عمران خان
برطانوی نیشنل کرائم ایجنسی پولیس کے ہاتھوں لندن میں حراست میں لئے گئے ملزم فرحان جونیجو کو پاکستان لانے کیلئے کارروائی حتمی مرحلے میں داخل ہو چکی ہے۔ فرحان جونیجو کے خلاف کرپشن اور منی لانڈرنگ کی تحقیقات کے سلسلے میں سیریس آرگنائزڈ کرائم ایجنسی (سوکا) کے حکام اور پاکستانی ایف آئی اے کی ٹیم کے درمیان تین ملاقاتیں ہوچکی ہیں، جن میں برطانوی ایجنسی ’’سوکا ‘‘ کی ٹیم نے ایف آئی اے کو ملزم فرحان جونیجو کی جانب سے برطانوی بینک اسٹینڈرڈ چارٹرڈ کے اکائونٹس سے برطانیہ میں جائیداد کی ادائیگی کیلئے منی لانڈرنگ کی رقم دبئی سے لندن منتقل کرنے کے شواہد حاصل کرنے میں معاونت فراہم کی۔ برطانوی تحقیقاتی ایجنسی سوکا بعد ازاں نیشنل کرائم ایجنسی میں تبدیل کی گئی، تاہم اس کیس پر تحقیقات جاری ہیں۔ لندن میں گزشتہ ہفتے اہلیہ کے ساتھ حراست میں لئے گئے ملزم فرحان جونیجو کو برطانیہ میں 8 ملین پائونڈ سے جائیداد خریدنے پر حراست میں لیا گیا تھا۔ فرحان جونیجو 7 ارب روپے کے ٹریڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی آف پاکستان کے اسکینڈل میں ایف آئی اے میں درج ہونے والے 90 مقدمات میں سے 14 میں مرکزی ملزم ہے، جس میں ایک منی لانڈرنگ کا کیس بھی شامل ہے۔ اسی ٹڈاپ کرپشن کیس میں سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے خلاف بھی 26 مقدمات درج ہیں۔ فرحان جونیجو کے حوالے سے تازہ پیشرفت نے دم توڑتے ہوئے کیسوں میں ایک بار پھر جان ڈال دی ہے اور یہ صورتحال سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کیلئے پریشان کن ہے، جو تمام کیسوں میں ضمانت حاصل کرنے کے بعد پُر امید تھے کہ وہ وقت گزرنے کے ساتھ بری کردیئے جائیں گے۔
ٹڈاپ میں اربوں روپے کے میگا اسکینڈل کے مرکزی مفرور ملزم فرحان جونیجو کی برطانیہ میںگزشتہ ہفتے حراست اور پوچھ گچھ کے بعد رہائی نے ایک بار پھر اپوزیشن کے ایوانوں میں ہلچل مچا دی ہے۔ 2009ء سے 2012ء تک اس ادارے میں ہونے والی والی کرپشن کی تحقیقات ایف آئی اے اینٹی کرپشن سرکل کراچی نے 2013ء میں اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف کی ہدایت پر شروع کی تھی اور اس حوالے سے 8 مقدمات درج کئے تھے۔ ان مقدمات کے تفتیشی افسران کی تعداد گیارہ رہی۔ ہر ایک ٹرانزیکشن پر علیحدہ مقدمہ درج ہوا۔ ان میں فرحان جونیجو 14 مقدمات میں ملوث دکھایا گیا اور اس کرپشن کی رقم کا حجم دو ارب سے زائد تھا۔ فرحان جونیجو نے کمیشن میں حاصل کردہ یہ رقم کراچی، کلفٹن میں کام کرنے والے ایک منی چینجر کے ذریعے دبئی بھجوائی جہاں سے یہ رقوم آگے ٹیلی گرافک ٹرانسفر (ٹی ٹی) کے ذریعے اس کی والدہ، اہلیہ اور بھائی وصول کرتے۔ یہ رقم اس کی ہمشیرہ اور اس کے اکائونٹ جو کہ سوئٹزر لینڈ، امریکہ اور لندن کے بینکوں میں تھے، ٹرانسفر ہوئی۔ مقدمات درج ہونے کے بعد فرحان جونیجو پانچ مرتبہ تفتیشی افسران کے سامنے پیش ہوا اور پھر روپوش ہوگیا اور اپنا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں ڈالنے سے پہلے بیرون ملک فرار ہو گیا۔
