عارف انجم
ہوور ڈیم کی تعمیر سے پہلے 1922ء میں طے پانے والا دریائے کولوراڈو کا معاہدہ اور اس کے بعد کی تقریباً ایک صدی (96 برس) کی تاریخ اس بات کا ثبوت ہے کہ آبی وسائل کی تقسیم پر ریاستوں یا صوبوں میں چلنے والے تنازعات اتنے سادہ نہیں ہوتے کہ انہیں راتوں رات یا کسی ایک دو معاہدوں سے حل کر لیا جائے۔ اس کے باوجود دریائے کولوراڈو معاہدہ (Colorado River Compact) ناکام قرار نہیں دیا جا سکتا۔ بلکہ اس سے پتہ چلتا ہے کہ اختلافات کے باوجود ریاستیں اور حکومتیں آگے کیسے بڑھتی ہیں۔ نومبر 1922ء میں نیو میکسیکو کے علاقے سانٹا فے میں اس وقت کے امریکی وزیر تجارت ہربرٹ ہوورکی قیادت میں یہ معاہدہ طے پایا۔ معاہدے کیلئے مذاکرات میں7 ریاستیں وائیمنگ، اوٹاہ، کولوراڈو، نیواڈا، کیلی فورنیا، ایریزونا اور نیو میکسیکو شریک تھیں۔ مذاکرات میں جلد یہ بات سامنے آگئی کہ پانی کی تقسیم پر دو فریق ہیں۔ اول دریائے کولوراڈو کے بالائی طاس کی ریاستیں جن میں وائیومنگ، کولوراڈو، اوٹاہ اور نیو میکسیکو شامل ہیں۔ دوسرا فریق زیریں طاس کی ریاستوں پر مبنی ہے، جن میں ایریزونا، کیلیفورنیا اور نیواڈا شامل تھیں۔ 1922ء کے معاہدے میں دریائے کولوراڈو کے پانی میں سے 75 لاکھ ایک فٹ ہر فریق کو دینے پر اتفاق ہوا اور طے یہ پایا کہ بالائی طاس اور زیریں طاس کی ریاستیں اس 75 لاکھ پانی کو آپس میں تقسیم کریں گی۔ اس مقصد کیلئے زیریں طاس کی ریاستوں نے 1928ء میں ایک فارمولہ طے کر لیا، جس کے تحت کیلیفورنیا کو 58 اعشاریہ 70 فیصد، ایریزونا کو 37 اعشاریہ 30 فیصد اور نیواڈا کو چار فیصد پانی دیا جانا تھا۔ بالائی طاس کی ریاستیں 1948ء میں فارمولے پر متفق ہوسکیں اور کولوراڈو کو 51 اعشاریہ 75 فیصد، اوٹاہ کو 23 فیصد، وائیومنگ کو 14 فیصد اور نیو میکسیکو کو 11 اعشاریہ 25 فیصد پانی دیا جانا تھا۔
کولوراڈو معاہدے کا ایک اہم نقطہ یہ تھا کہ ہر حال میں بالائی ریاستیں لیز فیری ( Ferry Lees) کے مقام سے 75 لاکھ ایکڑ پانی نیچے چھوڑنے کی پابند ہوں گی۔ تاہم 1922ء میں معاہدے کے کچھ ہی برسوں بعد یہ بات سامنے آگئی کہ کولوراڈو معاہدے کیلئے پانی کے جس تخمینے کو بنیاد بنایا گیا تھا، وہ درست نہیں تھا۔ 1922ء سے پہلے ایک برس میں بارشیں زیادہ ہوئی تھیں اور اس وقت دستیاب پانی کو ہی بنیاد بنا لیا گیا، جو 1 کروڑ 65 لاکھ ایکڑ فٹ سالانہ تھا۔ جبکہ دریا میں دستیاب پانی کی اوسط مقدار ایک کروڑ 30 لاکھ ایکڑ فٹ سے زیادہ نہیں تھی۔ اس کے علاوہ پانی کی مقدار بڑے پیمانے پر کم یا زیادہ ہوتی تھی۔ کبھی تو پانی اتنا کم ہوتا کہ صرف 40 لاکھ ایکڑ فٹ رہ جاتا اور کبھی 2 کروڑ ایکڑ فٹ ہوتا۔ پانی میں بڑے پیمانے پر کمی بیشی معاہدے پردستخط کرنے والوں کے مشاہدے میں تھی۔ یہی وجہ ہے کہ لیز فیری کے مقام سے 75 لاکھ پانی نیچے چھوڑنے کی شرط میں تحریر کیا گیا ہے کہ ہر دس برس کے دورانیے میں ’’اوسطاً‘‘ سالانہ 75 لاکھ ایکڑ پانی چھوڑا جائے گا۔ یعنی اگر بعض برسوں میں قلت کے سبب پانی کی مقدار کم ہوگی تو آئندہ برسوں میں اسے پورا کر لیا جائے گا۔ لیکن دستیاب پانی کا درست تخمینہ لگانے میں ان سے چوک ہوگئی۔
بالائی اور زیریں طاس کی ریاستوں میں پانی کی تقسیم ریاستوں کی بڑھتی ہوئی آبادی اور زرعی پیداوار کو مد نظر رکھتے ہوئے کی گئی۔ زیریں ریاستوں میں سے کیلیفورنیا کو زیادہ حصہ ملنے کا بھی یہی سبب تھا۔ تاہم ایریزونا میں بھی زراعت ترقی کر رہی تھی۔ لہٰذا جھگڑا تو کھڑا ہونا ہی تھا۔ اس کے برعکس بالائی طاس کی ریاستوں میں چونکہ پانی کی ضرورت زیادہ نہ تھی، لہٰذا وہاں ایسا اختلاف نہیں ہوا۔ معاہدے پر ابتدائی مذاکرات کے دوران ہی ایریزونا کے نمائندے نے مطالبہ رکھا کہ ان کی ریاست میں مختلف چھوٹے دریائوں اور ندی نالوں سے جو پانی دریائے کولوراڈو میں شامل ہوتا ہے، اسے ایریزونا کے حصے میں شمار نہ کیا جائے۔ کیلی فورنیا کو زیادہ پانی دینے پر ایریزونا کو اعتراض تھا۔ اس نے معاہدے پر دستخط نہیں کیے۔ چند برس بعد ہی 1934ء میں صورتحال اتنی بگڑی کہ ایریزونا نے اپنے نیشنل گارڈز اور ملیشیا فورسز کو کیلیفورنیا کی سرحد پر جمع کرلیا۔ مقصد کیلیفورنیا کو پارکر ڈیم کی تعمیر سے روکنا اور نہ رکنے کی صورت میں جنگ کرنا تھا۔ ایریزونا کی ’’بحریہ‘‘ چند برسوں تک دریائے کولوارڈو میں گشت کرتی رہی۔ 1944ء میں ایریزونا نے معاہدے پر دستخط کر دیئے۔ اگرچہ یہ دستخط غیر مشروط تھے، لیکن اس کا بنیادی سبب وفاق سے سینٹرل ایریزونا پروجیکٹ نامی نہری منصوبے کیلئے حمایت حاصل کرنا تھا۔ تاہم اضافی پانی کیلئے اس کے مطالبات برقرار رہے۔ پھر یہ معاملہ عدالت چلا گیا۔ 11 برس بعد 1968ء میں سپریم کورٹ نے اس تنازعے پر فیصلہ دیا، جس میں ایریزونا کے خاصے مطالبات مان لیے گئے۔
