اگلی صبح اسلم نے مجھے افتخار صاحب کا پیغام پہنچایا کہ وہ مجھے شاباش دینے اور معاملات پر گفت و شنیدکرنے کیلئے کل شام کو مجھ سے ملاقات کرنا چاہتے ہیں۔ اس نے وقت اور ملاقات کا طریقہ بھی بتادیا اور میں ایک بار پھر ان ساتھیوں کی ذہانت کا قائل ہوگیا۔ انہوں نے بھارتی محکمہ خفیہ کی طرف سے اپنے چاروں طرف بچھے نگرانی کے جال کے باوجود اپنا مقصد پورا کرنے کے شان دار طریقے وضع کر رکھے تھے۔ میں ان کی حاضر دماغی اور جاسوسی سرگرمیوں میں مہارت کی داد دیے بغیر نہ رہ سکا۔
اس پر اسلم نے کہا ’’بھائی، جہاں طاقت ور غنیم کو زورِ بازو سے خاک چٹانی مشکل ہو، وہاں دماغ اور مستعدی سے اپنی کم زوری کی تلافی کی کوشش کی جاتی ہے۔ پاکستان بننے کے فوراً بعد ہی ہمارے بڑوں کو ادراک ہوگیا تھا کہ بھارت ہمیں اپنی طاقت کے زور پر کچلنے کا کوئی موقع ضائع نہیں کرے گا۔ چنانچہ انہوں نے شاید پہلے دن ہی سے اپنی مدافعت کے متبادل طریقے سوچنا شروع کردیئے تھے۔‘‘
میں نے کہا ’’یہ تو فطری بات ہے! مجھے زندگی بھر ناز رہے گا کہ اپنے وطن کی سلامتی کیلئے کچھ کرنے کا موقع مل سکا۔‘‘
میری بات سن کر وہ کچھ سنجیدہ ہوگیا ’’بھارت جیسے دیوقامت ملک سے اپنی سلامتی یقینی بنانا آسان نہیں ہے۔ ہمارے پاس ان سے مقابلہ کرنے کیلئے درکار وسائل ہیں اور نہ خاطر خواہ تعداد میں تربیت یافتہ ایجنٹس۔ ایسے میں ہمیں تمھارے جیسے محب وطن رضاکار اورغیر روایتی طریقے ڈھونڈنے پڑتے ہیں۔‘‘
اسلم کے رخصت ہونے کے بعد میں دن بھر سواریوں کو ان کی منزل پر پہنچاتا رہا۔ شام کو میں نے ٹریننگ کے بہانے سچن بھنڈاری کے گھر کا چکر لگایا۔ لیکن وہ میری آمد پر خاصا مضطرب نظر آیا اور اکھڑی اکھڑی باتیں کرتا رہا۔ اس نے کہا کہ وہ میرے مطالبے کے مطابق کام شروع کرچکا ہے۔ چنانچہ میں سرسری انداز میں اس کی گردن میں پڑے پھندے کی یاددہانی کراکر واپس لوٹ آیا۔
میں نے دو دن مزید انتظارکیا اور پھر شام ڈھلے اس کے گھر جا پہنچا۔ وہ مجھے دیکھ کر ایک بار پھر مضطرب سا ہوگیا۔ میں نے معنی خیز لہجے میں کہا ’’کیا چل رہا ہے سچن باس؟ کب فرمائش پوری کررہے ہومیری؟ …‘‘
اس نے خود کو سنبھالتے ہوئے کہا ’’میں نے بتایا تو تھا، کام اسٹارٹ کردیا ہے۔ لسٹ میں پوچھی گئی جانکاریوں والی فائلیں اکٹھی کرنا شروع کردی ہیں۔ مجھے ایک دو دن کا سمے اور دو۔ فائلیں اکٹھی کرنے کے بعد تو کیول (صرف ) دو تین گھنٹے کا کام رہ جائے گا۔‘‘
میں نے کہا ’’ ٹھیک ہے، لیکن اپنی کھوپڑی ادھر ادھر گھمانے یا پلٹانے کا سوچا بھی تو تمھارے لیے اچھا نہیں ہوگا۔ اورہاں بہت دھیان سے، سترک (محتاط) رہ کرکام پورا کرنا ہے۔ تمھیں پتا ہے نا، پکڑ میں آگئے تو تمھارا ہی ستیاناس ہوگا ، اور تم کسی کو اپنے اس ککرم (برے کام) کا کارن بھی نہیں بتا سکو گے۔‘‘
اس نے فکر بھرے انداز سر ہلایا ’’تم چنتا نہ کرو۔ میں سارے جوکھم جانتا ہوں۔ اسے لیے تو تم سے سمے مانگ رہا ہوں۔ تمھارے لیے تو یہ بس ایک ڈیوٹی ہے، پرنتو میرے لیے تو یہ جیون اور مرتیو (زندگی اور موت) کا معاملہ ہے۔‘‘
