امت رپورٹ
کراچی میں جنگی کھلونے تیار کرنے والی ہندو کولہی برادری کی عورتوں کی چاندی ہوگئی۔ محرم میں بہترین سیکورٹی انتظامات کے سبب لکڑی کے تیر، تلواریں، ڈھال اور دیگر کھلونے گزشتہ برسوں کے مقابلے میں 50 فیصد زیادہ فروخت ہوئے- شہر کے مختلف علاقوں میں کھلونوں کے چار ہزار سے زائد ٹھیلے، پتھارے اور اسٹالز لگائے گئے تھے۔ تاہم مہنگائی کی وجہ سے لاگت بڑھنے کے سبب مختلف کھلونوں کی قیمت میں 40 فیصد اضافہ کردیا گیا۔ ایک اندازے کے مطابق شہر بھر میں تقریباً ایک کروڑ روپے سے زائد کے کھلونے فروخت ہوئے۔ کراچی کے بچے صرف محرم میں فروخت ہونے والے ان کھلونوں کا سال بھر انتظار کرتے ہیں۔ سانحہ کربلا کی مناسبت سے بنائے گئے لکڑی کے یہ کھلونا ہتھیار سال بھر نظر نہیں آتے ہیں۔ تعزیہ جلوسوں کے روٹ پر سڑکوں کے کنارے اور بازاروں میں ان کھلونوں کے پتھارے اور ٹھیلے لگائے جاتے ہیں۔ لکڑی اور رنگین کاغذوں سے یہ کھلونے شہر کی مضافاتی آبادیوں میں رہنے والی کولہی برادری کی خواتین اور مرد تیار کرتے ہیں۔ محرم سے کئی ماہ قبل کھلونوں کی تیاری شروع کردی جاتی ہے۔ سات محرم کی شب کھلونوں کا اسٹاک سوزوکیوں یا ٹھیلوں پر لاد کر شہر کے مخصوص مقامات پر پہنچا دیا جاتا ہے۔ اس سال سب سے زیادہ کھلونے نو اور دس محرم کو فروخت ہوئے۔ کولہی برادری سے حاصل کردہ معلومات کے مطابق کھلونوں کی تیاری کیلئے دھاگے کی خالی ریلیں، چمڑے کے ٹکڑے، مرغی کے پر اور دیگر ناکارہ اشیا سال بھر جمع کی جاتی ہیں۔ محرم سے کئی ماہ قبل ہندو عورتیں ان اشیا سے ہنرمندی کے ساتھ خوبصورت کھلونے تیار کرتی ہیں۔ یہ کھلونے ہر سال محرم میں یوم عاشور تک ہی فروخت ہوتے ہیں اور جو بچ جاتے ہیں وہ گھروں میں ڈمپ کردیئے جاتے ہیں۔ کراچی کے مضافاتی علاقوں اور کچی آبادیوں میں رہائش پذیر ہندو کولہی برادری کے زیادہ تر لوگوں کا مستقل ذریعہ معاش گداگری یا استعمال شدہ کپڑوں اور جوتوں کے بدلے برتن فروخت کرنے کا کام ہے۔ ان کی عورتیں اور بچے گداگری کے دوران کچرا کنڈیوں، صنعتی علاقوں اور گلی کوچوں سے کھلونوں میں استعمال ہونے والی ناکارہ اشیا بھی جمع کرتے رہتے ہیں۔ جن سے دھاگون کی خالی ریل، گتے، چمڑے کے ٹکڑے، ڈوریاں، ربڑ، پلاسٹک کی تھیلیاں اور دیگر سامان شامل ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ کھلونوں کی تیاری کیلئے جوڑیا بازار کی مختلف مارکیٹوں سے سادے اور چمکیلے ربن، رنگین کاغذ، مختلف رنگوں کی ڈسکو جھالریں، کاغذ کے پھول، لوہے کی تاریں اور پتریاں خریدی جاتی ہیں۔ ان چیزوں کی مدد سے لکڑی کے تیر، کمان اور تلواروں کے علاوہ باجے، بگل، ڈھول، بانسریاں، طوطے، چڑیاں، ٹوپیاں، چھڑیاں، لکڑی کے جھولے، گاڑیاں، ہوا سے گھومنے والے پنکھے، خوبصورت کاغذی پھول اور ڈگڈیاں تیار کی جاتی ہیں۔ سات محرم کی شب ہندو عورتیں کھلونوں کے ساتھ شہر بھر میں آجاتی ہیں اور چوراہوں، سڑک کنارے، بازاروں میں بند دکانوں، مارکیٹوں کے آگے سجا کر بیٹھ جاتی ہیں۔ یہ دکانداری دس محرم کی رات تک جاری رہتی ہے۔ بچے سال بھر ان خوبصورت کھلونوں کی خریداری کا انتظار کرتے ہیں۔ جبکہ ان کی قیمت بھی زیادہ نہیں ہوتی، 20 روپے سے دو سو روپے تک ہر آئٹم مل جاتا ہے۔ لکڑی کی تلواریں جو درجن اقسام کی ہوتی ہیں، خوبصورتی اور سائز کے حساب سے ان کی قیمت وصول کی جاتی ہے۔ تیرکمان، ڈھالیں، بگل، باجے، ڈگدی، مختلف سائز کے بڑے چھوٹے ڈھول، تاشے، رنگدار طوطے، گٹار اور دیگر کھلونے بچے شوق سے خریدتے ہیں۔ زیادہ تر اسٹالز صدر میں لگتے ہیں۔ لکی اسٹار سے صدر تک تمام گلیوں میں اسٹالز کی قطاریں ہوتی ہیں۔ جبکہ شاہ فیصل کالونی، ملیر، اورنگی، لانڈھی، کورنگی، لیاقت آباد، فیڈرل بی ایریا، ناظم آباد، بلدیہ اور دیگر علاقوں میں بھی کھلونوں کے بڑی تعداد میں اسٹال لگتے ہیں۔ شاہ فیصل کالونی نمبر ایک مین چوراہے کے قریب اسٹال لگانے والی ہندو عورت کرشنا کا کہنا تھا کہ کئی ماہ قبل ان کھلونوں کی تیاری شروع کردی جاتی ہے۔ لیکن ان کی فروخت حساس دنوں میں ہوتی ہے، اس لئے یہ خدشہ بھی ہوتا ہے کہ اگر ہنگامہ آرائی کے سبب حالات خراب ہوگئے تو سیزن تباہ ہوسکتا ہے۔ 2010 ء میں سانحہ عاشورہ ہوا تو افراتفری میں کھلونے چھوڑ کر گھروں کو بھاگنا پڑا تھا۔ اس سال کا نقصان تین چار سال میں پورا کیا تھا۔ اب تو مندروں میں پراتھنا کرتے ہیں کہ حالات اچھے رہیں اور سارے کھلونے فروخت ہوجائیں۔ اس سال تو کھلونے تیزی سے فروخت ہورہے ہیں اور منافع بھی اچھا ہورہا ہے۔ کھلونے فروخت کرنے والی لاجونتی کا کہنا تھا کہ سال بھر ناکارہ اشیا جمع کرتے ہیں اور رمضان میں دیگر اشیا مارکیٹوں سے خریدتے ہیں اور ان کھلونے بنانا شروع کردیتے ہیں۔ جو اشیا مارکیٹوں سے لے کر آتے ہیں وہ دن بدن مہنگی ہورہی ہیں۔ اس لئے ہر سال کھلونوں کی قیمت میں 10 سے 40 فیصد اضافہ کیا جاتا ہے۔ جو کھلونے بچ جاتے ہیں انہیں سال بھر جھگیوں میں رکھنا مسئلہ ہوتا ہے، لہذا دس محرم کی رات کو اونے پونے دام فروخت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہندو عورت کرینہ کا کہنا تھا کہ ان کے مرد سات محرم کی رات کو کھلونوں کی لاٹ شہر میں لے کر آتے ہیں۔ آٹھ محرم کی صبح علاقوں میں پولیس، ڈی ایم سی اور کے ایم سی والوں سے سیٹنگ کرتے ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں اس نے کہا کہ یہ علم نہیں کہ کتنا بھتہ دیتے ہیں۔ لیکن سیٹنگ کے بغیر ہم کاروبار نہیں کرسکتے۔ ورنہ سیکورٹی خدشات کا بول کر پولیس سڑکوں سے مال اٹھانے کیلئے کہتی ہے۔ اکثر پولیس والے بھی اپنے بچوں کیلئے مفت میں کھلونے لے جاتے ہیں۔ کھلونے فروخت کرنے والی ساوتری نے بتایا کہ ہر سال کھلونوں کی مانگ میں اضافہ ہورہا ہے۔
٭٭٭٭٭