محمد زبیر خان
پاکستان میں پلاسٹک کی اشیا کی تیاری اور استعمال کے حوالے سے کوئی قانون سازی اور ضابطہ اخلاق طے نہ کیا جا سکا۔ چاروں صوبوں نے پلاسٹک کے شاپنگ بیگز پر پابندی لگانے کے اعلانات کر رکھے ہیں، مگر عملی طور پر تاحال ان پر کوئی بھی عمل درآمد نہیں ہوسکا۔ پاکستان میں یومیہ 55 بلین شاپنگ بیگز استعمال ہوتے ہیں۔ بین الاقوامی رپورٹوں کے مطابق پلاسٹک کی اشیا اور شاپنگ بیگز مضر صحت ہونے کے علاوہ ماحولیات کیلئے بھی تباہ کن ہیں۔ دنیا کے 60 ممالک نے ناقص پلاسٹک کی اشیا پر پابندی عائد کر رکھی ہے اور تمام بڑے ممالک میں پلاسٹک اشیا کی تیاری کیلئے خصوصی قوانین اور ضابطے موجود ہیں۔ مگر پاکستان میں ایسا کوئی قانون اور ضابطے وضع نہیں کئے گئے۔ ایک غیر سرکاری ادارے کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 65 فیصد کوڑا کرکٹ شاپنگ بیگز اور پلاسٹک کی اشیا پر مشتمل ہوتا ہے اور اس سے سیوریج اور ماحولیات کے شدید ترین مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔
عالمی ادارے ڈبلیو ڈبلیو ایف کی ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت پاکستان میں کوڑا کرکٹ سے سیوریج کے شدید قسم کے مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ کیونکہ کوڑا کرکٹ میں 65 فیصد حصہ پلاسٹک کا ہے، جس میں شاپنگ بیگز، پلاسٹک کی بوتلیں اور دیگر اشیا شامل ہوتی ہیں۔ خصوصاً پلاسٹک کے شاپنگ بیگز کو دنیا بھر میں ماحولیات کیلئے تباہ کن قرار دے کر ان پر پابندی عائد کی جاچکی ہے۔ واضح رہے کہ مختلف اوقات میں پاکستان کے چاروں صوبوں بشمول گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کی حکومت نے پلاسٹک کے شاپنگ بیگ پر پابندی کے اعلانات کئے تھے، لیکن اس پابندی پر کبھی عملدرآمد نہیں ہوا۔ وزارت ماحولیات کے ذرائع سے حاصل کردہ اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں شاپنگ بیگ یا پلاسٹک بیگ بنانے کے رجسٹرڈ کارخانے آٹھ ہزار سے زائد ہیں اور مجموعی طور پر ان کی یومیہ پیداوار پانچ سو کلو گرام ہے۔ سرکاری ذرائع کے مطابق روزانہ 55 بلین شاپنگ بیگ استعمال کئے جاتے ہیں اور ہر سال ان کے استعمال میں پندرہ فیصد اضافہ ہورہا ہے۔ واضح رہے کہ مذکورہ اعداد و شمار سرکاری ہیں جبکہ شاپنگ بیگ بنانے والے سینکڑوں کارخانے گلی محلوں میں قائم ہیں، جو رجسٹرڈ نہیں ہیں اور چوری چھپے کاروبار کررہے ہیں۔ سرکاری ذرائع کے مطابق ہر قسم کے شاپنگ بیگ ماحولیات کیلئے تباہ کن ہیں۔ چاروں صوبوں بشمول گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں ماحولیات کیلئے کام کرنے والی سرکاری ایجنسیوں نے شاپنگ بیگز پر مکمل پابندی عائد کرنے کی سفارشات کی تھیں جس پر مذکورہ حکومتوں کی جانب سے پابندی کا اعلان تو کردیا گیا لیکن اس پر عملدرآمد تاحال نہیں ہوا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ شاپنگ بیگز ماحول کو تباہ کرنے میں کلیدی کردار ادا کر رہے ہیں۔ دوسری جانب پلاسٹک سے بنی اشیا جن میں ڈسپوز ایبل بوتلوں اور پلیٹوں کے علاوہ بال پین، بریف کیس، گاڑیوں کے اسٹیئرنگ اور پائیدان سمیت پلاسٹک سے بنی بے شمار اشیا استعمال کی جارہی ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں پلاسٹک مینوفیکچرز نے گزشتہ سال پلاسٹک کی اشیا کی تیاری کے لئے 1069177 میٹرک ٹن خام مال درآمد کیا گیا تھا اور یہ مقدار گزشتہ برسوں کے مقابلے میں کئی گنا زائد تھی۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق صرف رواں برس اپریل میں تقریباً 2 کروڑ 6 لاکھ روپے کی پلاسٹک اشیا کی خرید و فروخت ہوئی۔ اس میں ربڑ سے بنی اشیا شامل نہیں ہیں۔ خطرناک بات یہ ہے کہ پاکستان کی ادویات ساز کمپنیاں بھی اب پیکنگ کے لئے پلاسٹک استعمال کر رہی ہیں۔ مجموعی طور پلاسٹک اشیا کی طلب میں ہر سال اضافہ ہو رہا ہے۔
