عظمت علی رحمانی
کراچی میں محرم کے دوران دال کی مانگ میں 25 فیصد اضافہ ہو جاتا ہے۔ 9 اور 10 محرم کو شہر کے ہر علاقے میں حلیم بنانے اور تقسیم کرنے کا رواج ہے۔ محرم میں سیاسی جماعتوںکے ساتھ ساتھ صحافیوں کی تنظیموں کی جانب سے بھی دعوت حلیم کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ پاکستان اور بھارت کے علاوہ ہر ملک میں حلیم بنانے کا الگ الگ طریقہ کار ہے۔
واضح رہے کہ حلیم پاکستان اور ہندوستان کے ان چند پکوانوں میں سے ایک ہے، جو یہاں کے لوگ بہت رغبت سے کھاتے ہیں۔ اس کا حوالہ تہذیبی ہونے کے ساتھ ساتھ مذہبی بھی بن چکا ہے۔ حلیم عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معانی نرم کے بھی ہوتے ہیں۔ اردو کے مشہور شاعر اور مزاح نگار ابن انشا مرحوم نے معروف حلیم فروش گھسیٹے خان پر حاشیے بھی لکھے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ عرب اور وسط ایشیا کے فاتحین اور تاجروں نے حلیم کو برصغیر میں متعارف کرایا تھا۔ عرب معاشرے میں اس کو ہریسہ کہتے ہیں۔ انتولیہ ایران میں اس کو ’’ڈشک‘‘ اور شمالی عراق میں اس کو ’’کس کس‘‘ کہا جاتا ہے۔ بوسنیا میں بھی حلیم کی شکل کی ڈش بنائی جاتی ہے جس کا رنگ سفید ہوتا ہے۔ حلیم پاکستان اور ہندوستان میں رمضان شریف اور محرم الحرام میں خوب کھایا جاتا ہے۔ محرم کی نویں شب کو ہندوستان اور پاکستان میں حضرت امام حسینؓ کی نیاز کے طور پر حلیم پکانے کا رحجان پایا جاتا ہے۔ کراچی میں نویں محرم کی رات کو بعض علاقوں میں نوجوان رات بھر دیگوں میں بڑے پیمانے پر حلیم بناتے نظر آتے ہیں۔ یہ حلیم لکڑیوں پر پکایا جاتا ہے۔ بنگلہ دیش میں حلیم پر بہار رمضانوں میں آتی ہے۔ حلیم کی ایک اور شکل حیدرآبادی حلیم بھی ہے جو مغلوں کے زمانے میں یمنی عرب، ایرانی اور افغانی باشندوں نے حیدرآباد دکن میں متعارف کرائی تھی۔ حیدرآباد میں حلیم اصلی گھی سے تیار کی جاتی ہے۔ حلیم میں شامل ہونے والے اجزا میں مسور کی دال، ماش کی دال، چنے کی دال، جو، چاول، گیہوں، گھی، تیل، پسا ہوا گرم مصالحہ، پسا ہوا سیاہ زیرہ، پسی ہوئی ہلدی، بادیان کے پھول، تلہاری مرچ، گائے، مرغی یا مٹن کا گوشت (معہ یخنی)، پسا ہوا لہسن، پسی ہوئی ادرک، کٹے ہوئے بادام اور اخروٹ، لیموں کے کترے ہوئے چھلکے، تیز پات، بڑی سیاہ الائچی، املی یا لیموں کا رس یا دہی بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔ حلیم تیار ہونے کے بعد اس پر پودینے کے پتے، سبز دھنیا، لیموں کا رس، تلے ہوئی پیاز اور کتری ہوئی ادراک ڈال کر پیش کیا جاتا ہے۔ اس پر گھی یا تیل کا تڑکا بھی لگایا جاتا ہے اور اس کو مزید چٹ پٹا بنانے کیلئے گرم مصالحہ بھی ڈالا جاتا ہے۔ حلیم میں فائبر ہوتا ہے اور ہضم بھی قدرے جلد ہوجاتا ہے۔ کراچی، لاہور اور حیدرآباد (انڈیا) میں حلیم کے خصوصی ریسٹورنٹس ہیں جہاں صرف حلیم ہی فروخت ہوتا ہے۔ لاہور میں المدینہ مرغ اینڈ حلیم، کوزی حلیم رائل پارک، المشہور قاسم حلیم، عاشق چنیائی حلیم، حاجی سلطان حلیم، ضم مرغ حلیم سمیت دیگر مشہور ریسٹورنٹس ہیں۔ سبزی خوروں کے لیے بغیر گوشت کا حلیم بھی تیار کیا جاتا ہے جس کو ’’لذیذہ‘‘ کہا جاتا ہے۔ کچھ بڑے شہروں میں ٹھیلوں پر بھی حلیم فروخت ہوتا ہے۔
کراچی کے مختلف علاقوں میں بھی حلیم کے ریسٹورنٹ مشہور ہیں۔ جبکہ اسلم روڈ اور جٹ لائنز پر تیار شدہ حلیم کی دیگیں بھی ملتی ہیں، جو نیاز اور فاتحہ کیلئے اور ٹھیلوں پر حلیم فروخت کرنے والوں کو آسانی سے میسر ہوتی ہے۔ تاہم جیسے جیسے حلیم کی مانگ میں اضافہ ہوتا جارہا ہے ویسے ہی حلیم فروشوں نے اس میں بھی ڈنڈی مارنی شروع کردی ہے۔ کچھ عرصہ قبل شہر کے کئی حلیم کے ریسٹورنٹس پر فوڈ انسپکٹرز کی جانب سے چھاپہ مار کر متعدد ایسی دیگیں تحویل میں لی گئی تھیں جن میں پٹ سن کی بوریوں کے ریشے اور باریک دھاگوں کی آمیزش شامل کی گئی تھی۔
کراچی میں حلیم نے ’’سیاسی‘‘ رنگ بھی اختیار کر لیا ہے۔ بعض سیاست دان اپنی سیاسی ملاقاتوں اور صحافیوں کے ساتھ پریس کانفرنسوں میں حلیم تیار کراتے ہیں۔ جبکہ صحافیوں کی جانب سے بھی باقاعدہ حلیم پارٹیاں منعقد کی جاتی ہیں، جس میں سینکڑوں صحافی جمع ہوتے ہیں اور درجنوں دیگیں حلیم کی پکائی جاتی ہیں جس میں دیگر شعبہ ہائے زندگی کے افراد کو بھی مدعو کیا جاتا ہے۔کراچی یونین آف جنرنلسٹ کے سابق ذمہ دار اور پی ایف یو جے کے اسسٹنٹ سیکرٹری جنرل شعیب خان کا کہنا ہے کہ کراچی میں صحافی برادری کے سالانہ پروگرامات منعقد کئے جاتے ہیں جن میں ایک بڑا پروگرام محرم الحرام میں حلیم پارٹی بھی ہے۔ یہ دعوت حلیم 20 برس سے زائد عرصہ سے منعقد کی جارہی ہے جو ملک بھر کے صحافیوں کی سب سے بڑی گیدرنگ ہوتی ہے جس میں لگ بھگ 1500سے زائد صحافی حضرات شریک ہوتے ہیں۔
کراچی ہو ل سیل گوروسریز ایسوسی ایشن کے چیئرمین انیس مجید کا کہنا ہے کہ شہریوں میں محرم الحرام سمیت ایونٹس پر حلیم بنانے و پکانے کا رحجان پایا جاتا ہے جس کی وجہ سے ان مخصوص دنوں میں پہلے کی نسبت دالیں، چنے اور گندم کے دلیئے کی مانگ میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ عام دنوں کے مقابلے میں محرم الحرام کی 9 اور 10 تاریخ کو دیگر اشیا کی طرح دالوں کی مانگ میں اضافہ ہو جاتا ہے تاہم خوش آئند بات یہ ہے کہ ان اشیا کی قیمتوں میں مانگ کے باوجود اضافہ نہیں کیا جاتا۔ مجموعی طور پر یہ تخمینہ لگانا مشکل ہے کہ کتنی مقدار میں دالیں فروخت ہوتی ہیں؟ تاہم عام دنوں کے مقابلے میں 25 فیصد سے زائد فروخت ہوتی ہیں۔