منی لانڈرنگ تفتیش میں اہم شخصیت کا لندن ہوٹل نکل آیا
کراچی ( رپورٹ :عمران خان ) منی لانڈرنگ کی تحقیقات کے دوران ایک اہم سیاسی شخصیت کا لندن میں ہوٹل نکل آیا۔ مہنگے ترین پرآسائش ہوٹل حیات ریجنسی دی چرچل کو پاکستانی انتظامیہ کی جانب سے 2014میں خریدا گیا جب کہ 2015میں کئی ملین پاؤنڈز خرچ کرکے مزید تزئین وآرائش کی گئی اور وہاں پاکستان سے جانے والے متمول افراد کی جانب سے مہنگی ترین تقاریب منعقد کی جاتی ہیں۔کچھ عرصہ قبل ہی مذکورہ ہوٹل میں اہلیہ کی سالگرہ تقریب کیلئے غریب ملک کے ایک امیر ملزم نے 10 کروڑ پھونک ڈالے تھے جو اس وقت منی لانڈرنگ کیس میں ایف آئی اے کے ہاتھوں زیر حراست ہے۔ذرائع کے بقول برطانیہ میں زیر تفتیش 7 ارب کرپشن سے متعلق ٹڈاپ اسکینڈل کے مرکزی کردار نے بھی اسی ہوٹل میں تقاریب منعقد کر کے پاکستان سے مدعو ”خصوصی “ مہمانوں کو کئی کئی روز عیاشیاں کرائیں ۔منی لانڈرنگ پر گرفتار ہونے والی خاتون سمیت 30مختلف پاکستانی خواتین اس ریکٹ میں شامل ہیں جنہیں ٹڈاپ کرپشن اسکینڈل کے مرکزی ملزم کے ذریعے ہی ہینڈل کیا جاتا رہا ہے ۔مذکورہ ہوٹل میں ہونے والی میٹنگز میں شریک افراد اور ان کی کرپشن کے ایک دوسرے سے گہرے ناطے ہیں۔ذرائع کے بقول مذکورہ ہوٹل کے متعلق تحقیقاتی اداروں نے جو معلومات حاصل کی گئیں ان کے مطابق یہ 440 کمروں اور 8 سوئٹس پر مشتمل ہے اور یہ لندن شہر کے قلب 30 پورٹ مین اسکوائر پر واقع ہے اس کا افتتاح 1970ءمیں ہوا اور اس کے مالک سرایرک ولر تھے، اس کو 1982ءمیں ہانگ کانگ پارک لین ہوٹل انتظامیہ نے خریدا، 1992ءمیں اس کو نیشنل بینک آف کویت نے خرید لیا، پھر 1998ءمیں اس کو قطری کنسورشیم نے 242 ملین پاؤنڈ کی خطیر رقم سے خرید لیا اور اس کو انٹر کانٹی نینٹل دی چرچل کا نام رہا، 2004ءمیں حیات ریجنسی ہوٹل چین نے خرید لیا اور جب سے اس کا نام حیات ریجنسی دی چرچل ہوٹل ہے، 2014ءمیں اس کو ”نامعلوم“ انتظامیہ نے خرید لیا اور اس کے مبینہ پاکستانی مالک اس ہوٹل میں موجود تھے، جب وہاں دھماکا ہوا اس میں دس افراد زخمی ہوئے، اسی نئی انتظامیہ نے 2015ءمیں کئی ملین پاؤنڈ سے اس کی ازسرنو تزین و آرائش کی تھی ،اہم ذرائع کے بقول حالیہ دنوں میں مشہور منی لانڈرنگ کیس میں گرفتار ملزم نے اپنی بیوی سے ”بے پناہ محبت“ کے اظہار کے لئے اس کی سالگرہ پر کئی کروڑ روپے خرچ کئے، مذکورہ واقعہ اس کی گرفتاری سے ایک ہفتے قبل رونما ہوا، انتہائی معتبر ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ مذکورہ موصوف نے اپنی زوجہ کی سالگرہ لندن میں منانے کا فیصلہ کیا، اس تقریب کے لئے انہوں نے دبئی سے ایک بوئنگ 777 چارٹر کیا جس کے ذریعے رشتہ داروں اور قریبی دوستوں سمیت تقریباً 100 افراد لندن پہنچے اور مشہور فائیو اسٹار ہوٹل حیات ریجنسی دی چرچل میں قیام کیا جس کے ایک کمرے کا کرایہ ایک دن کے لئے کم از کم ایک لاکھ روپے جبکہ سوئٹ کا پانچ لاکھ روپے تک ہے، اس ہوٹل میں رہائش کرنا ان کی مجبوری تھی کیونکہ مبینہ طور پر اس ہوٹل کے مالک پاکستان کی انتہائی طاقتور سیاسی شخصیت اور سابقہ اعلیٰ ترین عہدہ پر فائز شخصیت ہیں۔ پہلے بھی پاکستان سے جانے والے تمام وفود کی رہائش اور میٹنگز اسی ہوٹل میں منعقد کرنا لازمی رہا تھا۔ مہمان لے جانے والے کا قریبی تعلق مذکورہ سیاسی شخصیت سےہونے کے سبب وہ بھی پابند تھے کہ اسی ہوٹل میں رہائش حاصل کریں ،ذرائع کے بقول ایف آئی اے کی حراست میں گزرے دنوں میں بعض افسران نے ملزم سے تفتیش کے دوران رسمی انداز میں اس پارٹی کے حوالے سے بھی بات چیت کی جس پر ملزم نے انتہائی تفاخر سے پارٹی کی تفصیل بیان کی، مذکورہ ملزم نے اس ہوٹل میں رہائش کے بعد سالگرہ منانے کے لئے اسی ہوٹل کے بجائے لندن کے انتہائی مشہور چائنز ریسٹورنٹ کو مکمل طور پر ایک دن کے لئے بک کرلیا جوکہ اس کی تاریخ میں کبھی نہ ہوا کہ کوئی اور گاہک اندر نہیں جاسکتا تھا اور پھر دو دن ہوٹل کی رہائش، طعام، شام کے بعد کے ”لوازمات“، وہاں مہمانوں کو خریداری کروانے اور چارٹر جہاز کے اخراجات کے علاوہ جہاز اور گاڑیوں کی دو دن کی پارکنگ اور دیگر اخراجات پر10کروڑ روپے سے زائد پھونک ڈالے جو کہ پاکستان سے منی لانڈر کئے گئے تھے،ذرائع کے بقول لندن میں نیشنل کراچی ایجنسی کے ہاتھوں حراست میں لئے گئے پاکستانی شخص سے تحقیقات کے لئے پاکستانی حکام کی جانب سے ایف آئی اے کو تفتیش تک رسائی دینے کے لئے برطانوی حکام سے درخواست کی جاچکی ہے جبکہ ایف آئی اے کراچی میں ملزم پر درج ہونے والے 14مقدمات میں سامنے آنے والے ثبوت اور شواہد بھی برطانوی نیشنل کرائم ایجنسی کو فراہم کردئیے گئے ہیں جس میں کرپشن کے ذریعے ٹریڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی سے لوٹی گئی رقم کے ثبوتوں کے علاوہ اس رقم کو حوالہ ہنڈی کے ذریعے پہلے دبئی اور پھر وہاں سے سوئٹزر لینڈ ،امریکہ اور برطانیہ کے بینک اکاؤنٹس میں منتقل کئے جانے کے شواہد بھی شامل ہیں ،ذرائع کے بقول ایف آئی اے کے ذریعے ملزم سے مذکورہ پاکستانی شخصیت اور ان کی ہوٹل کی ملکیت کے حوالے سے بھی ثبوت حاصل کئے جائیں گے کیونکہ برطانیہ میں زیر تفتیش شخص پر پاکستانی سیاسی شخصیت کے فرنٹ مین ہونے اور ان کے کہنے پر سرمایہ کاری کے حوالے سے اطلاعات ہیں ،سول ایوی ایشن کے ایک سینئر افسر کے بقول کسی بھی کمپنی کا طیارہ چارٹر کیا جاسکتا ہے بشرط کہ اس کو چارٹر کرنے والے افراد اور سفر کرنے والے افراد کے پاس مکمل سفری دستاویزات موجود ہیں اس کے لئے کمپنی اپنا روٹ پلان پہلے ہی متعلقہ ملک کے متعلقہ حکام کو فراہم کردیتی ہے جس کے بعد طیارہ پہنچنے پر معمول کے مطابق امیگریشن اور کسٹم کارروائی مکمل کرکے مسافروں کو جانے کی اجازت دے دی جاتی ہے ۔