عمران خان
کراچی کسٹم کے کرپٹ افسران نے پرائیویٹ کارندے رکھے ہوئے۔ ذرائع کے مطابق ’’لپو‘‘ کہلائے جانے والے یہ 300 سے زائد کارندے کراچی کسٹم اپریزمنٹ کے تمام شعبوں کلکٹوریٹس، کسٹم انٹیلی جنس ڈی آئی ٹی اور کسٹم پریونٹو میں سرگرم ہیں، جو کسٹم افسران کی جانب سے اسمگلنگ، مس ڈکلریشن اور انڈر انوائسنگ کے ذریعے ٹیکس چوری کرنے والے امپورٹرز اور کلیئرنگ ایجنٹوں کے ساتھ رشوت سے لیکر سامان کلیئرکرانے تک کے تمام معاملات طے کرتے ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ چیف کلکٹر سائوتھ اور ڈی جی کسٹم انٹیلی جنس بھی کسٹم افسران کے ان پرائیویٹ کارندوں سے باخبر ہیں اور ان کے حوالے سے کئی رپورٹیں ممبر کسٹم اسلام آباد اور چیئرمین ایف بی آر آفس تک پہنچتی رہتی ہیں۔ تاہم ان پرائیویٹ کارندوں کو ماہانہ تنخواہ پر رکھنے والے کسٹم افسران کے خلاف اب تک کوئی کارروائی نہیں کی گئی ہے۔ بیشتر لپوئوں کی ماہانہ آمدنی، جسے تنخواہ کہا جاتا ہے 40 سے 50 ہزار ہوتی ہے جبکہ جوڑ توڑ سے ملنے والی اضافی رقم اس کے علاوہ ہے۔
باخبر ذرائع کے مطابق اس وقت جو نجی کارندے سب سے زیادہ سرگرم ہیں، ان میں ایک منا نامی شخص ہے، جو کہ کسٹم کے تفتیشی افسر پرویز زرداری کے ساتھ ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ ڈائریکٹوریٹ آف کسٹم انٹیلی جنس اینڈ انوسٹی گیشن کراچی آفس میں موجود لپو جمال کسٹم انٹیلی جنس کے کئی افسران کے ساتھ کام کر رہا ہے۔ وہ ٹیکس چوری میں ملوث کمپنیوں اور کلیئرنگ ایجنٹوں کے درمیان رابطے کا کام کرنے کے علاوہ انہیں انفارمیشن بھی فراہم کرتا ہے۔ اس کے علاوہ کسٹم انٹیلی جنس ڈی آئی ٹی میں سرگرم فرقان بھٹی اور افنان کاروں کی اسمگلنگ میں ملوث ڪمپنیوں اور ایجنٹوں کے علاوہ بھارتی گٹکا، چمن سے براہ راستہ حب کراچی آنے والی بسوں کے ذریعے الیکٹرونک سامان، غیر ملکی سگریٹ اور ادویات کی اسمگلنگ میں ملوث ایجنٹوں اور کسٹم افسران کے درمیان معاملات طے کراتے ہیں۔ ذرائع کے مطابق علی سموں اور عمر سیال دادا بھی کسٹم افسران کیلئے کام کرر ہے ہیں۔ ان دونوں کا دھندا کراچی سے اندرون سندھ تک کئی علاقوں میں پھیلا ہوا ہے اور یہ دونوں پنجاب تک اسمگلنگ میں ملوث کمپنیوں اور کلیئرنگ ایجنٹوں کی کسٹم افسران سے ’’سیٹنگ‘‘ کرانے میں بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ جبکہ نعم خان اور فیصل خان نامی کارندے کسٹم افسران نسیم چیمہ اور رفیق مہر کیلئے کام کر رہے ہیں۔
کسٹم ذرائع کے بقول ان 300 سے زائد لپوئوں کی کسٹم کے ایسے شعبوں تک رسائی ہے، جو انتہائی اہم تصورکیے جاتے ہیں۔ انہیں کسٹم کے کمپیوٹرائزڈ سسٹم کے پاس ورڈز تک معلوم ہیں اور بیرون ملک سے آنے اور جانے والے سامان کی انٹریاں تک کرنا ان کی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔ کسٹم ذرائع کے مطابق ماضی میں جمال نامی ایک کارندہ اس وقت کے ڈپٹی کلکٹر عمر کے ساتھ کام کر رہا تھا۔ کسٹم میں نیا سسٹم متعارف ہونے کے بعد اس کے پاس ورڈ وغیرہ تک رسائی رکھنے کی وجہ سے درجنوں کمپنیوں کو کروڑوں روپے کی ٹیکس چوری میں مدد فراہم کی اور بعد ازاں خود بھی کروڑ پتی گیا۔ وہ کسٹم کلیئرنگ اور امپورٹ کی ایک بڑی کمپنی قائم کرکے آج بھی کام کر رہا ہے۔ ذرائع کے مطابق اس نجی فورس کو کرپٹ کسٹم افسران اپنے طور پر ہر ماہ تنخواہ ادا کرتے ہیں۔ کراچی کے تینوں ٹرمینل کے علاوہ کسٹم ہائوس میں بھی کسٹم افسران کے زیر نگرانی کئی لپو کام کرتے ہیں۔ جبکہ ڈائریکٹوریٹ جنرل آف کسٹمز انٹیلی جنس اینڈ انوسٹی گیشن ایف بی آر کراچی کے افسران نے بھی نجی کارندے رکھے ہوئے ہیں، جو کسٹم کے کلکٹر رینک تک کے افسران کیلئے کام کرنے میں ماہر ہوتے ہیں۔ یہ اس قدر طاقتور ہیں کہ جس کنسائنمنٹ کو یہ روکنا چاہیں اسے کوئی کلیئر نہیں کراسکتا۔ ان افرادکی کم سے کم تنخواہ 40 ہزار اور زیادہ سے زیادہ 50 ہزار روپے تک ہے۔ ان کی زیادہ تعداد پورٹ قاسم اور کسٹم انٹیلی جنس ڈی آئی ٹی میں کام کرتی ہے۔ ذرائع کے بقول کسٹمز کے افسران نے شہر کی مختلف بندرگاہوں پر درآمدی کنسائنمنٹس کی ایگزامینشن کے فرائض پرائیویٹ افراد کو سونپ دیئے ہیں، جس کی وجہ سے درست ایگزامینشن نہیں ہورہی اور کنسائنمنٹس کی کلیئرنس پر بھاری رشوت وصول کی جارہی ہے۔ یہ پرائیویٹ کارندے بندرگاہ کی ممنوعہ حدود میں جاکر درآمدی کنسائن منٹس کی ایگزامینشن کرتے ہیں اور کنسائن منٹس کی انوائس اور پیکنگ لسٹ کو گڈز ڈیکلریشن جی ڈی سے ملایا جاتا ہے، اگر درآمد کنندہ نے کنسائن منٹس میں مس ڈیکلریشن یا انڈر انوائسنگ کی ہوتی ہے تو یہ لوگ درآمدکنندگان سے درست ایگزامینشن رپورٹ تیار کرنے کیلئے کسٹمز افسران کی ملی بھگت سے بھاری رشوت وصول کرتے ہیں اور رشوت نہ دینے پر کنسائن منٹس کو روک کر کنٹراونشن رپورٹ بنا دی جاتی ہے۔ واضح رہے کہ مختلف بندر گاہوں پر پرائیویٹ افراد کا ایگزامینشن ایریا میں داخلہ ممنوع ہے۔ لیکن ان افراد نے مختلف کلیئرنگ ایجنٹس کے ناموں پر اپنے کارڈ بنا رکھے ہیں۔ذرائع کے بقول حالیہ عرصے میں سپریم کورٹ کی جانب سے کسٹم میں کرپشن اور گرین چینل کے استعمال سے اربوں روپے کی ٹیکس چوری کے حوالے سے نیب کو تحقیقات کیلئے احکامات جاری کئے جانے کے بعد ڈی جی کسٹم انٹیلی جنس شوکت علی اور ان کے فرنٹ مین مشتاق کیخلاف کرپشن کے الزامات پر نیب میں تحقیقات شروع ہوئیں اور ساتھ ہی گرین چینل کے حوالے سے چیف کلکٹر سائوتھ عبدالرشید شیخ سے رپورٹ طلب کی گئی، جس کے بعد کسٹم افسران محتاط ہوگئے۔ تاہم کسٹم افسران کی ایما پر لپوئوں نے پہلے سے زیادہ سرگرمی سے کام شروع کردیا ہے اور اب وہ معاملات بھی براہ راست نمٹانے لگے ہیں جوکہ کسٹم افسران خود کر رہے تھے۔ ذرائع کے بقول کسٹم افسران ٹیکس چوری اور اسمگلنگ میں ملوث امپورٹرز کے ساتھ اپنے موبائل فونز کے ذریعے رابطہ کرنے کے بجائے ان کارندوں کے موبائل فونز استعمال کرتے ہیں۔
٭٭٭٭٭