اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مبینہ انتخابی دھاندلی کی تحقیقات کے لیے خصوصی کمیٹی کے قیام پر اتفاق ہوگیا جب کہ قومی اسمبلی نے بھی کمیٹی کے قیام کی تحریک منظور کرلی ہے قومی اسمبلی نے ملک میں نئے ڈیموں کی تعمیر کے حق میں بھی قرارداد کی منظوری دی ہے۔قومی اسمبلی کا اجلاس اسپیکر اسد قیصر کی سربراہی میں ہوا جس میں وزیراعظم عمران خان بھی شریک ہوئے۔وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی جانب سے انتخابی دھاندلی سے متعلق تحقیقاتی کمیٹی کے قیام کے لیے تحریک پیش کی گئی جس کے متن کے مطابق مبینہ انتخابی دھاندلی سے متعلق پارلیمانی کمیٹی تشکیل دی جائے جس میں حکومت اور اپوزیشن ارکان شامل ہوں۔تحریک کے متن میں کہا گیا ہے کہ کمیٹی تحقیقات کے لیے ٹی او آرز تیار کرے گی اور آئندہ دھاندلی کی روک تھام کے لیے مناسب اقدامات تجویز کرے گی۔وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بتایاکہ انتخابات 2018 کی چھان بین کے لیے حکومت اور اپوزیشن کے درمیان خصوصی کمیٹی کے قیام پر اتفاق ہوا ہے، کمیٹی میں حکومت اور اپوزیشن کے ممبران کی تعداد برابر ہوگی اور کمیٹی 2018 کے انتخابات پر اپنی آرا قائم کرکے چھان بین کرے گی۔شاہ محمود قریشی نے کہا کہ خصوصی کمیٹی کا چیئرمین وزیراعظم کی مشاورت سےحکومت نامزد کرے گی، کمیٹی قومی اسمبلی کے ممبران پر مشتمل ہوگی اور اس میں سینیٹ کا کوئی رکن شامل نہیں ہوگا۔ایوان میں اظہار خیال کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کی رکن شازیہ مری نے مطالبہ کیا کہ خصوصی پارلیمانی کمیٹی میں حکومت اور اپوزیشن کو مساوی نمائندگی دی جائے اور شفاف تحقیقات کے لیے پارلیمانی کمیٹی کی چیئرمین شپ بھی حزب اختلاف کو دی جائے۔اسی طرح کا مطالبہ مسلم لیگ (ن) کے خرم دستگیر نے بھی کرتے ہوئے کہا کہ انتخابات کی شفافیت پر سنگین تحفظات ہیں اس لیے پارلیمانی کمیٹی میں برابر نمائندگی اور چیئرمین شپ اپوزیشن کے پاس ہونی چاہیے۔ا شاہ محمود قریشی نے کہا کہ پارلیمانی کمیٹی بااختیار ہوگی اور ہم کسی چیز کو پوشیدہ نہیں رکھنا چاہتے، شفافیت پر کوئی سمجھوتا نہیں کیا جائے گا تاہم اپوزیشن کا حق ہے کہ وہ احتجاج کرے، ان کا نکتہ اعتراض رجسٹر ہو گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ قائد حزب اختلاف اپنا موقف پیش کریں، اس کو سنا جائے گا، شفاف انتخابات جمہوریت کی ضرورت ہے، ہم نے اپوزیشن کے موقف پر سر تسلیم خم کیا ہے، ، جمہوری قدروں کی مضبوطی اصولی موقف ہے اور اختلافات کے باوجود آگے بڑھنا ہے۔مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی جانب سے ایک ہی مطالبہ سامنے آنے پر اسپیکر اسد قیصر نے کہا کہ جو بھی کمیٹی بناؤں گا رولز کے مطابق بناؤں گا۔قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران پی ٹی آئی کے علی محمد خان نے نئے ڈیموں کی تعمیر کیلئے قراداد پیش کی، جس پر اپوزیشن جماعتوں نے متنازع ڈیمز کی تعمیرکے خلاف احتجاج کیا۔ پیپلزپارٹی کے یوسف تالپورنے کہا کہ وہ ڈیم نہ بنائے جائیں جن کو تین صوبے مسترد کرچکے ہیں تاہم بھاشا ڈیم پرہمیں کوئی اعتراض نہیں۔مسلم لیگ (ن) کے رہنما خواجہ آصف نے کہا کہ واٹر پالیسی میں بھاشا اور گومل ڈیم پر مکمل اتفاق ہوا تھا، صوبوں کے درمیان متفقہ واٹر پالیسی پر دستخط ہوئے تھے، ہمیں پانی کی بچت کیلئے بھی اقدامات اٹھانے پڑیں گے، پانی جمع کرنے سے زیادہ اہم پانی بچانا ہے۔وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ خواجہ آصف نے جس دستاویز کا ذکر کیا اس سے ہمیں اتفاق ہے، اگرخیبرپختونخوا اور سندھ کو کالا باغ ڈیم پراعتراض ہے توہم یہ منصوبہ نہیں چھیڑیں گے، کالا باغ ڈیم پربلاوجہ قومی بحث شروع کروا دی گئی ہے، ہم وفاق کی مضبوطی کے لیے صوبوں کے تحفظات کا احترام کریں گے۔