بھارتی قصبے میں انبیا کی قبور کا انکشاف مجدد الف ثانی نے کیا

0

میگزین رپورٹ
بھارتی صوبہ پنجاب کا سرہند قصبہ، وہاں جنم لینے اور وہیں محو خواب دین اسلام کی ایک جلیل القدر ہستی مجدد الف ثانیؒ کے حوالے سے پہچانا جاتا ہے۔ وہیں ان سے منسوب یہ سعادت بھی ان کا نام تا قیامت زندہ رکھنے کیلئے کافی ہے کہ انہوں نے سرہند سے لگ بھگ بیس کلومیٹر واقع گاؤں پنڈ براس میں 9 انبیا علیہم السلام کی آخری آرام گاہوں کی موجودگی کا انکشاف کیااور مزارات میں سے ہر ایک کے جائے وقوع کی باقاعدہ نشان دہی بھی کی۔
بعض روایات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ہر ہزار سال کے بعد تجدید دین کیلئے اللہ تعالیٰ ایک مجدد مبعوث فرماتا ہے۔ اکثر علما کا اتفاق ہے کہ عمر بن عبدالعزیزؒ کے بعد دوسرے ہزار سال کے مجدد مغل شہنشاہ جلال الدین اکبرکے ایجاد کردہ دین اکبری کے فتنے کے خلاف جہاد کرکے دینِ اسلام کی تجدید و احیا کی عظیم سعادت پانے والے حضرت احمد فاروقی سرہندیؒ تھے اور اسی لئے انھیں مجدد الف ثانیؒ کے نام سے شہرت حاصل ہوئی۔
روایات کے مطابق حضرت احمد فاروقی سرہندیؒ (مجدد الف ثانیؒ) نے ایک مرتبہ اس مقام پر ظہر کی نماز ادا کی۔ اس وقت ان پر کشف ہوا کہ اس گاؤں میں انبیاؑ مدفون ہیں، جن کو اللہ نے اس علاقے کی ہدایت کے لئے بھیجا تھا۔ روایات کے مطابق حضرت مجدد الف ثانی ؒ نے بذات ِ خود ان مزارات کی جگہ کی نشان دہی فرمائی اور ساتھ ہی ارشاد کیا کہ میں ان میں سے ہر نبی ؑ کا نام بھی بتاسکتا ہوں، تاہم انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ انہوں نے یہ بھی انکشاف کیا کہ یہ انبیاؑ، حضرت نوح علیہ السلام سے منسوب طوفان کے بعد کے زمانے میں مبعوث کئے گئے تھے۔
بھاری غیر مسلم آبادی والے پنڈ براس میں لگ بھگ پچاس فٹ اونچے ٹیلے پر واقع یہ منفرد قبرستان ایک کشادہ احاطے میں واقع ہے۔ یہاں موجود 9 قبروں میں سے ہر ایک لگ بھگ تیس فٹ طویل ہے۔ ان میں سے آٹھ قبریں نسبتاً ایک دوسرے کے قریب واقع ہیں، جبکہ نویں قبر قدرے ہٹ کر بنائی گئی ہے۔
اس قبرستان سے ملحق ایک مسجد، مدرسہ اور لائبریری بھی موجود ہے۔ جبکہ یہاں بزرگوں کیلئے ایک مرکز بھی قائم کیا جارہا ہے۔ اس مسجد کے امام، مدرسے کے منتظم اور قبرستان کے نگران (نام معلوم نہیں ہوسکا) نے ایک مقامی ٹی وی چینل اور زائرین کو اس قبرستان کے حوالے سے جو معلومات فراہم کیں، ان کا مفہوم درج ذیل ہے:
یہ مقام مسلمانوں کے علاوہ سکھوں اور ہندوؤں کیلئے بھی زبردست احترام رکھتاہے۔ روایات کے مطابق حضرت مجدد الف ثانی ؒ ، جو سرہند میں آرام فرما ہیں، وہ اپنے زمانے میں بنفس نفیس اس مقام پر تشریف لائے اور یہاں نشانات لگا کر بتایا کہ یہاں انبیا علیہم السلام آرام فرما ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ یہ جلیل القدر ہستیاں طوفانِ نوح کے بعد اور حضرت ابراہیم ؑ سے پہلے کے یعنی آج سے لگ بھگ چھے ہزارسال پہلے کے زمانے سے تعلق رکھتی ہیں۔
