عارف انجم
’’نو عثمانیت‘‘ سے متعلق ترکی کے عملی اور غیر تحریری عزائم 2010ء میں کھل کر سامنے آنے کے بعد یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ اردگان حکومت کسی حد تک توسیع پسندانہ عزائم رکھتی ہے۔ گو کہ ترک حکومت کی جانب سے بار بار اس بات پر زور دیا جا رہا ہے کہ وہ پڑوسی ممالک پر قبضے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے۔ لیکن شام اور عراق میں ہونے والی پیش رفت نے جو زمینی حقائق پیش کئے وہ اس دعوے کی نفی کرتے ہیں۔ ان دونوں ممالک میں ترکی کی افواج وہاں کی حکومتوں کی مرضی کے خلاف موجود ہیں۔ ایک تیسرے ملک قطر میں ترک فوجی دستے وہاں کی حکومت کی رضا مندی سے تعینات ہیں۔ ان حالات میں ’’ینی عثمانلی‘‘ یا نو عثمانیت کا نظریہ محض کاغذی نہیں رہتا، بلکہ کاغذوں سے اٹھ کر سرحدوں کو تبدیل کرتا دکھائی دیتا ہے۔ اس بڑی تبدیلی کا ہدف حاصل کرنے کیلئے اردگان کی جانب سے 2023ء کا ہدف رکھا گیا ہے۔ گو کہ اردگان نے وژن 2023ء کے نام پر صرف ترقی کا عزم ظاہر کیا، لیکن بدلتے حالات کسی اور جانب اشارہ کر رہے ہیں۔
اکتوبر 2016ء میں ایک ترک ٹی وی چینل نے ترکی کا ایک نقشہ دکھایا جس میں عراقی شہر موصل کو ترکی کا حصہ ظاہر کیا گیا تھا۔ سلطنت عثمانیہ کی تاریخ اور اس وقت کے بین الاقوامی حالات کے تناظر میں اس خود ساختہ نقشے نے ترک عزائم پر بحث چھیڑ دی۔ پہلی جنگ عظیم کے اختتام پر جب سلطنت عثمانیہ کے ٹکڑے کئے گئے تھے تو معاہدہ لوزان میں موصل شہر کا معاملہ زیر التوا چھوڑ دیا گیا تھا۔ دیگر علاقوں سے دستبردار ہونے کے باوجود ترک موصل کے دعوے دار تھے جو اس وقت برطانوی فوج کے قبضے میں تھا۔ 1926ء میں برطانیہ اور ترکی کے درمیان انقرہ معاہدہ کے تحت ترک حکومت بالاخر موصل کو چھوڑنے پر آمادہ ہوگئی اور یہ عراق کا باقاعدہ حصہ بن گیا۔ تاہم اس معاہدے کو ترک عوام نے دل سے قبول نہیں کیا۔ 2003ء میں صدام حکومت کے خاتمے کے بعد موصل بدامنی اور فرقہ واریت کا شکار رہا۔ 2014ء میں داعش نے اس پر قبضہ کرلیا۔ اکتوبر 2016ء میں عراقی، فرانسیسی، کرد اور امریکی افواج نے اس شہر کو داعش سے چھڑانے کیلئے آپریشن شروع کیا۔ عراقی حکومت کی رضامندی کے بغیر ترک افواج اس آپریشن میں شامل ہوگئیں۔ اس پر عراقی وزیراعظم حیدرالعبادی نے مطالبہ کیا کہ ترکی فی الفور اپنی افواج علاقے سے نکال لے۔ جواب میں ترک صدر اردگان نے کڑے لہجے میں کہا ’’تم میرے برابر نہیں ہو۔ نہ تم میرے منہ لگو۔ عراق میں تمہارا چیخنا چلانا ہمارے لیے کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔ تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ ہم اپنا راستہ خود بنائیں گے۔‘‘ عراقی حکومت نے امریکہ سے بھی مداخلت کی درخواست کی تاہم موصل میں ترکی کو روکنے کیلئے امریکہ بھی کچھ نہیں کر سکا۔ ترک پارلیمنٹ نے اس آپریشن سے دو ہفتے قبل ایک قرارداد کے ذریعے شمالی عراق میں دو ہزارفوجیوں کے قیام میں توسیع کی منظوری دی تھی۔ اس کے علاوہ موصل کے قریب بعشیقہ میں ترک فوج کا کیمپ ہے جہاں داعش کے خلاف لڑنے کیلئے مقامی جنگجوئوں کو تربیت دی جاتی تھی۔ داعش سے چھڑائے جانے کے بعد موصل پر اب عراقی حکومت کا کنٹرول ہے اور ترک حکومت نے شہر پر قبضے کا ارادہ ظاہر نہیں کیا، لیکن بعشیقہ سے فوج نکالنے پر وہ آمادہ نہیں۔ یہ معاملہ بغداد حکومت اور انقرہ کے درمیان تاحال تنازعے کا سبب بنا ہوا ہے۔ عراق میں کردوں کے خلاف آپریشن کیلئے بھی ترک افواج موجود ہیں۔
موصل پر ترک ٹی وی کا نقشہ محض کسی صحافی کی ذہنی اختراع نہیں تھا۔ یہ نقشہ درحقیقت عثمانی پارلیمنٹ کے آخری دنوں میں منظور کردہ ’’میثاق ملی‘‘ کے نکات پر مبنی ہے۔ 28 جنوری 1928ء کو عثمانی پارلیمنٹ نے قومیت پرستی کو قبول کرلیا تھا۔ تاہم کچھ علاقوں کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان خطوں کیلئے ترکی کو ہر صورت لڑنا چاہیے۔ جب مغربی طاقتوں نے بہت کم علاقہ ترکی کے پاس رہنے کا عندیہ دیا تو جدید ترکی کے بانی مصطفیٰ کمال اتاتر ک کی قیادت میں ترکی کی افواج نے نئی جنگ شروع کی جس کے جیتنے پر وہ بہتر سودے بازی میں کامیاب ہوگئے۔ لیکن پھر بھی میثاق ملی میں بیان کیے گئے کئی علاقے ترکی سے باہر رہ گئے۔ ترکی میں برسوں تک اتا ترک اس بات پر سراہا جاتا رہا ہے کہ وہ اپنے ملک کا کافی حصہ بچانے میں کامیاب ہوگیا۔ تاہم اب اسی بات کو اردگان اور ان کے حامی دوسرے رنگ سے پیش کر رہے ہیں اور موصل جیسے علاقے ترکی میں شامل نہ ہونے پر اتاترک کو ہدف ملامت بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ جن دنوں موصل میں داعش کے خلاف آپریشن ہو رہا تھا، اردگان نے معاہدہ لوزان پر تنقید کی۔ اردگان کا کہنا تھا کہ معاہدے کے نتیجے میں ترکی بہت چھوٹا رہ گیا۔ امریکی میگزین’’فارن پالیسی‘‘ کے مطابق اردگان ایک متبادل بیانیے کو آگے بڑھا رہے ہیں جس میں دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ اتاترک کی جگہ کوئی اور سیاستدان ہوتا تو موصل اور یونان کے سپرد کیے گئے بحیرہ ایجیئن کے جزیرے، ترکی کا حصہ ہوتے۔ اس طرح اردگان ترک قوم پرستی کے بیانیے کو مسترد کرنے کے بجائے اسے نو عثمانیت کیلئے استعمال کر رہے ہیں۔ فارن پالیسی میگزین کے مطابق ارگان نے اپنے وزیراعظم کو ’’میثاق ملی‘‘ کے مطالعے کا اعلانیہ مشورہ دیا تاکہ وہ ترکی کیلئے موصل کی اہمیت کو سمجھ سکیں۔ تاہم بقول امریکی میگزین، میثاق ملی کے بہانے سلطنت عثمانیہ کے سابق علاقوں کو دوبارہ ترکی کا حصہ دکھانے کا فیصلہ ترکی کے پڑوسی ممالک کو قبول نہیں۔ ترکی کے میثاق ملی میں جو علاقے بتائے گئے اور ترک ٹی وی نے جو نقشہ دکھایا، اس میں ایک اور اہم عراقی شہر کرکک بھی ہے۔ جبکہ شام میں حلب اور اس سے اوپر شمال کا علاقہ بھی ترکی میں دکھایا گیا ہے۔
