف اور وہ عالم غیر ظاہر کی طرح لطیف، میں وہاں جاؤں تو کس طرح جاؤں، پہنچوں تو کس طرح پہنچوں۔
استاد شیخ محمد ابراہیم ذوق اپنے بادشاہ اور قلعہ میمونہ میں اپنے ہر مربی کی افتاد مزاج سے واقف تھے۔ انہیں پوری طرح اندازہ تھا کہ صاحب عالم کی یہ محویت، اشعار کی یہ کیفیت، یہ سب کچھ معنی رکھتی ہیں۔ انہیں خیال آیا کہ چھوٹی بیگم کے لیے ایک اور دروازہ کھلتا ہوا لگتا ہے، لیکن ہمیں اس سے کیا؟ کاروبار سلطانی تو اب رہا نہیں، اب کشور دل کی جہانبانیوں ہی کو ملک گیری و کشور ستانی کہنا ہے۔ خدا شاہزادے کو مبارک کرے۔ چھوٹی بیگم ایسا ہیرا تھیں کہ وہ جس کے جیغے میں لگا اسے پھر جیفہ ہی بننا نصیب ہوا۔
صاحب عالم و عالمیان مرزا محمد سلطان غلام فخرالدین فتح الدین بہادر نے سر اٹھایا تو استاد ذوق کو یہ دیکھ کر جھرجھری سی آگئی کہ شہزادے کے چہرے پر کچھ اس طرح کی تمکنت اور جلالت تھی گویا وہ وسط تیرہویں صدی کے زوال پر وردہ باغ کا اجڑا ہوا بوڑھا بیجان برگد نہ ہو، بلکہ سمرقند اور خیوہ کے دور تک پھیلے ہوئے وحشی سبزہ زاروں میں غرور سے سر اٹھائے ہوئے اور فیاضی سے چھاتی پھیلائے ہوئے دور و نزدیک کے لوگوں کو اپنے سائے سے فیضیاب کرنے والا کژم کا چھتنار درخت ہو۔ اور…۔ ’’استاد ہم آپ کے بہت متشکر ہیں‘‘۔ میرزا فتح الملک بہادر نے کہا۔
استاد نے سمجھ لیا کہ اب باریابی کی مدت تمام ہوئی اور یہ رخصت کا اشارہ ہے۔ انہوں نے اٹھ کر تین تسلیمیں ادا کیں۔ شہزادے نے بیٹھے ہی بیٹھے اپنا دایاں ہاتھ سینے پر بائیں طرف رکھ کر ’’فی امان اللہ‘‘ کہا اور دوبارہ سر جھکا لیا۔ انہیں خبر نہ ہوئی کہ کب چوبدار نے پردہ ہٹایا، کب استاد ذوق نے ایوان کے باہر قدم رکھا، کب چرن برادر نے انہیں جوتیاں پہنائیں۔ استاد بھی ایوان سے باہر ہوتے ہی نگاہ روبرو کئے اردابیگنی کے پیچھے پیچھے آہستہ متین چال چلتے ساون بھادوں کے باغ کی روشوں سے گزرتے ہوئے پانی کے گہرے کنویں تک پہنچے، جہاں ایک قلماقنی نے انہیں اپنے ساتھ لے کر قلعے کے لاہوری دروازے کے کوچے تک پہنچا دیا۔ وہاں سے دو ڈھلتیوں نے انہیں بحفاظت تمام لاہوری دروازے کے محافظ خانے پر لاکر چھوڑ دیا اور سلام کر کے رخصت ہوئے۔ صاحب عالم نے تو استاد کی پیٹھ پھرتے ہی صندوقچہ کھول کر وزیر خانم کی تصویر نکال لی تھی۔ (جاری ہے)
Prev Post
Next Post