حضرت مجدد الف ثانی ؒ کے بڑے صاحب زادے خواجہ محمد معصوم سرہندی ؒسے منسوب روایات کے مطابق حضرت مجدد الف ثانی ؒ یہاں کثرت سے حاضری دیا کرتے تھے۔ انہوں نے اپنے صاحب زادے کو ان قبور مبارکہ کی دریافت کا احوال یوں بتایا ’’میں جب دورانِ سفر اس علاقے سے گزرا کرتا تھا تو مجھے اس طرف سے صدائیں سنائی دیتی تھی کہ کیا دیکھنے والی نظر بھی نہیں دیکھ پاتی ہے۔‘‘ چنانچہ حضرت ؒ نے اس مقام پر مراقبہ فرمایا اور اس طرح اس قبرستان کی دریافت عمل میں آئی۔
اس مقدس قبرستان سے متعلق دیگر روایات کے مطابق دراصل 13 انبیا علیہ السلام یہاں آرام فرما ہیں۔ جبکہ ان میں صرف ان 9 انبیاؑ کی قبور کی نشان دہی ہوسکی ہے۔ مزید روایات کے مطابق مختلف ادوار میں چالیس کے لگ بھگ انبیاؑ نے ان علاقوں میں قیام فرمایا تھا، ممکن ہے وہ یہیں یا ہندوستان کے مختلف علاقوں میں کہیں آرام فرما ہوں۔ اس کے بارے میں کسی کے پاس معلومات نہیں ہیں۔
دنیا کے گوشے گوشے، خصوصاً پاکستان، ترکی، ایران، افغانستان، امریکا اور برطانیہ سے مسلمان عقیدت مند ان قبور کی زیارت کیلئے یہاں آتے ہیں۔ حضرت مولانا اشرف علی تھانوی ؒ اور دار العلوم دیوبند کے مہتمم ثانی حضرت مولانا رفیع الدین دیوبندیؒ بھی یہاں زیارت کیلئے آچکے ہیں۔
پنجاب کے اس دور افتادہ گاؤں میں آج بھی کوئی دو منزلہ مکان نہیں بناتا اور نہ کوئی اپنے گھر کی چھت پر سوتا ہے۔ یہ محض ان انبیاؑ کی عقیدت کے پیشِ نظر جو یہاں مدفون ہیں۔ گویا مسلمانوں، ہندوؤں اور سکھوں کیلیے یکساں عقیدت و احترام کا مقام تسلیم کیا جاتاہے۔ اس گاؤں میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی ایک عظیم مثال ملتی ہے۔
ایک روایت کے مطابق ایک زمانے میں اس جگہ پر سکھوں کا قبضہ تھا، جنہوں نے یہاں گردوارے کی تعمیر کیلئے کھدائی شروع کی۔ لیکن انہوں نے جیسے ہی زمین پر کدال چلانا شروع کی، انہیں زمین سے بھینی بھینی خوشبو پھوٹتی محسوس ہوئی۔ چنانچہ انہوں نے علاقے کے مسلمانوں کو یہاں بلایا جنہوں نے اس جگہ کی مقدس اہمیت کو پہچانتے ہوئے اسے اپنی تحویل میں لے لیا۔
تاہم اس قبرستان کی ازسرنو دریافت اور انبیاؑ کی آخری آرام گاہوں کو باقاعدہ مزارات کی شکل دینے کی سعادت بھارتی پنجاب کے شہر مالیرکوٹلہ سے تعلق رکھنے والے آرتھو پیڈک ڈاکٹر محمد نظام الدین کوٹھالوی کے حصے میں آئی۔ تفصیلات کے مطابق 1947ء تک مقامی مسلمانوں کی طرف سے اس قبرستان کی اچھی طرح دیکھ بھال کی جاتی تھی۔ لیکن ہندوستان کی تقسیم کے موقع پر ہونے والے مسلمانوں کے قتل عام اور اس کے نتیجے میں علاقے کی لگ بھگ تمام مسلمان آبادی کے ہجرت کرجانے کے بعد یہ قبرستان لاوارث ہوگیا۔ یہ علاقہ پاکستان سے آنے والے شرنارتھیوں کو الاٹ کردیا گیا جنہوں نے پہلے یہ علاقہ اپنے مویشی چرانے کیلئے استعمال کیا، لیکن جلد ہی وہ اس قبرستان کو پیروں کی آرام گاہ سمجھ کر اس جگہ کا احترام کرنے لگے۔
