محمد زبیرخان
پاکستانی تاجروں نے چین میں گرفتار چینی بیوی بچوں کی حوالگی اور بازیابی کیلئے مہم شروع کر دی۔ چین نے 2017ء میں کم ا زکم تین سو کے قریب ایسی خواتین اور بچوں کو اپنی تحویل میں لے لیا تھا، جنہوں نے پاکستانی مردوں سے شادیاں کر رکھی ہیں۔ کئی ایک کو تحویل میں سے تو رہا کر دیا گیا ہے، مگر ان کو پاسپورٹ واپس نہیں کئے جارہے۔ اسی طرح کم عمر بچوں کو بھی نگرانی میں رکھا جارہا ہے۔ زیادہ تر کا تعلق صوبہ سنکیانگ سے ہے۔ حکومت پاکستان بھی سفارتی ذرائع سے کوئی کردار ادا نہیںکر رہی ہے۔ یہ بھی انکشاف ہوا ہے کہ تحویل میں لی گئی مقامی خواتین کو اسلام مخالف تعلیمات دی جاتی رہی ہیں۔
واضح رہے کہ 2017ء سے چینی حکام نے پاکستانی مردوں خصوصاً کاروباری حضرات سے شادی کرنے والی مقامی خواتین اور ان کے بچوں کو تحویل میں لینا شروع کردیا تھا اور اس کی وجوہات بھی نہیں بتائی گئی تھیں۔ ذرائع کے مطابق تقریباً ایک برس تک تحویل میں رکھے جانے کے بعد کچھ خواتین اور ان کے بچوں کو چھوڑ تو دیا گیا، مگر ان پر یہ پابندی عائد کی گئی کہ وہ اپنا آبائی علاقہ نہیں چھوڑ سکتیں اور ان کا پاسپورٹ بھی ضبط کرلیا گیا ہے۔ ’’امت‘‘ کو ایک متاثرہ پاکستانی شہری نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ اس کی بیوی اور اس کے تین بچوں کو دو ماہ قبل چھوڑ تو دیا گیا ہے، مگر ان پر چیک رکھا جا رہا ہے اور کہا گیا ہے وہ علاقے سے باہر نہیں جا سکتے۔ انہیں پاسپورٹ بھی واپس نہیں کیا گیا ہے۔ جبکہ انہیں ہدایت کی گئی ہے کہ وہ شام کو روزانہ دو گھنٹے کیلئے خصوصی کلاس میں شرکت کریں گے، جہاں ان کو اسلام مخالف تعلیمات دی جاتی ہیں۔ ایک اور متاثرہ تاجر نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ وہ اور ان کی چینی بیوی باعمل مسلمان ہیں، مگر انتہا پسند نہیں ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ان کے دو بچے اور بیوی تقریباً سات ماہ تک تحویل میں رہی ہیں، مگر ان کا بھی پاسپورٹ واپس نہیں کیا گیا۔ اب جب کہ ان کی فون پر اپنی بیوی سے بات ہوتی ہے تو وہ سلام کرنے سے منع کرتی ہے اور کہتی ہے کہ ہیلو کہا کریں۔ اسی طرح وہ بہت سی اسلامی تعلیمات چھوڑنے پر مجبور ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ چین کی انتظامیہ نے تحویل میں رکھ کر ان کی برین واشنگ کی ہے۔ کئی ایک متاثرہ مردوں نے یہ بھی بتایا کہ ان کی بیوی بچوں کا کوئی اتا پتا نہیں ہے۔ جب چین کی انتظامیہ سے رابطہ کرتے ہیں تو جواب نہیں دیا جاتا۔ پاکستان کی حکومت بھی کوئی مدد کرنے کو تیار نہیں ہے۔ ایک شخص کا کہنا تھا کہ ’’میرے تین بچوں او بیوی سے گزشتہ پانچ ماہ سے کوئی بات نہیں ہوئی ہے۔ میں نہیں جانتا کہ وہ کس حال میں ہیں۔ اس دوران تین دفعہ چین کا سفر کیا ہے، مگر وہاں پر کوئی معلومات فراہم کرنا تو درکنار بات کرنے کو بھی تیار نہیں ہے‘‘۔ ایک اور شخص کا کہنا تھا کہ ’’میرا کم عمر بچہ اور بیوی کا کچھ پتا نہیں ہے۔ میرا چین میں کروڑوں روپیہ کا کاروبار تھا، جس کو چین میں بیوی جیری دیکھتی تھی اور پاکستان میں، میں دیکھ بھال کرتا تھا۔ لیکن کریک ڈاؤن کے باعث میرا کاروبار بھی تباہ ہوچکا ہے اور بیوی بچے سے بھی ہاتھ دھو بیٹھا ہوں‘‘۔ کئی ایک مردوں کا کہنا تھا کہ ’’ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے بیوی بچے پاکستان آجائیں مگر ان کو پاسورٹ بھی واپس نہیں دیئے جارہے ہیں اور یہ صورتحال انتہائی گھمبیر ہے۔ ہم نے باقاعدہ مہم بھی شروع کر رکھی ہے۔ درخواستیں دے رہے ہیں، مگر کوئی بھی جواب نہیں ملتا‘‘۔ ان مردوں کا کہنا تھا کہ چین اور حکومت پاکستان اس معاملے میں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر فیصلہ کریں۔
