صفر کارکردگی پر وزیراعظم کو قوم سے خطاب ملتوی کرنا پڑا

0

نجم الحسن عارف
وزیر اعظم نے پارٹی کے سینئر رہنمائوں کے مشورے پر قوم سے خطاب ملتوی کیا۔ عمران خان کو حکومت کے خیرخواہوں نے بھی یہی مشورہ دیا ہے کہ پہلے کارکردگی دکھائی جائے، پھر قوم کے سامنے آیا جائے۔ فی الوقت عوام سے کہنے کیلئے کوئی خاص بات نہیں۔ الٹا مہنگائی کا بوجھ بڑھا ہے۔ صرف وعدوں اور دعووں سے حکومت پر دبائو مزید بڑھے گا تو اپوزیشن کو بھی تنقید کا موقع ملے گا۔
وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے ایک مرتبہ پھر قوم سے خطاب کر کے ایک ماہ کی حکومتی کارکردگی بیان کرنے کا فیصلہ واپس لینے پر جہاں تحریک انصاف کے کارکنوں اور رہنمائوں کو خوشی ہوئی تو وہیں نواز لیگ کو مایوسی ہوئی ہے۔ ذرائع کے مطابق تقریروں اور پریس کانفرنسوں کے عادی وزیراعظم کیلئے قوم سے خطاب نہ کر سکنے کا فیصلہ کرنا بڑا مشکل تھا۔ تاہم وہ حکومت کے خیر خواہوں اور پارٹی کے سینئر رہنمائوں کے کہنے پر یہ فیصلہ کرنے پر مجبور ہوگئے۔ انہیں مشورہ دیا گیا تھا کہ ایک ماہ کی حکومتی کارکردگی کے پلڑے میں اب تک وزیر اعظم ہائوس کی چند گاڑیوں اور بھینسوں کی نیلامی کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ اس کے علاوہ اعلانات، دعوے اور بیانات ہیں اور یا پھر یوٹرنز ہیں۔ باقی جو کچھ بھی حکومت نے اب تک اقدامات کئے ہیں، ان کے نتیجے میں عوام پر معاشی بوجھ مہنگائی کی صورت میں بڑھ گیا ہے۔ اس لئے صرف ایک ماہ اور سات دن بعد وزیر اعظم عمران خان کے ایک اور خطاب کے بعد اپوزیشن اور ذرائع ابلاغ کو سخت تنقید کا موقع مل جائے گا۔ ذرائع کے مطابق ہو سکتا ہے وزیر اعظم اپنا موخر کیا گیا یہ خطاب 50 لاکھ گھر بنانے کے منصوبے کے سلسلے میں کسی پیش رفت، پنجاب میں بلدیاتی سسٹم کی تبدیلی اور سعودی عرب سے کسی اچھی معاشی نوعیت کی ’’خوشخبری‘‘ ہو جانے کے بعد کریں۔ ذرائع نے بتایا کہ اگرچہ 50 لاکھ گھروں کی تعمیر کا منصوبہ ابتدائی رپورٹس کے مطابق کم از کم پانچ برسوں میں مکمل کرنا ناممکن ہے۔ تاہم وفاقی حکومت کو یہ یقین دہانی کرائی جارہی ہے کہ اگلے تین ماہ کے اندر اندر پورے ملک میں گھر تعمیر کرنے کے اس منصوبے کے پہلے مرحلے کیلئے سرکاری جگہ کی نشاندہی کرلی جائے گی۔ ابتدائی طور پر یہ جگہ بڑے شہروں میں وہاں حاصل کی جائے گی، جہاں پارٹی کا ووٹ بینک ہے، اور اس حوالے سے کام شروع کر دیا گیا ہے۔ ذرائع کے مطابق وزیراعظم عمران خان نے صوبہ پنجاب کو وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کے حوالے کرنے کے باوجود تمام تر ترقیاتی پروگرامز و دیگر معاملات کو براہ راست خود دیکھنے کی غیر رسمی حکمت عملی اختیار کر رکھی ہے، تاہم ابھی تک حکومت کوئی ایسا کام نہیں کر سکی ہے، جسے پہلے ماہ کے دوران حکومت کی اعلیٰ اور مثالی کارکردگی کے طور پر پیش کیا جاسکے۔ جبکہ ابھی تک کابینہ کے اجلاس میں کئے گئے فیصلوں کے پس منظر میں نئے بلدیاتی سسٹم کے خدوخال بھی فائنل نہیں کئے گئے ہیں۔ ادھر وفاق کی طرح قسطوں میں تشکیل پانے والی صوبائی کابینائیں بھی ابھی پوری طرح اپنے معاملات پر قابو نہیں پا سکی ہیں۔ ذرائع کے مطابق پنجاب میں پولیس اصلاحات کا حکومتی دعویٰ بھی ڈی پی او پاک پتن کی تبدیلی کی خبروں کے باعث شروع میں ہی گہنا گیا تھا۔ اس لئے پولیس کے معاملات بھی اب تک جوں کے توں ہیں۔ صرف معاشی شعبے میں حکومت نے مرکزی سطح پر کچھ اقدامات کئے ہیں، لیکن ان اقدامات کے نتیجے میں عام آدمی پر فوری طور پر مہنگائی کا بوجھ مزید بڑھ گیا ہے۔ دوسری جانب آئی ایم ایف کے چنگل سے نکلنے اور کشکول نہ پکڑنے کے تمام تر دعوئوں کے باوجود حکومت کی اعلیٰ سطح کی ٹیم اسلام آباد میں آئی ایم ایف کے وفد کے ساتھ مذاکرات شروع کرنے جا رہی ہے۔ جبکہ سعودی عرب کو ’’سی پیک‘‘ میں بطور تیسرے شراکت دار شامل کرنے کی بات، تو عملی طور پر سامنے آنے میں اس میں کافی وقت لگنے کا امکان ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ سعودی عرب سے آئندہ دنوں میں اعلیٰ سطح کے وفد کی آمد کے بعد اگر کوئی ’’بڑی خبر‘‘ آگئی تو پھر ہو سکتا ہے کہ وزیر اعظم قوم سے خطاب میں تاخیر نہ کریں۔ ممکن ہے اس وقت تک پنجاب میں نئے بلدیاتی نظام کے حوالے سے بھی کچھ پیش رفت ہوچکی ہو۔ اسی طرح ہائوسنگ پروجیکٹ کے بارے میں کچھ کہنے کا جواز فراہم ہوجائے۔
’’امت‘‘ نے اس سلسلے میں پی ٹی آئی کے پرانے لوگوں اور پارلیمنٹ میں موجود افراد میں سے بعض سے بات کی تو انہوں نے پہلے تو اس امر سے ہی بے خبری ظاہر کی کہ وزیر اعظم نے قوم سے خطاب کا فیصلہ کیوں تبدیل کیا۔ تاہم ایک پارلیمانی سیکریٹری نے اس حوالے سے ’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ سچی بات یہ ہے کہ وزیر اعظم کسی کارکردگی کے بغیر خطاب کرتے تو اپوزیشن جماعتیں بہت شور مچاتیں۔ ایسے میں تقریر کا فائدہ کم ہی ہونا تھا۔ دوسری جانب مسلم لیگ ’’ن‘‘ کے ایک مرکزی رہنما نے ’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’’ہم تو چاہتے ہیں کہ وہ بتائیں کہ انہوں نے دعوئوں اور تقریروں کے علاوہ اب تک کیا کیا ہے؟ یقیناً وہ ابھی تک کچھ نہیں کرسکے۔ اسی لئے وزیراعظم کو تقریر کرنے میں بھی دشواری محسوس ہوئی۔ ہمیں ان کی اس نئی پسپائی اور نئے یوٹرن سے مایوسی ہوئی ہے۔ وہ کچھ مزید دعوے اور وعدے کرجاتے تو اچھا ہوتا‘‘۔ ٭
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More