تاہم ان شرنارتھیوں کی طرف سے اس ٹیلے کے احترام کے باوجود اردگرد گوبرکے ڈھیر لگتے گئے اور بالآخر یہ قبرستان ناقابلِ رسائی بن گیا۔ انبیاؑ سے منسوب اس قبرستان کی حالت اس وقت بدلی جب 1994ء میں ڈاکٹر نظام الدین کوٹھالوی کو خواب میں بار بار بشارت دی گئی کہ اس قبرستان کی حالت بدلنے اور یہاں کی دیکھ بھال کا بندوبست کریں۔ اس پر وہ لوگوں سے پوچھتے پاچھتے یہاں تک پہنچ گئے۔ انہوں نے گاؤں کی پنچایت سے ملاقات کرکے قبرستان اور اردگرد کی جگہ حاصل کرلی۔ انہوں نے یہاں چاردیواری اور قبرستان تک پہنچنے کیلئے سیڑھیاں اور دروازہ تعمیر کرایا۔ ان سیڑھیوں کی تعمیر کے دوران ہی یہاں ایک کنواں بھی دریافت ہوا۔ پہلے اس کنویں کو پینے کے پانی کے حصول کیلئے استعمال کرنے کا ارادہ کیا گیا۔ لیکن مقامی لوگوں کی طرف سے بیان کردہ 1947ء میں پیش آئے کچھ دل خراش واقعات کی روشنی میں یہ ارادہ ترک کردیا گیا۔ ان مقامی لوگوں کے مطابق بہت سی مسلمان خواتین نے اپنے مرد اہل خانہ کے شہید ہو جانے کے بعد اپنی عزت بچانے کیلئے اس کنویں میں کود کر جان دے دی تھی۔ اب اس کنویں کے مقام پر ایک خوب صورت فوارہ قائم ہے۔ اگر آپ پنڈ براس کا دورہ کریں تو پورے گاؤں میں ایک غیرمعمولی امن و سکون کی فضا محسوس ہوگی جو ان بھولی بسری نسلوں کی کہانی سناتی ہے جنہوں نے یہاں اپنی زندگیاںگزاری اور اپنے آخری سفر پر روانہ ہوئیں۔ ان میں یہاں کے باسیوں کی ہدایت کیلئے بھیجے گئے پیغمبرؑ بھی شامل ہیں۔
کسی غیر جانبدار مبصر اور مشاہدہ کار کیلئے یہاں ایک اور سبق بھی موجود ہے کہ اسلام، ہندوستان کیلئے غیر ملکی مذہب نہیں ہے۔ انتہا پسند ہندوئوں کے تمام تر دعوئوں کے برعکس اسلام ہندوستان میں ہزاروں برس سے وجود رکھتا ہے۔
قبرستان کے نگران مزید بتاتے ہیں :
’’1994ء سے پہلے یہاں صرف قبروں کے نشانات اور ٹوٹی پھوٹی چار دیواری موجود تھی۔ ڈاکٹر نظام الدین کوٹھالوی جب قبرستان کی بحالی کی نیت سے یہاں پہنچے تو وہ یہاں کی ابتر حالت دیکھ کر پریشان ہوگئے۔ اس موقع پر انہوں نے اس مقام پر کھڑے ہوکر دعا کی کہ اے اللہ، مجھے اتنی ہمت اور وسائل دے کہ میں یہاں کی صفائی اور چاردیواری کی تعمیر کراسکوں۔ اللہ نے ان کی دعا قبول کی اور 1994ء میں ہی ساری تعمیرات شروع ہوئیں اور اب تک ڈاکٹر صاحب ہی اس قبرستان کی خدمت کررہے ہیں۔ قبرستان کی بحالی کے ایک ڈیڑھ سال بعد انہوں نے یہاں پہلے مسجد اور مدرسہ قائم کیا، جس میں دور دراز کے علاقوں کے بچے مفت دینی تعلیم حاصل کررہے ہیں۔ اس کے بعد ڈاکٹر صاحب نے یہاں ایک لائبریری قائم کی جس میں اسلام سمیت تمام مذاہب کی کتابیںاور مطالعے کی سہولیات موجود ہیں۔ اب ڈاکٹر صاحب یہاں ضعیف افراد کیلئے قیام و طعام کا مرکز بھی تعمیر کرارہے ہیں جس میں صرف مسلمان نہیں، بلکہ ہر مذہب سے تعلق رکھنے والے بزرگ اپنے آخری دن آرام سکون اور عزت سے گزارسکیں گے۔
سرہند میں حضرت مجدد الف ثانی ؒ کے سالانہ عرس کے موقع پر اس قبرستان میں خصوصاً بہت زیادہ زائرین دوردور سے یہاںآتے ہیں اور ڈاکٹر صاحب کی طرف سے یہاں چاردن تک بہت بڑے لنگر کا اہتمام کیا جاتاہے۔ کیونکہ ان زائرین کاتعلق تمام مذاہب سے ہوتا ہے، لہٰذا یہاں ویشنو (بغیرگوشت کے) کھانے پکائے جاتے ہیں۔ یہی وہ موقع ہے جب پاکستان سے بھی بھاری تعداد میں زائرین اس قبرستان کی زیارت کی سعادت حاصل کرنے آتے ہیں۔ تاہم اس کے علاوہ بھی یہاں باقاعدگی سے لنگر کا اہتمام کیا جاتا ہے اور کسی بھی مذہب کا پیروکار یہاں آکر پیٹ بھر سکتا ہے۔ اسی طرح مسلمانوں کے علاوہ ہندو، سکھ اور عیسائی مذہبوں سے تعلق رکھنے والے عقیدت مند میں اس قبرستان میں آکر اپنے لیے دعائیں مانگتے ہیں اور یہاں اس حوالے سے کوئی پابندی یا بھید بھاؤ نہیں ہے۔ غیر مسلم زائرین کے مطابق ان کی دعائیں پوری ہوتی ہیں اور انہیں یہاں بہت سکون ملتا ہے۔