عراق کی طرح شام میں بھی ترکی نے ’’میثاق ملی‘‘ میں شامل علاقوں میں قدم جمانا شروع کردیئے ہیں۔ موصل کے اردگرد عراقی ترکمان فرنٹ، حکومت انقرہ کا اتحادی ہے تو شام میں ترکمان جنگجوئوں پر مشتمل سلطان مراد بریگیڈ ترکی کے مقاصد کو آگے بڑھا رہی ہے۔ شمالی عراق اور شمالی شام میں ترکی کا اصل مقابلہ کرد جنگجوئوں سے ہے۔ عراق میں یہ کردستان ورکرز پارٹی المعروف پی کے کے، کے طور پر موجود ہیں اور ترکی میں وائے پی جی (YPG ) کے نام سے سرگرم۔ تاہم دونوں تنظیموں کے آپس میں قریبی روابط ہیں۔ پی کے کے، کو دہشت گرد قرار دینے کے باوجود امریکہ، وائے پی جی کا حامی ہے اور یہ جماعت شام میں امریکی حمایت یافتہ سیرین ڈیموکریٹک فورسز کا حصہ ہے۔ کردوں کو شمالی عراق و شمالی شام میں کرد فیڈریشن قائم کرنے سے روکنا ترکی کا اولین ہدف ہے۔
2018 کے آغاز میں ترک فوج نے شامی شہر عفرین کا کنٹرول کردوں سے حاصل کرلیا۔ جبکہ ترک افواج شامی صوبہ ادلب میں بھی موجود ہیں۔ یہاں ان کی موجودگی تہران، ماسکو اور انقرہ کے درمیان اکتوبر 2017ء کے تحت طے پانے والے معاہدے کے تحت ہے جس کے مطابق ان تینوں ممالک نے یہاں قیام امن کیلئے چوکیاں بنائی ہیں۔ تاہم عفرین میں ترک افواج کی موجودگی پر شام کو اعتراض ہے۔ شام میں ترکی کا یہ دوسرا آپریشن ہے۔ اس سے قبل آپریشن عرفات کے تحت اعزاز شہر کے اردگرد 2016ء میں کارروائی کی گئی تھی۔ دونوں مرتبہ ترکی کے جنگی اقدام شام میں حلب سے شمال کی طرف انہی علاقوں تک محدود رہے جو ’’میثاق ملی‘‘ میں ترکی کا حصہ قرار دیئے گئے تھے۔ انہی میں منبج شہر شامل ہے، جہاں قبضہ کرنے کا اعلان اردگان نے جنوری 2018ء میں کیا۔ لیکن امریکہ نے جوابی اقدام کی دھمکی دیدی جس کے بعد جون میں دونوں ممالک کے درمیان تعاون کا ایک معاہدہ طے پاگیا۔ اس معاہدے کے تحت ترک افواج اور امریکی افواج الگ الگ علاقے میں گشت کریں گی۔
میثاق ملی میں شامل ایک اور علاقہ یونان کے حوالے کئے گئے جزائر پر مشتمل ہے۔ ان جزائر پر ترکی اور یونان کے جنگی ہوائی جہازوں کے درمیان کئی ایسی جھڑپیں ہوچکی ہیں جن میں ہتھیار فائر تو نہیں کیا گیا تاہم جہازوں کا آمنا سامنا ضرور ہوا۔ انگریزی میں ایسی جھڑپوں کیلئے dogfight کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے۔ ان میں متحارب جہاز ایک دوسرے کو اپنے نشانے پر رکھ لیتے ہیں تاہم میزائل فائر کرنے سے گریز کیا جاتا ہے۔ جنوری 2016ء میں ترکی کے 8 جہاز بحیرہ ایجیئن کے ان جزائر کی فضائی حدود میں داخل ہوئے۔ اپریل 2018ء میں یونان کا ایک میراج طیارہ ترکی کے دو ایف سولہ طیاروں کو روکنے کی کوشش کرتے ہوئے گر کر تباہ ہوگیا اور پائلٹ مارا گیا۔ یونانی فوج کے مطابق 2016ء میں ترک فضائیہ نے 1671 مرتبہ یونانی حدود کی خلاف ورزی کی۔2017 ء میں ترکی کے جہاز3317 مرتبہ یونانی حدود میں داخل ہوئے جبکہ رواں برس یعنی 2018ء میں اپریل تک 920 مرتبہ ترک فضائیہ کے جہاز ان علاقوں پر پرواز کرکے لوٹ چکے ہیں جنہیں میثاق ملی میں ترکی کا حصہ ظاہر کیا گیا تھا۔
سرکاری طور پر انقرہ حکومت کو قبول نہیں کہ عراق، شام اور یونان کے ساتھ پیش آنے والے ان واقعات پر نو عثمانیت یا میثاق ملی کا لیبل چسپاں کیا جائے۔ ترکی کا سرکاری موقف یہی ہے کہ شام اور عراق میں ترک افواج ’’دہشت گردوں‘‘ سے نمٹنے کیلئے ہیں۔ تاہم مغرب میں مقیم ترک نژاد صحافیوں اور مغربی تجزیہ نگاروں کی ایک بڑی تعداد ان واقعات کا تعلق میثاق ملی اور اس تاریخی دستاویز سے متعلق 2016ء میں اردگان کی تقریر سے جوڑتی ہے۔ واشنگٹن میں مقیم ترک خاتون صحافی عزے بلوت کا ایک مضمون میں کہنا ہے کہ ترکی کی تمام بڑی جماعتیں اس بات پر متفق ہیں کہ بحیرہ ایجیئن کے جزائر پر حملہ کردیا جائے۔ عزے بلوت نے کہا کہ ترکی میں میثاق جمہوریت پر عام بات ہوتی ہے اور ترک اخبار حریت نے اپنے ایک مضمون میں یہ لکھا کہ بعض مورخین کے نزدیک ترکی کی حدود میں قبرص، حلب، موصل، اربیل، کرکک اور جارجیا و یونان کے علاقے شامل ہیں۔
امریکہ کے جنگی تاریخ داں جوزف مائیکالف کا کہنا ہے کہ اردگان کی نو عثمانیت کے پانچ بڑے نکات میں سے ایک نکتہ جنگ عظیم کے بعد ہونے والے معاہدوں کو مستردکرنا ہے۔ اس سلسلے میں ترکی کے کئی توسیع پسندانہ دعوے مسلمان ممالک کے خلاف ہی ہیں۔ مائیکالف کا کہنا ہے کہ ماضی میں سوویت یونین سے تحفظ کیلئے ترکی مغرب پر انحصار کیلئے مجبور تھا۔ لیکن سوویت یونین کے خاتمے اور یورپ کی جانب سے (یورپی یونین کی رکنیت کے لیے) ترکی کو مسترد کیے جانے کے بعد اب صورتحال تبدیل ہوچکی۔ نیٹو کا رکن ہونے کے باوجود روس کی آشیر باد سے ترکی نے شام میں امریکی حمایت یافتہ سیرین ڈیموکریٹک فورسز پر حملے کیے۔
سرکاری طور پر ترک حکومت کچھ بھی کہے، اگر وہ معاہدہ لوزان اور معاہدہ انقرہ کو پس پشت ڈالتے ہوئے میثاق ملی میں شامل علاقوں کو اپنا حصہ بنانے میں کامیاب ہو جاتی ہے، تو یہ اردگان کی بہت بڑی جیت ہوگی۔ وہ فوری طور پر ’’اتاترک‘‘ سے بڑے رہنما بن جائیں گے۔ مصطفیٰ کمال کے مقابلے پر ان کا متبادل بیانیہ زیادہ مقبول ہو جائے گا۔ ترک قوم پرستوں کی نظر میں بھی ان کی مقبولیت بڑھے گی۔ دوسری جانب نو عثمانیت کے وسیع تر مقاصد حاصل کرنے کیلئے رجب طیب اردگان ایک اور حکمت عملی پر کام کر رہے ہیں۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