کشمیر پر پاکستانی مؤقف دبانے کیلئے بھارت مذاکرات سے بھاگا
لاہور (رپورٹ: نجم الحسن عارف)پاکستان نے اقوام متحدہ کے رواں اجلاس میں مسئلہ کشمیر کو بھرپور طریقے سے اٹھانے کا فیصلہ کیا ہے ۔عالمی برادری کو باور کرایا جائے گا کہ امن کے گیت الاپنے والا بھارت مذاکرات کی طرف آنے کو تیار نہیں ، اس کے امن پسندی کے دعوے کھوکھلے اور محض اپنی انتہا پسندی پر پردہ ڈالے رکھنے کیلئے ہیں۔ذرائع کے مطابق اسلام آباد کی بھرپور تیاری دیکھ کرہی مذاکرات پر آمادگی کے اعلان کو 24 گھنٹے مکمل بھی نہیں ہوئے کہ مودی سرکار نے یوٹرن لے لیا۔اگلے سال اپریل یا مئی میں ہونے والے عام انتخابات کے پیش نظربھارتی حکمران جماعت بی جے پی کو جنونی ہندؤوں کی خوشنودی بھی مقصود ہے ۔مذاکرات سے انتہا پسند ووٹ بینک ناراض ہوسکتاتھا۔ بھارتی آرمی چیف کا پاکستان کیخلاف دھمکی آمیز بیان اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ ذرائع کے مطابق یہ سب سے اتفاقاً نہیں ہے بلکہ بھارت کی سوچی سمجھی پالیسی کا اظہار ہے۔ تاکہ کشمیر میں بھارتی فوج کی تیز کردہ قتل و غارت گری کی مہم کی جانب عالمی برادری کو متوجہ کرنے سے پاکستان کو روکا جائے اور اسے نفسیاتی حربوں سے دباؤ میں لانے کی کوشش کی جائے۔”امت“ نے اس سلسلے میں ترجمان دفتر خارجہ ڈاکٹر فیصل سے بات کی تو ان کا دو ٹوک اور صاف لفظوں میں کہنا تھا۔ بھارت جو بھی کرتا رہا۔ مسئلہ کشمیر کو پاکستان اقوام متحدہ کے رواں اجلاس کے دوران پوری قوت سے اٹھائے گا اور اس حوالے سے کسی دباؤ میں نہیں آئے گا۔ ترجمان دفتر خارجہ کے بقول پاکستان کا کشمیر کے بارے میں اصولی موقف ہے اور اس پر ہمیشہ سے قائم ہے۔ اب بھی اس میں کوئی کمزوری نہیں ہے۔ نہ اسے نظرانداز کیا جاسکتا ہے۔ سابق مشیر خارجہ سرتاج عزیز کا کہنا تھا کہ ”میرا خیال ہے کہ بھارت جو کچھ کررہا ہے وہ اپنے اندرونی سیاسی مسائل اور اہداف کے ہاتھوں مجبور ہو کر کررہا ہے۔کشیدگی کا فائدہ تو عملاً کسی کو بھی نہیں ہوتا ہے۔ میں نہیں سمجھتا کہ ہندوستان کے ساتھ دوستی ہوسکتی ہے لیکن مذاکرات کی کوشش پھر بھی رہنی چاہئے۔ ظاہر ہے کہ مسئلہ کشمیر ان مذاکرات میں سب سے اہم ہوگا۔ بھارت اس طرف نہیں آرہا تو ہمیں مسئلہ کشمیر عالمی سطح پر اور عالمی برادری کے سامنے تو اٹھانا ہوگا۔“ماہر امور خارجہ محمد مہدی نے اس سلسلے میں ”امت“ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ بھارت نے وزرائے خارجہ کی ملاقات منسوخ کرکے جو مقصد حاصل کرنا تھا وہ کرلیا ہے۔ وہ عالمی سطح پر ایک مرتبہ پھر یہ باور کرا رہا ہے کہ پاکستان دہشت گردی کا حامی ہے۔ اس میں بدقسمتی سے بین الاقوامی ذرائع ابلاغ بھی بھارت کے طرفدار کے طور پر سامنے آئے ہیں۔ اس میں ہماری کمزوری یہ رہی ہے کہ ہمارے ہاں جمہوری حکومت کم وقت کیلئے آتی ہیں۔ زیادہ تر وقت اسٹیبلشمنٹ کے اختیارات میں گزرا ہے۔ حکومتوں اور پالیسیوں کا عدم استحکام بھی پاکستان کے نقصان کا باعث بن جاتا ہے۔ اس صورتحال کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ بصورت دیگر ہم بھارت کے مقابلے میں کشمیر سمیت ہر معاملے میں اصولی موقف ہونے کے باوجود فائدہ نہیں اٹھا سکتے کہ عالمی برادری عوام کی منتخب حکومتوں کو پسند کرتی ہے۔ یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ ہمارے وزیراعظم کو ایسی کیا جلدی تھی کہ انہوں نے نہ صرف آتے ہی بھارت کو مذاکرات کی دعوت دیدی بلکہ خود ہی خط بھی لکھ دیا۔ ہمیں بھارت کے ”مائنڈ سیٹ“ کو سمجھ کر فیصلے کرنے چاہئے۔ عجلت میں نہیں۔