ڈاکٹر نظام الدین کوٹھالوی نے مختلف مذہبی اور تصوف و ولایت کی کتابوں سے اس قبرستان کی معلومات اکٹھی کرنے کا کام بھی کیا اور پھر ان معلومات کو کتابی شکل میں دنیا بھر میں پھیلانے کا سلسلہ بھی کئی سال سے جاری ہے۔ اس کے بعد انہوں نے اس قبرستان کا تعارف ٹی وی اور انٹرنیٹ کے ذریعے دنیا تک پہنچانے کیلئے بھی بہت محنت کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب دنیا بھر میں اس مقدس مقام کا علم پہنچ چکا ہے۔‘‘
اس حوالے سے مولانا سرفرازاحمد قاضی مشہور ویب سائٹ www.aulia-e-hind.com پر لکھتے ہیں:
اللہ رب العزت نے ہر قوم اور ہر علاقے کے لوگوں کو دینِ حق کی طرف بلانے کے لیے انبیاؑ مبعوث کئے تھے۔ فرمان ِرب ہے
ترجمہ : ہم نے ہر امت میں رسول بھیجا کہ لوگو! صرف اللہ کی عبادت کرو اور اس کے سوا تمام معبودوں سے بچو۔ (سورۃ النحل، آیۃ 36)
اور اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان بھی ہے :
ترجمہ : اور کوئی امت ایسی نہیں ہوئی جس میں کوئی ڈرانے والا نہیں گزرا ہو۔ (سورۃ فاطر، آیۃ 24)
ایسی واضح آیات کی روشنی میں یہ بات بعید ازقیاس نہیں کہ برصغیر کے خطے میں بھی اس کے حصے کے پیغمبر مبعوث کیے گئے ہوں گے۔ یہ بھی شواہد موجود ہیں کہ اللہ رب العزت کا پیغام پھیلانے کیلئے انبیاؑ دنیا کے دور دراز گوشوں کا سفر کیا کرتے تھے۔ چنانچہ ہمیں شمال میںایودھیا سے لے کر جنوب میں رامیشورم تک انبیاؑ کی آخری آرام گاہوں کے شواہد ملتے ہیں۔ بھارتی پنچاب کے قلب میں واقع اس گاؤں بھی ایسی ہی کم معروف جگہ ہے۔ یہاں انبیاؑ کے مزارات کی موجودگی کا دعویٰ شاید فرضی قرار دے کر مسترد کردیا جاتا۔ لیکن سیدنا شیخ مجدد الف ثانی ؒ اور مولانا اشرف علی تھانوی ؒ جیسی جلیل القدر ہستیوں نے ان قبور کے انبیاؑ کی آخری آرام گاہ ہونے کی تصدیق کی ہے۔
سیدنا شیخ احمد الفاروقی سرہندی المعروف حضرت مجدد الف ثانیؒ نے اپنی سوانح حیات ’’روضۃ القیومیہ‘‘ میں لکھا ہے کہ انہوں نے ایک مرتبہ یہاں نماز پڑھی تھی اور ایک طویل مراقبے کے بعد انہوں نے اپنے مریدوں کو بتایا کہ انہیں کشف ہوا ہے کہ یہ مقام انبیاؑ کی آخری آرام گاہ ہے اور انہیں ان کی قبور کی نشان دہی بھی کرائی گئی ہے۔ حتیٰ کہ انہوں نے یہاں تک کہا کہ انہوں نے ان انبیا علیہم السلام سے ملاقات اور گفتگو بھی کی ہے۔
اس قبرستان کا دورہ کرنے والی بلند پایہ اسلامی شخصیات میں مولانا افتخار الحسن کاندھلویؒ، مولانا محمد یوسف حسن کاندھلویؒ اور مولانا شیخ زکریا ؒ نمایاں ہیں ۔ برطانیہ میں قائم ورلڈ اسلامک فورم کے چیئرمین مولانا عیسیٰ منصوری ؒ یہاں کا دورہ کرنے والی تازہ ترین مشہور شخصیات میں سے ایک ہیں۔
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More