نمائندہ امت
خیبرپختون میں اپوزیشن جماعتوں نے 14 اکتوبر کو ہونے والے ضمنی الیکشن میں تحریک انصاف کا راستہ روکنے کیلئے مشترکہ امیدوار میدان میں اتار دیئے اور مشترکہ طور پر مہم چلانے کا فیصلہ کیا ہے، جس کی وجہ سے پی ٹی آئی کو کامیابی کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگانا پڑے گا۔ اس مرتبہ پی ٹی آئی نے صوبے میں تنہا حکومت بنائی ہے۔ خیبرپختون میں قومی اسمبلی کے ایک اور صوبائی اسمبلی کے 9 حلقوں میں ضمنی الیکشن ہونا ہے اور ان حلقوں میں سیاسی گہما گہمی بڑھ رہی ہے۔ سوات میں صوبائی اسمبلی کے حلقہ پی کے 3 پر پانچ امیدوار میدان میں ہیں۔ تحریک انصاف نے ساجد علی کو ٹکٹ دیا ہے۔ جبکہ نواز لیگ نے ایک مرتبہ پھر سردار خان کو میدان میں اتارا ہے۔ سردار خان کو گزشتہ الیکشن میں پی ٹی آئی کے ڈاکٹر حیدر علی نے شکست دی تھی۔ اس حلقے میں تین آزاد امیدوار محمد زیب، محبوب الرحمان اور ریاض احمد بھی قسمت آزمائی کر رہے ہیں۔ لیکن سخت مقابلہ تحریک انصاف اور نواز لیگ کے درمیان ہوگا۔ کیونکہ یہاں نواز لیگ بھی مضبوط ووٹ بینک رکھتی ہے۔ ذرائع کے مطابق اگر متحدہ اپوزیشن ایم ایم اے، اے این پی، قومی وطن پارٹی اور پیپلز پارٹی کا ووٹ (ن) لیگ کے امیدوار کو پڑتا ہے تو یہ نشست (ن) لیگ کے حصے میں آسکتی ہے۔ سوات میں صوبائی اسمبلی کے دوسرے حلقہ پی کے 7 پر 4 امیدوار میدان میں ہیں۔ یہاں تحریک انصاف اور اے این پی میں سخت مقابلہ متوقع ہے۔ تحریک انصاف نے فضل مولا اور اے این پی نے وقار احمد خان کو ٹکٹ دیا ہے۔ جبکہ سعید احمد خان اور فضل اکبر آزاد امیدوار ہیں۔ سابق وزیر اعلیٰ امیر حیدر خان ہوتی کی جانب سے خالی کردہ صوبائی نشست پی کے 23 مردان پر پی ٹی آئی کے مقابلے میں متحدہ اپوزیشن نے اے این پی کے امیدوار احمد خان پر اعتماد کا اظہار کیا ہے۔ جبکہ تحریک انصاف نے محمد عبدالسلام کو ٹکٹ دیا ہے۔ چار آزاد امیدوار اکبر شاہ مہمند، محمد ہستم خان، مصور خان اور ولایت خان بھی میدان میں ہیں۔ یہاں بھی مقابلہ اے این پی اور تحریک انصاف کے درمیان ہوگا۔ اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کی جانب سے چھوڑی گئی صوبائی اسمبلی کی نشست پر صرف تین امیدوار میدان میں ہیں۔ متحدہ اپوزیشن نے اے این پی کے غلام حسن کی حمایت کی ہے جبکہ تحریک انصاف نے عاقب اللہ کو ٹکٹ دیا ہے اور ایک آزاد امیدوار شہزاد علی خان بھی الیکشن لڑ رہے ہیں۔ تاہم مقابلہ اپوزیشن کے امیدوار اور تحریک انصاف کے درمیان ہو گا۔ صوبائی اسمبلی کے دو حلقوں پی کے 61 اور پی کے 64 نوشہرہ سے کامیاب ہونے والے سابق وزیر اعلیٰ اور پرویز خٹک کی جانب سے قومی اسمبلی حلقہ این اے 25 کی نشست اپنے پاس رکھنے کے بعد ضمنی الیکشن کیلئے انہوں نے اپنے بھائی اور بیٹے کو مذکورہ حلقوں سے پارٹی ٹکٹ دلوائے ہیں۔ پی کے 61 پرپرویز خٹک کے بیٹے ابراہیم خٹک کا مقابلہ اے این پی کے نور عالم خان سے ہوگا۔ جبکہ پی کے 64 پر پرویز خٹک کے بھائی لیاقت خان کو اے این پی کے محمد شاہد کا چیلنج درپیش ہوگا۔ پشاورکے شہری علاقوں پر مشتمل حلقہ پی کے 78 میں سب سے زیادہ 13 امیدوار میدان میں ہیں۔ تاہم یہاں پر سخت مقابلہ اے این پی کے مرحوم رہنما ہارون بلور کی اہلیہ ثمر بلور اور تحریک انصاف کے امیدوار محمد عرفان کے درمیان ہوگا۔ پی کے 78 جو ماضی میں پی کے 3 پر مشتمل تھا۔ یہاں سے عوامی نیشنل پارٹی کے سینئر رہنما بشیر احمد بلور مسلسل کامیابی حاصل کرتے رہے۔ تاہم 2013ء کے الیکشن سے قبل خودکش بم دھماکے میں ان کی شہادت کے بعد اس حلقے پر ان کے بیٹے ہارون بلور کو تحریک انصاف کے امیدوار نے شکست دی تھی ۔اس مرتبہ ہارون بلور نے الیکشن میں حصہ لیا تاہم یکہ توت بم دھماکے میں الیکشن سے کچھ دن قبل وہ بھی جاں بحق ہوگئے، جس کے بعد ہارون بلور کی اہلیہ ثمر ہارون بلور اب اپوزیشن کی مشترکہ امیدوار ہیں۔ صوبائی اسمبلی کے ایک اور اہم حلقہ پی کے 97 پر 7 امیدوار میدان میں ہیں۔ یہاں سے تحریک انصاف کا ٹکٹ پارٹی کے کامیاب ہونے والے علی امین کے بھائی کو ملا ہے۔ جبکہ متحدہ مجلس عمل کے امیدوار عبید الرحمن ان کے مقابل ہیں۔ اس حلقے سے پیپلز پارٹی نے بھی فرحان افضل ملک کو میدان میں اتارا ہے، تاہم سخت مقابلہ ایم ایم اے اور پی ٹی آئی کے درمیان متوقع ہے۔ ڈیرہ اسماعیل خان کے حلقہ پی کے 97 پر جنرل الیکشن میں تحریک انصاف کے علی امین گنڈا پور نے 31 ہزار 197 ووٹ لیکر کامیابی حاصل کی تھی۔ ان کی جانب سے نشست چھوڑے پر اب پارٹی ٹکٹ ان کے بھائی کو دیا گیا ہے۔ پی کے 99 سے 12 امیدوار الیکشن لڑ رہے ہیں۔ حیران کن طور پر یہاں سے ایم ایم اے کے مقابلے میں مسلم لیگ ’’ن‘‘ نے بھی امیدوار کھڑا کیا ہے۔ عبید الرحمن ایم ایم اے کے امیدوار ہیں جبکہ نواز لیگ نے محمد اکبر خان کو ٹکٹ دیا ہے۔ عام انتخابات سے کچھ روز قبل خودکش حملے میں اکرام اللہ گنڈا پور کی شہادت کے باعث اس نشست پر الیکشن ملتوی ہوئے تھے۔ تحریک انصاف نے یہاں سے آغاز اکرام اللہ گنڈا پور کو ٹکٹ جاری کیا ہے۔ اسی طرح قومی اسمبلی کے حلقے این اے 35 پر جہاں سے وزیراعظم عمران خان نے ایم ایم اے کے امیدوار اکرم خان درانی کو شکست دی تھی۔ ضمنی الیکشن میں اکرم خان درانی کے صاحبزادے زاہد اکرم درانی ایم ایم اے کے امیدوار ہیں۔ جبکہ پیپلز پارٹی نے یہاں سے سید یاسین صفدر کو ٹکٹ جاری کیا ہے اور تحریک انصاف نے نسیم علی شاہ کو میدان میں اتارا ہے۔ گورنرخیبر پختون شاہ فرمان کی جانب سے خالی کردہ نشست پی کے 71 پر ضمنی الیکشن 21 اکتوبر کو ہوگا۔ عام انتخابات میں اس حلقے سے شاہ فرمان نے 17 ہزار 388 ووٹ لیکر کامیابی حاصل کی تھی تاہم گورنر بننے کے بعد انہیں یہ نشست چھوڑنا پڑی۔ اس حلقے سے شاہ فرمان کے قریب ترین امیدوار ’’ن‘‘ لیگ کے صفت اللہ تھے جنہوں نے 9 ہزار 232 ووٹ حاصل کئے تھے۔ ذرائع کے بقول اپوزیشن جماعتیں تحریک انصاف کی جانب سے اٹھائے گئے بعض اقدامات پر تبدیلی کے وعدے پورے نہ کرنے پر پی ٹی آئی کو تنقید کا نشانہ بنا رہی ہیں۔ اپوزیشن جماعتیں اگر سیٹیں نکالنے میں کامیاب ہوگئیں تو ان کا یہ بیانیہ اہمیت اختیار کر جائے گا کہ تحریک انصاف سے عوام بدظن ہورہے ہیں اور پی ٹی آئی ملک اور صوبے میں کوئی تبدیلی نہیں لائی ہے۔ دوسری جانب خیبرپختون میں موروثی سیاست ضمنی الیکشن میں بھی نمایاں نظر آرہی ہے۔ حکمران جماعت سمیت اپوزیشن کی جانب سے پارٹی رہنمائوں کے بھائیوں اور بیٹوں کو میدان میں اتارا گیا ہے۔ ضمنی الیکشن میں سابق وزیر اعلیٰ پرویز خٹک کے بیٹے اور بھائی الیکشن لڑ رہے ہیں ۔اسی طرح اسپیکر قومی اسمبلی اسد قصر کے بھائی بھی امیدوار ہیں۔ علی امین گنڈا پور کے بھائی کو بھی پی کے 97 کا ٹکٹ ملا ہے۔ اسی طرح اپوزیشن کی جانب سے بھی این اے 35 کا ٹکٹ اکرم خان درانی کے بیٹے کو دیا گیا ہے۔
٭٭٭٭٭