پچھلے 96 برس کے دوران کولوراڈو معاہدے میں جہاں ایک نقص یہ سامنے آیا کہ معاہدے کی بنیاد بننے والا پانی کا تخمینہ حقائق پر مبنی نہیں تھا۔ وہیں یہ حقیقت بھی ثابت ہوئی ہے کہ زیریں طاس کی پانی کی ضروریات انہیں دیئے گئے پانی سے بھی زیادہ ہیں۔ لیز فیری کے مقام سے 75 لاکھ ایکڑ فٹ کے بجائے یہ ریاستیں 95 لاکھ فٹ پانی لے رہی ہیں۔ دریائے کولوراڈو سے کیلی فورنیا کا حصہ 45 لاکھ ایکڑ فٹ بنتا ہے۔ جبکہ وہ 52 لاکھ ایکڑ فٹ پانی استعمال کرتی ہے۔ چونکہ بالائی ریاستوں کی ضروریات زیادہ نہیں تھیں، اس لیے زیریں ریاستوں کو اضافی پانی دینے کا یہ انتظام چلتا رہا۔ تاہم اب صورتحال تبدیل ہو رہی ہے۔گزشتہ صدی کے آخری عشرے کے بعد سے دریائے کولوراڈو میں دستیاب پانی پر بحث شروع ہوگئی۔2007ء میں معاہدہ کولوراڈو کی ریاستوں نے ایک بار پھر مذاکرات کیے اور کچھ نئی گائیڈ لائنز تیار کیں۔ جن میں طے کیا گیا کہ خشک سالی کی صورت میں ہر ریاست کو کتنا پانی ملے گا۔ دریائے کولوراڈو پر پانی کے دو ذخائر ہیں۔ ہوور ڈیم کی میڈ جھیل (Lake Mead) اور اس سے اوپر واقع جھیل پاول (Lake Powell)۔ نئی گائیڈ لائنز میں تعین کر دیا گیا ہے کہ اگر جھیلوں میں پانی کی سطح فلاں حد سے نیچے آئی تو زیریں طاس کی ہر ریاست کو کتنا کتنا پانی ملے گا۔
دریائے کولوراڈو میں دستیاب پانی کی صورتحال خراب سے خراب ہوتی جا رہی ہے۔ شمالی کولوراڈو کے کمیونٹی ریڈیو کے یو این سی رواں برس (ستمبر 2018ئ) تک جھیل میڈ میں پانی کی سطح نصف سے بھی کم، یعنی 48 فیصد رہ جائے گی۔ ماحولیاتی تبدیلیوں اور بڑھتے درجہ حرارت کے باعث سن 2000ء سے 2014ء کے درمیان دریا کے پانی میں ایک تہائی کمی ہوئی ہے اور 2023ء تک بحران انتہائی سنگین ہو سکتا ہے۔ مختلف امریکی ذرائع ابلاغ میں ان دنوں جھیل میڈ کے گرد بنے سفید دائرے کی تصاویر عام دکھائی جاتی ہیں۔ یہ دائرہ جسے ’’باتھ ٹب رنگ‘‘ کہا جاتا ہے ، جھیل کے کناروں پر اس وقت بنا، جب پانی کی سطح گر گئی۔ اور جہاں پہلے پانی تھا، وہاں اب سفید زمین دکھائی دے رہی ہے۔ کولوراڈو کے ریڈیو کے یو این سی کے مطابق صورتحال انتہائی خراب ہو رہی ہے۔ جبکہ یہ خدشہ بھی موجود ہے کہ پانی بہت کم رہ گیا تو کسی نہ کسی دن زیریں طاس کی ریاستیں لیز فیری سے ہر صورت 75 لاکھ ایکڑ فٹ پانی چھوڑنے سے متعلق معاہدے کی شق پر لازمی عمل درآمد کا مطالبہ کر دیں گی۔ جب تک پانی موجود ہے، اس شق پر عملدرآمد مشکل نہیں۔ لیکن جب پانی ہی نہیں ہو گا تو پھر معاہدے پر عملدرآمد کیسے کیا جائے گا۔ ریڈیو کا کہنا ہے کہ اس صورت حال کے خیال سے ہی دریائے کولوراڈو کے منتظمین کو پسینے آجائیں گے۔ ا گرچہ اب تک کبھی ایسا ہوا نہیں، لیکن اگر ایک مرتبہ یہ مطالبہ رکھ دیا گیا تو کئی قانونی پیچیدگیاں سامنے آئیں گی۔ کولوراڈو یونیورسٹی بولڈر کی پروفیسر اور اوباما انتظامیہ کے دوران محکمہ داخلہ میں خدمات انجام دینے والی اینکیسل کا کہنا ہے کہ زیریں طاس کی ریاستوں نے اس قسم کا مطالبہ رکھا تو بالائی ریاستوں کو اپنے یہاں کئی جگہ پانی کا استعمال روکنا پڑے گا۔ یہ بندش کم ترجیح والے مقامات پر پہلے ہوگی، جنہیں’’جونیئر رائٹس‘‘ والے علاقے کہا جاتا ہے۔ ایسے علاقوں میں شہری میونسپلٹیز زیادہ ہیں۔ دریائے کولوراڈو کے ایک ڈسٹرکٹ جنرل منیجر ایرک کوہن 2005ءمیں لکھے گئے اپنے ایک تحقیقی مقالے میں اس بھیانک صورتحال کا جائزہ لے چکے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس کے نتیجے میں قانونی اور تکنیکی جنگیں شروع ہو جائیں گی۔ مقدمے بازی ہوگی۔ ایرک کوہن اپنی تحقیق کے اختتام پر لکھتے ہیں کہ انتہائی صورت میں دریائے کولوراڈو کے پانی پر اپنا حق برقرار رکھنے کیلئے بالائی طاس کی ریاستیں ریاست ہائے متحدہ امریکہ سے الگ بھی ہو سکتی ہیں۔ یاد رہے کہ کولوراڈو معاہدے کی ضامن ریاست ہائے متحدہ امریکہ ہے۔
ایرک کوہن کی اس تحقیق اور پانی کی قلت پر جھگڑے کے خدشات کے باوجود دریائے کولوراڈو معاہدے کی 96 سالہ تاریخ میں اب تک امریکی ریاستوں نے مذاکرات سے ہی آبی وسائل کی تقسیم کا راستہ تلاش کیا ہے۔ اگر 1922ء میں کولوراڈو معاہدہ ہی نہ ہوتا تو ان ریاستوں میں دریائے کولوراڈوآج بھی کبھی سیلاب لا رہا ہوتا اور کبھی طویل خشک سالی۔ کولوراڈو معاہدہ نقائص سے پاک نہیں ہے۔ لیکن اس نے ایک بنیاد فراہم کر دی۔ بعد میں سپریم کورٹ کے معاہدوں، دیگر سمجھوتوں اور گائیڈ لائنز نے دریائے کولوراڈو کا انتظام سنبھالنے میں مدد دی۔ ان تمام معاہدوں اور عدالتی فیصلوں کو مجموعی طور پر ’’لا آف دا ریور‘‘ (دریا کا قانون) کہا جاتا ہے۔ اور دریائے کولوراڈو کا انتظام صرف 1922ء کے معاہدے پر نہیں، بلکہ ان تمام تر قانونی دستاویز کی بنیاد پر چلایا جاتا ہے۔ مسلسل مذاکرات اور راستے تلاش کرنے سے ہی قومیں آگے بڑھتی ہیں۔ پاکستان میں ڈیموں پر تنازعات کاایک بڑا سبب صوبوں کے درمیان پائی جانے والی بد اعتمادی ہے۔ لیکن اس بداعتمادی میں اضافہ اور پاکستان کے آبی مسائل میں شدت آنے کا سبب بات چیت نہ کرنا اور نئے راستے تلاش کرنے کی کوشش ترک کرنا ہے۔
٭٭٭٭٭