ایک بین الاقوامی خبر رساں ادارے روئٹر کی رپورٹ کے مطابق چند پاکستانی تاجر چین میں قائم پاکستانی سفارتخانے کے ذریعے چینی حکومت پر اپنی بیویوں اور بچوں کو ان کے آبائی شہروں سے باہر سفر کرنے کی اجازت دینے کیلئے دباؤ ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ لاہور کے رہائشی مرزا عمران بیگ چینی صوبے سنکیانگ کے شہر ارومچی میں کاروبار کی وجہ سے کافی سفر کرتے ہیں۔ انہوں نے چین میں پاکستانی سفارتخانے کے باہر نیوز ایجنسی روئٹرز کو بتایا کہ ان کی اہلیہ کو گزشتہ برس دو ماہ کیلئے حراست میں لے لیا گیا تھا اور رہائی کے بعد سے وہ اپنا آبائی شہر چھوڑ نہیں سکتی۔ 40 سالہ عمران بیگ کی اہلیہ اور چار سالہ بیٹا دونوں چینی شہری ہیں۔ یہ دونوں چینی انتظامیہ کی جانب سے اپنا پاسپورٹ حاصل نہیں کر پا رہے۔ عمران بیگ کا کہنا ہے کہ پاکستانی سفیر نے انتظار کرنے کو کہا ہے۔ روئٹرز کی رپورٹ کے مطابق بیجنگ حکومت کا موقف ہے کہ اسے سنکیانگ میں اسلامی شدت پسندوں اور علیحدگی پسندوں سے شدید خطرات لاحق ہیں اور وہ مسلمانوں کے ساتھ کسی قسم کے متعصبانہ رویے کی تردید کرتی ہے۔ چینی وزارت خارجہ کے ترجمان کے مطابق انہیں ایسے کسی خاندان کے بارے میں علم ہی نہیں ہے جن پر سفری پابندیاں عائد کی گئی ہوں۔ بیجنگ پر انسانی حقوق کی تنظیموں اور اقوام متحدہ کی جانب سے اجتماعی حراستی مراکز اور خاص طور پر مسلم اقلیت ایغور کی سرگرمیوں پر نظر رکھنے پر تنقید کی جاتی ہے۔ رپورٹ کے مطابق ہُوئی یا خُوذُو مسلمان اکثریتی شہر لِنشیا کو چین میں ’’چھوٹا مکہ‘‘ کے نام سے شہرت حاصل ہے۔ اس شہر میں چھوٹی بڑی 80 مساجد ہیں۔ یہ شہر دریائے ڈاشیا کے کنارے پر آباد ہے۔ ایغور مسلم دانشور خُوذُو مسلم کمیونٹی کو چین کی ہان نسل کے مسلمان قرار دیتے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق ایک عام تاثر یہی ہے کہ مسلم ممالک نے سنکیانگ میں مسلمانوں کی صورتحال پر خاموشی اختیار کی ہوئی ہے۔ تاہم کچھ حلقے توقع کر رہے ہیں کہ پاکستان میں نو منتخب حکومت شاید اس صورتحال پر چینی انتظامیہ سے بات کرے گی۔ رپورٹ کے مطابق لاہور کے ایک اور تاجر میاں شاہد الیاس ایسے کیسز کے بارے میں معلومات اکٹھی کر رہے ہیں اور انہیں توقع ہے کہ پاکستان کی نئی حکومت ان خاندانوں کی مدد کرے گی۔ الیاس نے بتایا کہ ان کی اہلیہ ایغور مسلمان ہیں، وہ گزشتہ برس اپریل سے حراست میں ہیں۔ الیاس نے بتایا کہ بہت سے لوگوں نے میری طرح ایغور نسل کی خواتین سے شادی کی ہوئی ہے۔ یہ کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ لیکن 2017ء سے چینی انتظامیہ نے سنکیانگ میں بہت زیادہ سختی کر دی ہے۔ الیاس کے مطابق وہ ایسے 38 کیسز کی تصدیق خود کر سکتے ہیں، لیکن لگ بھگ ایسے 300 پاکستانی شوہر ہیں جن کی چینی ایغور بیویاں اور بچے گزشتہ ایک سال سے سنکیانگ میں پھنسے ہوئے ہیں۔ اب عمران بیگ جیسے پاکستانی تاجر، پاکستانی سفارتخانے کے ذریعے اس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
٭٭٭٭٭