ایف آئی اے کی تحقیقات کے مطابق فرحان جونیجو کا تعلق لاڑکانہ سے تھا۔ ملزم کے والد اینٹی ٹیررازم کورٹ کے جج تھے، جنہیں دہشت گردوں نے فائرنگ کرکے شہید کر دیا تھا۔ اس کے بعد پیپلز پارٹی کے پہلے دور حکومت میں فرحان جونیجو کو اسسٹنٹ کمشنر بھرتی کیا گیا۔ وہ سول سروس کا ملازم تھا۔ تاہم بعد ازاں اسے زمینوں کے معاملات میں کرپشن پر معطل کیا گیا اور انکوائری کے دوران ہی وہ بیرون ملک چلا گیا۔ مگر 2009ء میں پیپلز پارٹی کی حکومت آنے کے بعد جب مرحوم مخدوم امین فہیم وفاقی وزیر صنعت و تجارت بنے تو فرحان جونیجو کو دوبارہ نوکری پر بحال کر دیا گیا اور بطور ڈائریکٹر ٹڈاپ تعینات کر دیا گیا۔ اس کے ساتھ ہی اسے سابق وزیر تجارت اور انویسٹرز مرحوم مخدوم فہیم کا پرنسپل اسٹاف آفیسر (پی ایس او) بھی بنا دیا گیا۔ اس تعیناتی کے دوران وہ مذکورہ ادارے کا طاقتور ترین افسر مانا جاتا تھا، کیونکہ اس کے تعلقات بہت ’’اوپر‘‘ تک تھے۔ 2009ء سے 2012ء کے عرصے میں ٹڈاپ میں جعلی کمپنیوں کو ری بیٹ اور دیگر مد میں اربوں روپے کی مبینہ کرپشن ہوئی۔ فرحان جونیجو کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ جس کو چاہتا کرپشن کا حصہ دیتا اور کوئی افسر اس کے خلاف بول نہیں سکتا تھا۔
چار برس قبل ٹڈاپ کرپشن اسکینڈل پر تحقیقات کرنے والے ایف آئی اے کے سابق ڈپٹی ڈائریکٹر کرائم سرکل فقیر محمد نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ ٹڈاپ کرپشن اسکینڈل میں مجموعی طور پر 90 مقدمات درج ہوئے، کیونکہ تحقیقات میں سامنے آیا تھا کہ وفاقی وزارت صنعت و تجارت کے تحت ٹڈاپ کے ادارے میں ملکی صنعت کو فروغ دینے کیلئے ایک اسکیم بنائی گئی تھی جس کے تحت ملکی تیار کردہ مصنوعات کو بیرون ملک ایکسپورٹ کرنے والی کمپنیوں کو زیادہ سے زیادہ سبسڈی یعنی مراعات دی جانی تھیں۔ تاہم ملزمان فرحان جونیجو اور دیگر نے اس اسکیم کو کرپشن کیلئے استعمال کیا اور درجنوں جعلی کمپنیاں قائم کرکے ان کو مراعات جاری کی گئیں، جس میں انہیں ٹڈاپ کے ایک سابق افسران کی معاونت بھی حاصل تھی۔ اس اسکینڈل کی تحقیقات کے 24 مقدمات میں اس وقت کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی اور مرحوم امین فہیم بھی 24 اور 26 مقدمات میں نامزد کئے گئے، جبکہ فرحان جونیجو، جو اصل کردار تھا جس نے دونوں شخصیات کو کمیشن دے کر استعمال کیا، 14 مقدمات میں نامزد رہا۔
دستاویزات میں مزید حقائق بیان کئے گئے ہیں کہ پہلی ٹرانزکشن ہنڈی حوالہ کے ذریعے دبئی اور پھر وہاں سے برطانیہ کے اسٹینڈرڈ چارٹرڈ بینک کے اکائونٹ نمبر 18498715201 جو فرحان احمد جونیجو کے نام پر دبئی برانچ میں تھا، میں 250 ملین روپے جمع ہوئے۔ یہ رقم 2011ء کے اوائل میں جمع ہوئی۔ 2011ء کے ہی میں اسی اکائونٹ میں 81 کروڑ 7 لاکھ 41 ہزار 4 سو روپے کی ٹرانزکشن ہوئیں۔ 2012ء میں دو بڑی ٹرانزکشن کے ذریعے اسی اکائونٹ میں 35 ملین روپے منتقل ہوئے۔ مذکورہ رقم دبئی کی وال اسٹریٹ ایکنیم کمپنی ایل ایل سی کے ذریعے فرحان جونیجو کی والدہ شمیم نبی شیر کے جنیوا سوئٹزر لینڈ کے اکائونٹ میں منتقل کی گئی۔ دوسری ٹرانزکشن 9 لاکھ 19 ہزار روپے اسی ایکچینج کمپنی کے ذریعے فرحان جونیجو کے بھائی ریحان جونیجو کے امریکہ میں واقع اکائونٹ میں ٹی ٹی کے ذریعے منتقل کئے گئے۔ ایک اور ٹرانزکشن جس کی مالیت 87 لاکھ روپے تھی، فرحان جونیجو کی زوجہ بینش این قریشی کے اکائونٹ واقع لندن میں اسی ایکسچینج اور ٹی ٹی کے ذریعے منتقل ہوئی۔ ایک اور ٹرانزکشن جس کی مالیت 1 کروڑ 18 لاکھ 98 ہزار روپے تھی، فرحان جونیجو کے اکائونٹ میں ہوئی۔ ایف آئی اے دستاویزات میں فائدہ اٹھانے والوں کے نام اور ان کی فرحان جونیجو سے رشتہ داری اور ان کے اکائونٹس کے نمبر اور دیگر تفصیلات درج ہیں، جس کے مطابق فرحان جونیجو کی والدہ شمیم نبی شیر کا اکائونٹ جنیوا سوئٹزر لینڈ کے کریڈٹ بینک ایگری کول برانچ میں واقع ہے۔ اس کی زوجہ بینش این قریشی کے دو اکائونٹ GB54NWBK60104315184749 اور GB69RBOS60954130699174 نیٹ ویسٹ بینک 6 کولڈ ہاربر لین ہینر مڈل سکس UB33EL میں واقع ہیں۔ فرحان جونیجو کے بھائی ریحان جونیجو کا اکائونٹ بینک آف امریکہ میں ہے۔ اس کی ہمشیرہ افتان جونیجو کا اکائونٹ بھی امریکہ میں ہے، جبکہ فرحان جونیجو اور اس کی زوجہ بینش کا جوائنٹ اکائونٹ بارکلے بینک لندن میں ہے۔ ایف آئی اے دستاویزات میں یہ بھی انکشاف کیا گیا ہے کہ دبئی سے لندن میں پراپرٹی کا کاروبار کرنے والی کمپنی میسرز بشپ اینڈ سی ویل ایل ایل پی جو کہ رسل اسکوائر لندن میں قائم ہے، اس کے اکائونٹ نمبر 333372670 میں جائیداد کی خریداری کیلئے دبئی کے اسی اکائونٹ سے کثیر رقم منتقل کی گئی اور فرحان جونیجو نے پراپرٹی خریدی، ایف آئی اے نے مقدمے کے جج (اسپیشل جج سینٹرل) سے ریڈ وارنٹ 2014ء میں جاری کرنے کی استدعا کی تھی، تاکہ انٹرپول کے ذریعے اس کو گرفتار کیا جا سکے۔ ڈپٹی ڈائریکٹر فقیر محمد کے مطابق ایف آئی اے نے اسی دور میں برطانیہ کے ادارے سیریس فراڈ آفس سے بھی رابطہ کیا تھا تاکہ غیر قانونی کرپشن کی رقم کو پاکستان منتقل کیا جا سکے، مگر اس وقت برطانیہ اور پاکستان میں اس متعلق کوئی معاہدہ موجود نہیں تھا۔ تاہم نئی حکومت کے آنے کے بعد سے اس سلسلے میں برطانوی اور پاکستانی حکومت کے درمیان مذاکرات چل رہے تھے اور دونوں ممالک کے تحقیقاتی ادارے، ایف آئی اے، نیب اور نیشنل کرائم ایجنسی برطانیہ میں معاہدہ ہوا اور اس معاہدے کے فوراً بعد لندن میں این سی اے نے فرحان جونیجو کو حراست میں لے کر پوچھ گچھ کی اور بعد میں جانے کی اجازت دے دی۔ ایف آئی اے افسر کے مطابق ملزم کی پاکستان حوالگی جلد ہی ممکن ہے کیونکہ کیس بہت مضبوط ہے بلکہ ملزم کو برطانیہ میں حراست میں لینے والی پولیس نے ہی ایف آئی اے کو اس کی منی لانڈرنگ کے ثبوت اسٹینڈرڈ چارٹرڈ بینک سے لے کر دیئے تھے اور اس ضمن میں نیشنل کرائم ایجنسی کی پاکستانی ایف آئی اے ٹیم سے تین ملاقاتیں ہوئیں۔ جبکہ دو بار برطانوی ٹیم کراچی آچکی ہے۔