کراچی (رپورٹ: ارشاد کھوکھر )وفاقی حکومت نے کل ہونیوالے مشترکہ مفادات کی کونسل کے 39 ویں اجلاس میں کراچی کو نہری سسٹم سے یومیہ 1200 کیوسک اضافی پانی فراہم کرنے سمیت سندھ ، بلوچستان اور دیگر صوبوں کی سفارشات ایجنڈے میں شامل کرلیں ،جن میں درآمدی ایل این جی کی صوبوں میں تقسیم ، ای او بی آئی ، ورکرز ویلفیئر کے فنڈز کی وصولی ہائرایجوکیشن کمیشن کے اختیارصوبوں کو منتقل کرنے بلوچستان کو سندھ سے حصے کا پانی کم ملنے کی شکایات کو بھی ایجنڈے کا حصہ بنایا گیا ہے ۔باخبر ذرائع کے مطابق پیر ( کل )وزیر اعظم عمران خان کی زیر صدارت ہونے والے مشترکہ مفادات کونسل اجلاس میں سندھ اور بلوچستان کی سفارش کردہ بعض امور کو بھی ایجنڈا میں شامل کیا گیا ہے ۔ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم چاہتے ہیں کہ ملک بھر میں صفائی کی مہم شروع کی جائے ۔خصوصاً چھوٹے بڑے شہروں کو صاف ستھرا رکھنے ،بروقت کچرا اٹھانے کے نظام کو بہتر بنایاجائے ۔ حکومت سندھ نے مطالبہ کیاہے کہ کراچی میں چاروں صوبوں سے تعلق رکھنے والے افراد مقیم ہیں اورکراچی میں پینے کے پانی کا مسئلہ حل کرنے کے لئے 1991 کے معاہدے سے ہٹ کر دریائے سندھ سے یومیہ 1200کیوسک اضافی پانی دیا جائے اور اس پانی کو سندھ کے حصے میں شمار نہ کیا جائے ،بلکہ وہ پانی مشترکہ وسائل سے دیا جائے ۔ اس پر بعض صوبوں کے ماضی میں اعتراضات بھی سامنے آچکے ہیں، تاہم وفاق نے حکومت سندھ کے مطالبے پر مذکورہ معاملے کو ایجنڈا میں شامل کر لیا ہے ۔ذرائع کے مطابق کراچی میں پینے کے پانی کا بحران حل کرنے کا وزیراعظم بھی اعلان کر چکے ہیں ۔وزیر اعظم کے دورہ کراچی کے دوران وزیراعلیٰ سندھ نے انہیں اس بات سے آگاہ کیا تھا کہ 18ویں آئینی ترمیم کے بعد صوبوں کو اختیارات کی منتقلی کے حوالے سے کئی امور سی سی آئی میں زیر التوا ہیں ۔ان پر غور کرکے حل کیا جائے ۔ذرائع نے بتایا کہ حکومت سندھ اس بات پر زور دیتی رہی ہے کہ 18ویں آئینی ترمیم کے بعد ای او بی آئی، ورکرز یلفئیر بورڈ اور صوبائی سطح پر ہائیرایجوکیشن کمیشن کے اختیارات صوبوں کو منتقل ہوگئے ہیں ۔لیکن ای او بی آئی کے اثاثے ابتک وفاقی حکومت نے صوبوں کو منتقل نہیں کئے ہیں اور ای او بی آئی ورکرز ویلفیئر بورڈ کے حوالے سے متعلقہ اداروں سے وصولی کا سلسلہ بھی وفاق نے بند نہیں کیا ،جس سے کئی مسائل پیدا ہورہے ہیں ۔بعض اداروں سے حکومت سندھ وصولی کرتی ہے، لیکن کئی ادارے یہ کہہ کر فیس اور محصولات ادا نہیں کرتے کہ وہ وفاقی حکومت کے زیر انتظام اداروں کو اداکررہے ہیں ۔ذرائع کا کہنا ہے کہ ہائرایجوکیشن کمیشن کے حوالے سے حکومت سندھ کا مطالبہ رہا ہے کہ 18ویں آئینی ترمیم کے تحت یہ معاملہ بھی صوبائی ہوگیا ہے اور صوبائی ہائر ایجوکیشن کمیشن تو موجود ہے ،لیکن ابھی اس ضمن میں متعلقہ صوبوں کے اندر بھی ڈگریاں جاری کرنے کا اختیار وفاقی ہائیرایجوکیشن کے پاس ہے جو منتقل کیاجائے ۔ذرائع کا کہنا ہے کہ ایجنڈےمیں ان امور کو شامل کیا گیا ہے ۔ذرائع کے مطابق کے پی کے حکومت کی جانب سے ہائیڈری پاور پلانٹس سے ہٹ کرایگرو پاور پلانٹس کی مد میں بھی وفاق سے رائلٹی کے مطالبے کو بھی ایجنڈےمیں شامل کیا گیا ہے ،جبکہ درآمدی ایل این جی کا معاملہ بھی ایجنڈےمیں شامل ہے ،جس پر وفاق حکومت کا موقف ہے کہ درآمدی ایل این جی کا ٹرمینل کراچی ہونے کے باعث سندھ بھی ایل این جی استعمال کرے اور اس کے بدلے میں سندھ سے نکلنے والی قدرتی گیس دیگر صوبوں کو فراہم کرے ،کیونکہ اس کے لئے سسٹم موجود ہے ،جبکہ حکومت سندھ اس کی مخالف ہے ۔اس کا موقف ہے کہ گیس کی پیداوار میں سندھ خودکفیل ہے ۔اس لئے سندھ کو ایل این جی ضرورت نہیں ہے ۔ایل این جی ان صوبوں کو دی جائے جن میں گیس کی پیداوار کم ہے ،جن میں خصوصاً پنجاب اور کے پی کے شامل ہے۔ ذرائع کے مطابق حکومت سندھ کا موقف ہے کہ گیس کے مقابلے میں درآمدی ایل این جی تقریبا ً 100فیصد مہنگی ہے ،جس کی سندھ کو ضرورت نہیں ہے ۔اجلاس میں صوبائی فوڈ اتھارٹیز کے معیار کو بہتربنانے کے لئے ان کا تعلق پاکستان اسٹینڈرڈ کو الٹی کنٹرول سے جوڑنے کے معاملے کو بھی ایجنڈا میں شامل کیا گیا ہے ۔ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومت بلوچستان کو یہ شکایات رہی ہے کہ بلوچستان کوگڈو بیراج اور سکھر بیراج سے حکومت سندھ حصے سے کم پانی دے رہی ہے ۔جس سے بلوچستان کے علاقے سخت متاثر ہورہے ہیں ،جبکہ اس سلسلے میں حکومت سندھ کا موقف ہے کہ بلوچستان کو پورے حصے کا پانی دیا جاتاہے ۔بلوچستان کا پانی صوبے کی اپنی حدود میں چوری ہوجاتا ہے ۔ذرائع کا کہناہے کہ اس معاملے پر بھی غور ہو گا کہ پانی کو مانیٹر کرنے کے لئے موثر منصوبہ بندی کی جائے ۔