کراچی (رپورٹ: نواز بھٹو) اومنی گروپ کے خلاف جاری جعلی اکاؤنٹس اور منی لانڈرنگ کیس نیا رخ اختیار کرگیا۔ جے آئی ٹی نے تحقیقات کا دائرہ سندھ حکومت تک پھیلاتے ہوئے پچھلے 10 برسوں میں بیمار صنعتوں کی بحالی کے نام پر دیئے گئے اربوں روپے کا ریکارڈ مانگ لیا۔ ساتھ ہی صوبائی حکومت کے اکاؤنٹس اور اسی مدت کے دوران دو محکموں ورکس اینڈسروسز اور آبپاشی میں دیئے جانے والے ٹھیکوں کی تفصیل بھی طلب کی ہے، جس کے نتیجے میں پی پی قیادت سمیت اہم حکومتی شخصیات کے پھنس جانے کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔ذرائع کا کہنا ہے کہ مذکورہ محکموں سے ٹھیکے لینے والے کنٹریکٹرز جعلی اکاؤنٹس میں رقوم جمع کراتے رہے ہیں، جو منی لانڈرنگ میں استعمال ہوئے۔چیف سیکریٹری کو بھجوائے گئے مراسلے میں تفصیلات کی عدم فراہمی پر نیب آرڈیننس کے تحت کارروائی کا انتباہ بھی دیا گیا ہے۔ باخبر ذرائع کے مطابق سپریم کورٹ کے ازخود نوٹس کی روشنی میں پی پی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری ان کی ہمشیرہ فریال تالپور، انور مجید، حسین لوائی اور دیگر کے خلاف داخل منی لانڈرنگ کیس میں جعلی اکاؤنٹس کی چھان بین کے دوران معلوم ہوا ہے کہ پی پی قیادت کی ہدایات پر حکومت سندھ کی طرف سے اومنی گروپ کو مختلف مدات میں اربوں روپے سے نوازا گیا، جس کے بعد پی پی قیادت اور ان کے قریبی افراد کے خلاف تحقیقات کا دائرہ وسیع کر دیا گیا۔ ذرائع کے مطابق بیمار صنعتوں کی بحالی کے نام پر حکومت سندھ کے مختلف محکموں سے جاری کئے جانے والے اربوں روپے کے اسکینڈل کی زد میں دو وزرائے اعلیٰ کے آنے کے امکانات بھی بڑھ گئے ہیں۔ذرائع کے مطابق جعلی کاؤنٹس اور منی لانڈرنگ کیس کی تفتیش کے دوران اس کیس کے تانے بانے سندھ کی دیگر اہم شخصیات سے ملنے کے بعد جے آئی ٹی کی طرف سے حکومت سندھ سے ریکارڈ طلب کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے 17ستمبر کو چیف سیکریٹری سندھ کو ایک لیٹر No.ECW/HRC-39216-G/66/2018/32جاری کیا جو چیف سیکریٹری آفس کو 26 ستمبر کو موصول ہوا۔ جعلی اکاؤنٹس کیس کو منطقی انجام تک پہنچانے کے لئے جے آئی ٹی تحقیقات کی گہرائی تک جانا چاہتی ہے تاکہ تمام حقائق کا پردہ چاک ہو سکے۔ لیٹر میں مزید کہا گیا ہے کہ جعلی اکاؤنٹس کی تحقیقات کے سلسلے میں اس ریکارڈ کا فراہم کیا جانا بہت ضروری ہے، تاکہ حقیقت سامنے آ سکے اور سچائی تک رسائی آسان ہو سکے۔ لیٹر میں حکومت سندھ کو تنبیہ کی گئی ہے کہ اگر تمام مطلوبہ تفصیلات فراہم نہ کئے گئے تو ان کے خلاف نیب آرڈیننس 1999 کے تحت کارروائی کی جائے گی۔ جے آئی ٹی نے چیف سیکریٹری سندھ سے کہا ہے کہ 2008سے 2018 تک سندھ میں پی پی کے دور اقتدار کے دوران بیمار صنعتوں کی بحالی کے نام پر کتنی صنعتوں کی مالی معاونت کی گئی۔ بیمار صنعتوں کی مالی معاونت کس طریقہ کار کے تحت کی گئی اور جاری کئے جانے والے فنڈز کے تفصیلات جن بیمار صنعتوں کو فنڈز جاری ہوئے ان کے ڈائریکٹرز کی تعداد، نام، قومی شناختی کارڈ نمبر اور پتہ سے متعلق تفصیلات فراہم کی جائیں۔ جے آئی ٹی کی طرف سے محکمہ آبپاشی اور ورکس سروسز کی طرف سے پی پی کے دور اقتدار کے دوران دیئے جانے والے تمام ٹھیکوں کے تفصیلات بھی طلب کئے ہیں۔ لیٹر میں کہا گیا ہے ٹھیکوں کے تفصیلات کے ساتھ تمام ٹھیکیداروں کے نام، ان کے قومی شناختی کارڈ نمبرز اور مکمل پتے بھی فراہم کئے جائیں۔ واضح رہے کہ ان ٹھیکیداروں میں سے زیادہ تر ٹھیکیدار جعلی ہیں اور ان کے نام سے کروڑوں روپے وصول کئے گئے اور جعلی اکاؤنٹس میں منتقل کئے گئے۔ جے آئی ٹی نے چیف سیکریٹری سے سندھ حکومت کے تمام بینکوں کے ساتھ اکائونٹس کے تفصیلات فراہم کرنے کی بھی ہدایت کی ہے۔ لیٹر میں کہا گیا ہے کہ بینکوں سے متعلق تفصیلات کے ساتھ سالانہ بینک اسٹیٹمینٹ اور دستخط کرنے والے افسران کے نام، دیگر تفصیلات، قومی شناختی کارڈ نمبرز اور عہدوں سے متعلق مکمل تفصیلات بھی فراہم کئے جائیں۔ جے آئی ٹی کی طرف سے ان تفصیلات کے طلب کئے جانے کے باعث سندھ کی اعلیٰ بیوروکریسی اور حال ہی میں تعینات ہونے والے چیف سیکریٹری سندھ شدید دباؤ کا شکار ہوگئے ہیں، جبکہ متعلقہ محکموں کے ملوث افسران ریکارڈ چھپانے کی کوششوں میں مصروف دکھائی دینے لگے ہیں۔ ذرائع کے مطابق جے آئی ٹی نے اپنے ذرائع سے پہلے ہی سندھ میں سامنے آنے والے سب سے بڑے منی لانڈرنگ کیس کی تمام تر تفصیلات حاصل کرلی ہیں اور حکومت سندھ کو مراسلہ بھجوانے کا مقصد یہ ریکارڈ باضابطہ طور پر حاصل کرنا ہے۔صوبائی حکومت کیلئے یہ صورتحال انتہائی پریشان کن ہے کہ وہ اپنی قیادت کے خلاف ثبوت اور ریکارڈ جے آئی ٹی کو کیسے فراہم کرے۔ ذرائع کے مطابق اس صورتحال سے نمٹنے کے لئے فوری طور پر وزیر اعلیٰ سندھ سے رجوع کیا گیا جنہوں نے تاحال کسی قسم کی ہدایات جاری نہیں کی ہیں کہ ریکارڈ فراہم کرنا ہے یا تاخیری حربے استعمال کئے جانے ہیں۔ دوسری جانب شگرملوں کو دی جانے والی اربوں روپے کی سبسڈی کے معاملہ کا کُھرا بھی منی لانڈرنگ کیس میں سامنے آنے کے امکانات بڑھ گئے ہیں، کیونکہ سندھ میں سب سے زیادہ شوگرملیں اومنی گروپ کی ہیں اور سندھ حکومت کی سبسڈی کا سب سے بڑا حصہ اس گروپ کے پاس جا رہا تھا۔