اسکریپ کی آڑ میں پیکنگ پیپر کلیئر کرنے کا انکشاف
کراچی( اسٹاف رپورٹر ) پورٹ قاسم سے کسٹم افسران کی سرپرستی میں 3 بڑے ایجنٹ” بی او پی پی فلم پیکنگ پیپر“کے 100سے زائد کنٹینرز اسکریپ کی آڑ میں کلیئرکرارہے ہیں ،جس سے قومی خزانے کو کسٹم ڈیوٹی اورٹیکس کی مد میں کروڑوں روپے کا نقصان پہنچایا جا رہا ہے۔تینوں ایجنٹوں سے کسٹم آر اینڈ ڈی ،کسٹم انٹیلی جنس سمیت پورٹ قاسم کے ملوث کسٹم افسران بھاری رشوت وصول کرہے ہیں ” بی او پی پی فلم پیکنگ پیپر“کی ملک بھر میں طلب میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے ،کیونکہ ہزاروں چھوٹی بڑی فیکٹریوں میں روزانہ لاکھوں کی تعداد میں چپس،ٹافیاں ،چاکلیٹ اور مٹھائیاں اسی پیپر میں پیک کرکے فروخت کی جاتی ہیں۔مارکیٹ میں یہ پیپر آسانی سے دستیاب ہونے کی وجہ سے جعلی کمپنیاں بھی غیر ملکی برانڈ اور معروف ناموں کی چھپائی کراکے اپنی مصنوعات پیک کراتی ہیں۔ معتبر ذرائع کے مطابق اس وقت یہ میٹریل پورے پاکستان میں صرف پورٹ قاسم سے ہی غیر قانی طورکلیئر کیا جا رہا ہے جوکہ اسمگلنگ کے ذمرے میں آتاہے ،جس کے لئے ماڈل کسٹم کلکٹو ریٹ اپریزمنٹ پورٹ قاسم میں سرگرم نیٹ ورک صرف 5فیصد ڈیوٹی ادا کرکے ہر کنٹینر پر 95فیصد ڈیوٹی اور ٹیکس چور ی کر رہا ہے ،ذرائع کے بقول ملک بھر میں ” بی او پی پی فلم پیکنگ پیپر“ کی سپلائی کے لئے حنیف ماما ،اشعر اور اسماعیل گوڈیل نامی ایجنٹوں نے پورٹ قاسم پر نیٹ ورک قائم کرلیا ہے ،تینوں ایجنٹوں کی جانب سے دبئی اور تائیوان سے منگوائے گئے ’ بی او پی پی فلم پیکنگ پیپر“ کے کنٹینرز اسکریپ کی آڑ میں کلیئر کئے کر کے ملک بھر میں سپلائی کئے جا رہے ہیں۔ اس کی سب سے زیادہ کھپت کراچی اور پنجاب میں ہے ،یہی ایجنٹ ’ بی او پی پی فلم پیکنگ پیپر“ مقامی طور پرپاپڑ، چپس ،ٹافیا،چاکلیٹ ،بسکٹ بنانے والی فیکٹریوں کو سپلائی کررہے ہیں ،جبکہ آرڈر پر بھی مذکورہ میٹریل کمپنیوں کی جانب سے دئے گئے ڈیزائن پر پرنٹ کرکے فراہم کئے جا رہے ہیں ،’ بی او پی پی فلم پیکنگ پیپر“ کنٹینرز میں رول کی صورت میں آتا ہے ،تاہم اس کو گرین چینل اور یلو چینل دونوں صورتوں میں کسٹم افسران کی سرپرستی میں کلیئر کرایا جا رہا ہے ،جس کے عوض پورٹ قاسم پر تعینات بعض کرپٹ افسران کے علاوہ کسٹم انٹیلی جنس اور آ ر اینڈ ڈی کے علاوہ کسٹم کے دیگر تفتیشی شعبوں کو بھی بھاری رشوت دی جا رہی ہے ۔