نمائندہ امت
رواں مالی سال 2019ء کے ابتدائی دو ماہ میں گزشتہ مالی سال کے انہی دو ماہ کے مقابلے میں ٹیکس وصولی میں 14 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وزارت خزانہ اور ایف بی آر کو اس حوالے سے خاصی تشویش ہے اور ٹیکس نادہندگان کے خلاف فوری کارروائی کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ تاہم ایف بی آر کے ذرائع کا کہنا ہے کہ ایسا کوئی قانون موجود نہیں کہ فوری طور پر کسی ٹیکس نادہندہ یا ٹیکس چور کو گرفتار کرکے جیل میں ڈالا جا سکے۔ اس صورتحال میں حکومت کی جانب سے سو بڑے ٹیکس نادہندگان کے خلاف اگلے ہفتے شروع کئے جانے والے آپریشن کا کوئی نتیجہ نکلتا نظر نہیں آرہا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ بڑے ٹیکس چوروں میں بیشتر کا تعلق ٹیکسٹائل سیکٹر سے ہے۔ کابینہ اجلاس میں جب یہ اعداد و شمار پیش کئے گئے کہ گزشتہ مالی سال کے ابتدائی دو ماہ میں ٹیکس وصولی کے مقابلے میں اس سال ابتدائی دو ماہ میں ٹیکس وصولی میں 14 فیصد کمی ہوئی ہے اور اگست 2018ء کا ہدف بھی پورا نہیں ہو سکا، اس مہینے میں 250 بلین کی وصولی ہوئی ہے، تو اجلاس میں شریک وزراء نے اس صورت حال پر خاصی تشویش کا اظہا کیا۔ جس کے بعد یہ فیصلہ کیا گیا کہ عوام پر ٹیکسوں کا مزید بوجھ ڈالنے کے بجائے بڑے ٹیکس نادہندگان کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے اور ان کے خلاف باقاعدہ آپریشن کیا جائے۔ ذرائع کے مطابق ایف بی آر جن ٹیکس نادہندگان کے خلاف کارروائی کرے گا، ان کی فہرستیں موجود ہیں، لیکن صیغہ راز میں رکھی جا رہی ہیں۔ ان ذرائع کے مطابق فوری طور پر کسی ٹیکس ادا نہ کرنے والے یا ٹیکس چور کو گرفتار کئے جانے کا امکان نہیں اور نہ ہی اس طرح کا کوئی قانون موجود ہے۔ بلکہ ان افراد کو نوٹس دیئے جائیں گے، جس کے بعد ٹیکس کلکٹر اپنے پاس موجود شواہد کی بنیاد پر اس شخص کو ٹیکس کی رقم جو کلکٹر طے کرے گا، بینک میں جمع کرانے کی ہدایت جاری کرے گا۔ تاہم اس فیصلے کے خلاف وہ شخص ٹیکس کمشنر کے پاس بھی اپیل کر سکتا ہے اور وہاں سے ہونے والے فیصلے سے مطمئن نہ ہونے کی صورت میں ٹریبونل میں بھی جا سکتا ہے، جو ہائی کورٹ کے جج کے برابر جج صاحبان پر مشتمل ہوتا ہے۔ یہاں سے عدم اطمینان کی صورت میں متاثرہ شخص، ادارہ یا کمپنی سپریم کورٹ میں بھی جا سکتے ہیں۔ ان ذرائع کے مطابق یہ ایک طویل قانونی جنگ اور طریقہ کار ہے، لیکن ماضی کی حکومتوں کے برعکس موجودہ حکومت سیاسی اور انتظامی قوت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ٹیکس وصولی کا مصمم ارادہ کرلے اور کسی دباؤ میں نہ آئے تو کوئی وجہ نہیں کہ ٹیکس وصولی میں کئی گنا اضافہ نہ ہو۔ ذرائع کے مطابق جس طرح ایف بی آر میں تمام ٹیکس دہندگان کی فہرستیں موجود ہیں اور ان میں زیادہ ٹیکس ادا کرنے والے تنخواہ دار طبقے اور زیادہ ٹیکس ادا کرنے والے کاروباری افراد اور اداروں کی فہرستیں ہیں۔ اسی طرح بھاری مالیت کے اثاثے رکھنے والے اور ذرائع آمدن کو چھپا کر اپنی آمدن سے کئی گنا زائد اخراجات کرنے والے افراد بھی ایف بی آر کی نظر میں ہیں۔ مثال کے طور پر ایک شخص 10 لاکھ آمدن ظاہر کرکے اس پر چند ہزار روپے ٹیکس ادا کرتا ہے، لیکن اس کے بچے ماہانہ چار لاکھ روپے اسکول و کالج کی فیس ادا کرتے ہیں اور وہ کروڑوں روپے مالیت کے مکان کا مالک ہے یا لاکھوں روپے ماہانہ کرایہ دیتا ہے۔ وہ اور اس کے اہل خانہ بیرون ملک سفر کرتے ہیں، ان کے پاس کروڑوں روپے مالیت کی کئی گاڑیاں اور درجنوں ملازم ہیں۔ بھاری مالیت کے ماہانہ یوٹیلٹی بلز ادا کرتا ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ وہ شخص اصل آمدن چھپا رہا ہے، اس طرح کے بہت سے لوگوں کی فہرستیں موجود ہیں۔ لیکن ماضی میں ایف بی آر کی بعض کالی بھیڑوں کی ملی بھگت اور حکومتوں کے کمزور فیصلوں کی وجہ سے ان کے خلاف کارروائی نہیں ہو سکی۔ اب ایسے افراد کو پہلے نوٹس دے کر بلانا ہوگا اور جب انہیں معلوم ہوگا کہ ایف بی آر کے علم میں ان کے اثاثے اور مالی وسائل آچکے ہیں اور واقعتاً حکومت کا ارادہ اب کسی صورت ٹلنے کا نہیں ہے تو یقیناً وہ ازخود ٹیکس دینے پر تیار ہوں گے اور قانونی موشگافیوں سے بچنے کی کوشش کریں گے۔ کیونکہ اس صورت میں ایسے شخص کو زیادہ ٹیکس بھی دینا پڑ سکتا ہے۔ ذرائع کے مطابق ایسے افراد جن کے اثاثوں اور بھاری اخراجات کی تفصیلات ایف بی آر کے پاس موجود ہیں، لیکن انہوں نے آمدن بہت کم ظاہر کی ہے، ان کی تعداد ہزاروں میں ہے، جن کے خلاف ایکشن لینے کی ضرورت محسوس کی جارہی ہے۔ تاکہ عوام پر ٹیکس کا بوجھ بڑھانے کی بجائے ان اصل ٹیکس چوروں کو سسٹم میں لایا جائے۔ ذرائع کے بقول اس سلسلے میں ٹیکس اصلاحات بھی پی ٹی آئی حکومت کے ایجنڈے میں شامل ہیں۔ حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ سو بڑے ٹیکس نادہند افراد اور اداروں کے خلاف بہت جلد کارروائی شروع ہوجائے گی اور اس آپریشن کو منطقی انجام تک پہنچایا جائے گا تاکہ دیگر ٹیکس چور عبرت پکڑیں اور حکومت کے ذرائع آمدن میں اضافہ ہو۔ ٭
٭٭٭٭٭