امریکہ میں شائع ہونے والی 200 سے زائد تحقیقی رپورٹس میں پلاسٹک کے لازمی جزو اسفینول اے (BPA) کے انسانی جسم پر تباہ کن اثرات کی واضح نشان دہی کی گئی ہے۔ رائٹر نے یہ بھی انکشاف کیا ہے کہ امریکہ میں کئے جانے والے پیشاب کے 93 فیصد تجزیوں میں اس کیمیکل کی موجودگی ثابت ہوئی ہے۔ پلاسٹک کا یہ خاص جزو کینسر، دماغی امراض، تھائی رائیڈ اور دیگر غدود کے عدم توازن اور جنسی بیماریوں کا براہ راست سبب ہے۔ تحقیقی رپورٹس کے مطابق بی پی اے سے ہمارے تعلق کی سب سے خطرناک نوعیت ڈبوں میں بند غذا، مشروبات اور دودھ کا استعمال ہے۔ کینیڈا میں ٹھنڈے مشروبات میں بی پی اے کی موجودگی کی تصدیق ہوچکی ہے۔ دراصل مشروبات کے دھاتی ڈبوں میں اندر کی طرف پلاسٹک کی ایک تہہ لگائی جاتی ہے تاکہ مشروب اور دھات میں فاصلہ رہے، پلاسٹک کی یہی تہہ آہستہ آہستہ بی پی اے کی خاص مقدار مشروب میں شامل کرتی رہتی ہے۔ شیر خوار بچوں کے تمام فیڈر پلاسٹک کے ہوتے ہیں اور شروع دن سے بچوں کو اس نقصان دہ کیمیکل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
ڈبلیو ڈبلیو ایف کے ماہر ڈاکٹر معظم کے مطابق دنیا میں کئی ممالک نے پلاسٹک کی اشیا کی تیاری کے حوالے سے خصوصی قانون سازی کی ہے اور نگرانی کیلئے مانیٹرنگ نظام قائم کر رکھا ہے۔ مگر پاکستان میں مطالبے کے باوجود ایسا کوئی نظام وضع نہیں کیا جاسکا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ٹنوں کے حساب سے پیدا ہونے والا پلاسٹک کا کچرا ماحولیاتی آلودگی کی بڑی وجہ ہے۔ ہمارے ہاں ہر طرح کے پلاسٹک کا استعمال عام ہے، جس سے کینسر، السر اور سانس کی بیماریاں بڑھ رہی ہیں۔ جبکہ ری سائیکلنگ پلانٹ کے نہ ہونے کی وجہ سے پلاسٹک کی ناکارہ اشیا بہت بڑا مسئلہ بن چکی ہیں۔ حکومتی سطح پر کچرے کو ٹھکانے لگانے کا کوئی انتظام نہیں۔ کچرے کے ڈھیر سمندر میں ڈال دیئے جاتے ہیں جبکہ فیکٹریوں کا فضلہ بھی بغیر کسی ٹریٹمنٹ کے ندی نالوں کے ذریعے سمندر تک پہنچ جاتا ہے، جس سے سمندر آلودہ ہوچکے ہیں۔
پلاسٹک پر تحقیق کرنے والے عبدالمناف قائمخانی کا کہنا تھا کہ کراچی ایشیا کے آلودہ ترین شہروں میں ایک ہے۔ شہریوں کو معلوم ہی نہیں کہ وہ سانس کے ساتھ کیا کچھ اپنے پھیپھڑوں میں اتار رہے ہیں۔ فضا میں موجود مضر صحت ذرات سے ہمارا اعصابی اور معدافعتی نظام بری طرح متاثر ہو رہا ہے۔ ڈسپوز ایبل پلاسٹک مصنوعات سے ہمارے ماحول کو سب سے زیادہ خطرہ ہے۔ انہوں نے بتایا کہ حالیہ دنوں دنیا کی دس بڑی ملٹی نیشنل کمپنیوں نے ایک کانفرنس میں یہ عہد کیا ہے کہ وہ پلاسٹک سے پیدا ہونے والی ماحولیاتی آلودگی پر قابو پانے کیلئے اپنے طور پر کارروائی کریں گی اور 2050ء تک ایسے اقدامات کریں گے کہ جن سے پلاسٹک پیدا ہونے والی آلودگی کا خاتمہ کردیا جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ بدقسمتی پاکستان میں ایسا کوئی نظام نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومتی ادارے اور عوام تو یہ بھی نہیں جانتے کہ پلاسٹک سے بنی ہوئی اشیا کس طرح تیار ہوتی ہیں اور ان میں کیا استعمال کیا گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پلاسٹک کو زندگی سے ختم تو نہیں کیا جاسکتا، مگر اس میں بہتری لائی جاسکتی ہے، جیسا کہ دنیا کے دیگر ممالک نے کیا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ڈسپوزل پیکنگ استعمال کرنے والی کمپنیوں کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ بھی اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کریں۔ ٭
(باقی صفحہ4بقیہ نمبر16)
٭٭٭٭٭