ذرائع کے بقول عمومی طور پر کسٹم کی پی ایس ٹی میں اس میٹریل کی کلیئرنس پر جو ڈیوٹی نافذ ہوتی ہے ۔اس میں سے 95فیصد ڈیوٹی چوری کرکے صرف 5فیصد ڈیوٹی اسکریپ کی کھیپ ظاہر کرکے ادا کی جا رہی ہے ، تحقیقاتی اداروں کی جانب سے کارروائی کرکے اس نیٹ ورک کو باآسانی بے نقاب کیا جاسکتا ہے ،ذرائع کے مطابق پورٹ قاسم پر کسٹم افسران کی سرپرستی میں اسمگلنگ اور ٹیکس چوری کی وارداتیں عام ہیں ۔اس سے قبل بھی گزشتہ مہینے کسٹم افسران کی ملی بھگت سے مریم کارگو نامی کمپنی کی جانب سے کروڑوں روپے کی کسٹم ڈیوٹی اور ٹیکس چوری کرکے حکومتی خزانے کا بھاری نقصان پہنچانے کی کی اطلاع پر تحقیقات شروع کی گئیں تو سنسنی خیز انکشافات سامنے آئے ،ذرائع کے مطابق مریم کارگو نامی کمپنی جس کے مالک کا نام عبدلمناف ہے ۔اس نے صرف ایک ماہ میں مختلف مقامی کمپنیوں کے لئے بیرون ملک سے مختلف مصنوعات پر مشتمل کنسائمنٹس کلیئر کروائیں اور تقریباً ایک کنٹینر پر 18لاکھ روپے کی ٹیکس اور ڈیوٹی کم ادا کی ،اس کے لئے کھیپ کلیئر کروانے کے لئے کسٹم میں داخل کردہ گڈ ڈکلیریشن یعنی جی ڈیز میں مس ڈکلریشن یعنی ردو بدل کیا گیا ،سی آئی یو کی ٹیم کی جانب سے یہ رپورٹ پورٹ قاسم اپریزمنٹ میں تعینات دو افسران ڈپٹی کلکٹر امجد راجپر اور ڈپٹی کلکٹر عدنان کو دی گئی ،تاہم ان دونوں افسران کی جانب سے اس معاملے پر کوئی ایکشن نہیں لیا گیا اور رپورٹ کو بعض عناصر کی جانب سے دبانے کی کوشش کی جاتی رہی اور ٹیکس چوری کا عمل جاری رہا ،بعد ازان مذکورہ کمپنی کے خلاف مزید تحقیقات کا حکم جاری کیا اور مذکورہ دونوں ڈپٹی کلکٹرز کسٹم کو کے خلاف ایک رپورٹ اس معاملے میں ملوث ہونے کے الزامات کے تحت چیف کلکٹر کسٹم رشید شیخ کو ارسال کردی گئی ،جس کے بعد دونوں افسران کا تبادلہ کردیا گیاتاہم انہیں پورٹ قاسم سے ہٹایا نہیں گیاجبکہ پاکستان میں کسی بھی پورٹ سے متفرق اشیااور اسکریپ کے کنٹینر بھی گرین چینل سے کلیئر ہوتے رہے ،حالانکہ اس قسم کے سامان کی گرین چینل سے کلیئرنس اس خدشے کے تحت ممنوع ہے کہ اسکریپ اور متفرق سامان کی مکمل فزیکل ایگزامنیشن ضروری ہوتی ہے کیونکہ اس کی آڑ میں پورے پورے الیکٹرونک آئٹم کلیئر کرالئے جاتے ہیں ،تاہم پورٹ قاسم پر سرگرم ٹیکس چور وں نے گرین چینل کو بھی الیکٹرونکس آئٹم،کاسمیٹکس ،متفرق آئٹم اور اسکریپ کے لئے استعمال کرارہے ہیں ۔