میں قدرے نرم لہجے میں کہا ’’ ٹھیک ہے۔ ہاتھ پیر بچا کر چلتے رہو۔ تمھیں نقصان پہنچتے دیکھ کر مجھے خوشی نہیں ہوگی۔ کیونکہ میری تم سے کوئی ذاتی دشمنی نہیں ہے۔ یہ میری دھرتی کی سلامتی کا سوال ہے، ورنہ میں تمھاری پرائیویٹ زندگی میں جھانکنے جیسی حرکت کا سوچ بھی نہیں سکتا۔‘‘
وہ اپنی دکھتی رگ چھیڑے جانے پر ایک بار پھر سٹپٹا گیا ’’ٹھیک ہے، ٹھیک ہے، تم چنتا نہ کرو۔ سمجھو تمھارا کام ہوگیا۔ میری اِچھا ہے تم میرے جیون سے جلدی سے جلدی نکل جاؤ۔‘‘
میں نے کہا ’’میری بھی یہی کوشش ہے! بس تم یہ سن گن لینے کی کوشش کرو کہ تمھارا با س نیل کنٹھ کرشنن کب راج دھانی (دلّی) کے دورے پر جارہا ہے۔ کیونکہ اس کے دفتر میں سیندھ (نقب) لگانا زیادہ مشکل ہے۔‘‘
اس نے تشویش سے گردن ہلا کر کہا ’’ہاں، میں وہاں ایک دو بار ہی جاسکتا ہوں اور زیادہ دیر وہاں نہیں رک سکتا۔ اس کے علاوہ کھل کر کام کرنے کی بھی گنجائش نہیں کیونکہ نیل کنٹھ جی کا پرسنل اسٹاف آس پاس ہی گھوم رہا ہوگا۔ وہاں ہاتھ بچا کر کام کرنا ہوگا۔‘‘
اس کی باتوں نے مجھے کچھ مضطرب کردیا تھا۔ میں نے اسے احتیاط برتنے کی مزید تاکید کی اور اپنے گھر آگیا۔ اگلی صبح میں نے اسلم کے ذریعے اب تک کی پیش رفت کا احوال افتخار صاحب تک پہنچا دیا۔ اس دوران میں نے سچن کی سرگرمیوں کا جائزہ لیا تھا۔ تاہم کوئی قابلِ ذکر بات نظر نہ آسکی۔
شام چار بجے کے قریب میں نے ایک سردار جی کو بائیکلا کے علاقے میں چھوڑا اور افتخار صاحب سے بروقت ملاقات کیلئے دھندا سمیٹنے کی تیاری کر رہا تھا کہ ایک معمر ہندوجوڑے نے ٹیکسی روکنے کیلئے ہاتھ دیا، میں نے محض ان کی منزل جاننے کیلئے بریک لگا دیا۔ انہوں نے شری مہالکشمی مندر لے جانے کی فرمائش کی۔ میں نے ذہن پر زور ڈالا تو یہ خوش گوار انکشاف ہوا کہ افتخار صاحب سے ملاقات کیلئے مجھے بھی اسی طرف جانا ہے، چنانچہ میں نے انہیں خوشی سے بٹھا لیا۔
انہیں مندر چھوڑنے کے بعد میں چند ہی منٹ میں کنارا مسجد پہنچ گیا اور اپنی ٹیکسی ایک الگ تھلگ گوشے میں کھڑی کرکے مقفل کردی۔ میں نے مسجد کے بالکل سامنے موجود ایک ڈھابے پر بچھی بینچ پر ڈیرا جماتے ہوئے چائے منگوالی۔ یہ سوچ کر میرے لبوں پر بے اختیار مسکراہٹ آگئی کہ مہاتما گاندھی سمیت بہت سے نام نہاد دیش بھگت ہندو رہنماؤں کی طرف سے ہندوستان میں چائے کے بائیکاٹ کی بھرپور مہم کے باوجود چائے بالآخر ہندوستانیوں کا پسندیدہ مشروب بن چکی ہے۔ میرے وہاں پہنچنے کے لگ بھگ فوراً بعد عصر کی اذان ہوئی تھی اور نمازیوں کی مسجد میں آمد کا سلسلہ شروع ہوچکا تھا۔ میری نظریں لگ بھگ تیس سال قدیم مسجد کے دروازے پر جمی ہوئی تھی۔ بالآخر میرا انتظار ختم ہوا۔ مجھے تاردیو کے علاقے سے آنے والی سڑک سے افتخار صاحب کی گاڑی آتی دکھائی دی۔ ڈرائیور نے گاڑی مسجد کے دروازے کے سامنے روکی، افتخار صاحب گاڑی سے اترے اور مسجد میں داخل ہوگئے ۔ میں نے مشاہدہ کیا کہ ڈرائیور انہیں اتارکرگاڑی ایک طرف پارک کرنے کے بجائے ساحلی سڑک کے ذریعے سیدھا ورلی کے علاقے کی طرف روانہ ہوگیا ہے۔ یہ سب ہمارے منصوبے کے عین مطابق تھا۔ (جاری ہے)
Prev Post