سپریم کورٹ ڈیم فنڈ میں ہفتے کی شام تک تقریباً چار ارب روپے اکھٹے ہوچکے تھے۔ زیادہ تر فنڈ اوورسیز پاکستانی جمع کرا رہے ہیں۔ آنے والے دنوں میں بیرون ملک مقیم پاکستانیوں سے مزید فنڈ کی توقع کی جارہی ہے۔ دیامر بھاشا ڈیم کی تعمیر میں تاخیر ہونے کے سبب سے اس کی لاگت 12 ارب ڈالر سے بڑھ کر 18سے 20 ارب ڈالر ہوچکی ہے اور اگر مزید تاخیر ہوئی اس کی لاگت دوگنی سے بھی بڑ ھ سکتی ہے۔ تربیلہ ڈیم میں پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش چالیس فیصد کم ہونے کی بنا پر نیا ڈیم اور اس کی جلد از جلد تعمیر زندگی اور موت کا مسئلہ بن چکا ہے۔
ذرائع سے دستیاب معلومات کے مطابق سپریم کورٹ کے ڈیم فنڈ میں ہفتے کی شام تک تقریباً چار ارب روپے جمع ہوچکے تھے۔ جمع شدہ رقم میں زیادہ حصہ اوورسیز پاکستانیوںکا ہے اور توقع کی جارہی ہے کہ آنے والے دنوں میں اس فنڈ میں اوورسیز پاکستانیوں کی جانب سے فنڈ کی فراہمی میں تیزی آسکتی ہے۔ برطانیہ، کینڈا، فرانس، جرمنی، امریکہ اور متحدہ عرب امارات میں مقیم پاکستانی کمیونٹی ذرائع کے مطابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی جانب سے اپیل کے بعد لوگوں نے انفرادی طور پر عطیات جمع کرائے ہیں اور یہ سلسلہ اب تک جاری ہے۔ جبکہ اب اس وقت صورتحال یہ ہے کہ یورپ، امریکہ اور عرب ممالک میں موجود پاکستانیوں نے باقاعدہ طور پر منظم اور اجتماعی مہم شروع کردی ہے اور مختلف ممالک کے مختلف شہروں میں پاکستانی کمیونٹی نے اجتماعی وفود قائم کرلیئے ہیں اور عطیات اکھٹا کرنے کیلئے یہ وفود پاکستانی کمیونٹی کے گھر گھر جا کر مہم چلا رہے ہیں۔ یہ پاکستانی کمیونٹی کو اس بات پر قائل بھی کررہے ہیں کہ وہ ڈیم کیلئے دل کھول کر عطیات جمع کرائیں، کیونکہ اس سے پاکستان کا مستقبل وابستہ ہے۔ ذرائع کے مطابق پاکستانی کمیونٹی کی اس مہم میں دن بدن تیزی آتی جارہی ہے اور یہ توقع کی جارہی ہے کہ پاکستانی کمیونٹی ایک بڑی رقم جمع کرکے پاکستان بھیجے گی اور یہ بھیجی جانے والی تمام رقم ڈالر یا دیگر غیر ملکی کرنسی میں ہوگی۔ اس سے پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر بھی بڑھیں گے اور توقع کی جارہی ہے کہ معقول رقم جمع ہوجائے گی۔
مختلف ملکی اور بین الاقوامی رپورٹوں کے مطابق پاکستان دنیا میں سب سے زیادہ پانی استعمال کرنے والے ممالک کی فہرست میں چوتھے نمبر پر ہے اور پورے ملک میں پانی ذخیرہ کرنے کے صرف دو بڑے ذرائع ہیں جن کی مدد سے محض 30 دن کا پانی جمع کیا جا سکتا ہے۔ واضح رہے کہ مختلف رپورٹوں کے مطابق پاکستان اس وقت پانی کی شدید قلت کا شکار ہے۔ آئی ایم ایف، یو این ڈی پی اور دیگر اداروں کی اسی سال آنے والی مختلف رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں پانی کا بحران تیزی سے بڑھتا جا رہا ہے اور 2040ء تک پاکستان خطے کا سب سے کم پانی والا ملک بن سکتا ہے۔ ارسا کے مطابق پاکستان میں بارشوں سے ہر سال تقریباً 145 ملین ایکڑ فِٹ پانی آتا ہے لیکن ذخیرہ کرنے کی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے صرف 13.7 ملین ایکڑ فِٹ پانی بچایا جا سکتا ہے۔ سرکاری رپورٹ کے مطابق پانی کے ذخائر نہ ہونے کی وجہ سے پاکستان میں ہر سال 21 ارب روپے مالیت کا پانی ضائع ہو جاتا ہے اور جتنا پانی سمندر میں جاتا ہے اسے بچانے کیلئے منگلا ڈیم کے حجم جتنے تین اور ڈیم کی ضرورت ہوگی۔ اس کے علاوہ پانی کے ضیاع کی چند بڑی وجوہات میں موسمی حالات کی تبدیلی اور بارشوں کی کمی، تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی اور پانی بچانے کے انتہائی ناقص ذرائع ہیں۔ اس کے علاوہ ملک بھر میں پانی کے غیر ذمہ دارانہ استعمال سے بھی بڑی تعداد میں پانی کا ضیاع ہوتا ہے۔ پاکستان میں 15 میٹر سے زیادہ بلند ڈیموں کی تعداد 150 ہے جس میں تربیلا اور منگلا سب سے پرانے ہیں جو بالترتیب 1974ء اور 1967ء میں مکمل ہوئے تھے ۔ سب سے بڑا ڈیم تربیلہ ہے جس پر پاکستان اپنے پانی کیلئے بہت زیادہ انحصار کرتا ہے، اس میں اس وقت اس میں پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش چالیس فیصد کم ہوچکی ہے ۔ ہائیڈرو گرافک سروے کے مطابق ڈیم میں مٹی اور ریت بھر جانے کے باعث اس وقت ڈیم میں پانی کی گنجائش چالیس فیصد کم ہوچکی ہے۔ ماہرین کے مطابق ڈیم میں سے ریت اور مٹی نکالنا خطرناک اور مہنگا عمل ہے اور مٹی، ریت نکالنے سے زیادہ بہتر یہ ہے کہ دریائے سندھ پر مزید ڈیم تعمیر کیئے جائیں اور ان ڈیموں کی تعمیر سے تربیلہ ڈیم کی زندگی میں بھی اضافہ ہوگا۔
دیامر بھاشا ڈیم کے قیام کا منصوبہ پرویز مشرف کے دور میں پیش کیا گیا جو پاکستان کے شمالی علاقہ جات، گلگت بلتستان میں بھاشا کے مقام پر تعمیر ہونا ہے۔ لیکن متعدد بار تعمیر کا افتتاح ہونے کے باوجود فنڈز نہ ہونے کی وجہ سے ڈیم ابھی تک صرف ابتدائی مراحل میں ہے۔ 4500 میگا واٹ بجلی پیدا کرنے والے ڈیم کے منصوبے کے آغاز پر اس کا تخمینہ 12 ارب ڈالر لگایا گیا تھا۔ لیکن مختلف ماہرین کے مطابق اس ڈیم کی کل لاگت 18 سے 20 ارب ڈالر تک جا سکتی ہے۔ دیامر بھاشا ڈیم کی تعمیر میں سب سے بڑی رکاوٹ سرمائے کی ہے جس کیلئے حکومت نے مختلف عالمی مالیاتی ادارے جیسے ورلڈ بینک، ایشین ڈیویلپمینٹ بینک، آغا خان فاؤنڈیشن وغیرہ شامل سے مددطلب کی ہے مگر ان تمام اداروں نے بھارتی دباؤ کے باعث سرمایہ فراہم کرنے سے معذرت کرلی ہے۔