اردلان شعبانی صاحب کو آرام کرنے کا خاصا وقت مل گیا تھا اور انہوں نے اس عرصے میں کچھ کھاپی بھی لیا تھا، اس لئے وہ خاصے تازہ دم تھے اور یہ ایک اچھی اور قابل اطمینان بات تھی کہ انہیں شیراز کیلئے ایک لمبی ڈرائیو کرنی تھی۔ رہا میں تو مجھے تو اب شیراز تک گاڑی میں آرام ہی کرنا تھا اور پھر میرے پاس سیٹ پر بیٹھے بیٹھے سو لینے کا بھی آپشن موجود تھا۔ گو یہ آپشن اکثر ڈرائیوروں کیلئے بڑا ناگوار ہوتا ہے، خاص طور سے جب آپ ڈرائیور کے ساتھ فرنٹ سیٹ پر بیٹھے ہوں۔ ڈرائیوروں کو اپنے برابر آپ کو سوتا یا اونگتا دیکھ کر نفسیاتی طور پر سو جانے کی ترغیب ملتی ہے اور اس طرح آپ کا سونا گاڑی کے حادثے کا باعث بھی بن سکتا ہے۔
میں اسلام آباد سے کوہ نمک کا یہ تصور لے کر چلا تھا کہ وہ ایک بہت بڑے آتش فشاں کی شکل کا بہت بلند پہاڑ ہوگا جس کے گردا گرد گول دیوار چونے کے پتھر کی ہوگی اور جس کے چاروں طرف اس کے مرکز سے نکل کر نمک کی سلش (slush) کے سست رو دریا یا سالٹ گلیشیئرز بہہ رہے ہوں گے۔ انٹرنیٹ سے اغلباً انسائیکلو پیڈیا بریٹانیکا کے حوالے سے کوہ نمک کے بارے میں ڈاؤن لوڈ کی گئی اطلاع کی عبارت یہ تھی: ترجمہ (تفہیمی) ’’کوہ نمک (جنوبی ایران) ایک گنبد نمکی ہے، جس کا مادری ایٹیکلائن وہیل مچھلی کی پشت سے مماثلت رکھنے والا فولڈ ہے جس کی لمبائی 30 میل اور چوڑائی 8 میل ہے۔ یہ وسیع اسٹرکچر نمک کے اوپر اٹھنے سے بنا ہے۔ نمک نے اس اسٹرکچر کو چیر کر اور باہر آکر ایک وسیع گنبد بنایا ہے، جس کی چھت علاقے کی عام سطح سے 4000 فٹ بلند ہے۔ نمک کے اس گنبد سے (جوکہ مسلسل اوپر سرک رہا ہے) نمک کے گلیشئر جاری ہیں، جو نمک کے اس عظیم گنبد کے بازو بنانے والی چونے کے پتھر کی دیواروں میں پڑے شگافوں سے نکل کر بجانب شمال مشرق اور جنوب مغرب بہہ رہے ہیں‘‘۔
اگر کوہ نمک کی صورت حال اس طرح کی ہوتی جس طرح کی تصویر کشی مندرجہ بالا پیرا گراف میں کی گئی تو میں موقع پر دستیاب وسائل سے گنبد کے مرکز (core) میں جا ہی نہیں سکتا تھا اور نہ اس کے فوٹو لے سکتا تھا۔ نہ اس کا تفصیلی جیولوجیکل سیکشن بنا سکتا تھا۔ انسائیکلوپیڈیا بریٹانیکا کے مندرجہ بالا بیان سے تو یہ لگتا ہے کہ صاحب بیان کسی اور کوہ نمک کی بات کر رہا ہے اور یہ حقیر کسی اور کی۔ مگر ایران والے جنوبی ایران میں کسی اور کوہ نمک کے وجود سے واقف نہیں۔ اس سلسلے میں یہ امر قابل توجہ ہے کہ زیر بحث بیان میں شروع اور درمیان میں دی گئی ساری اطلاع معمولی تبدیلیوں کے ساتھ اسی کوہ نمک پر چسپاں ہوتی ہے، جس کو میں نے وزٹ کیا ہے۔ مگر چونے کے پتھر کی بلند و بالا بیضوی چہار دیواری میں بنی گزر گاہوں سے نکلتے ہوئے نمک کے سست رو دریاؤں کی بات تو کسی ماہر ارضیات کے ذہن کا تصوراتی خاکہ ہی لگتی ہے۔ البتہ یہ کہ اس شریف آدمی کے وزٹ اور کوہ نمک پر مجھ حقیر کے وزٹ کے درمیان وہاں کی ارضیاتی دنیا ہی بدل گئی ہو۔ اس سوچ سے مسئلہ تو حل ہوتا ہے مگر اس صورت میں اس امر سے صرف نظر نہیں کیا جاسکتا کہ اللہ تعالیٰ کی ارضیاتی کارروائیاں بڑی زبردست مگر انسانی دماغ کی سوچ کے اعتبار سے بڑی سست رو ہوتی ہیں۔ وہ اتنی جلد نہیں بدلا کرتیں۔
قارئین کرام! اس سے پہلے کہ میں کوہ نمک سے شیراز کے سفر پر نکلوں، آپ کو بتاتا چلوں کہ کوہ نمک اور پاکستانی نمک کے گنبدوں میں نمک کے رنگ اور نمک کے ماس (mass) میں جا بجا پھنسے ہوئے کالے رنگ کی آتشی چٹانوں کے بلاکوں کے علاوہ ایک اور بڑا فرق جو میں نے پایا وہ یہ تھا کہ پاکستانی نمک کے گنبدوں کے نمک کے ساتھ جپسم (کلر مارمٹی یا پلاسٹر آف پیرس بنانے کا خام مال) لازم و ملزوم ہے۔ بالائے زمیں اور زیر زمیں نمک کی پرتوں کے ساتھ بھی جپسم کی پرتیں پائی جاتی ہیں۔ علاوہ ازیں اصل نمک کے اندر بھی بطور گند یا میل جپسم پایا جاتا ہے، جو سالٹ رینج یا کرک و کوہاٹ کے نمک کے علاقوں میں پہاڑوں پر بارشوں سے نمک کے گھل کر بہہ جانے کے بعد مجتمع ہوکر اور رووں (crystal) کی شکل میں ڈھل کر پیچھے پڑا رہ جاتا ہے۔ اور تمام نمک کے علاقوں میں نمک سے زیادہ جپسم پڑا نظر آتا ہے۔ مگر کوہ نمک کے دامن میں اور بالخصوص اس نالے کے ملبے میں جو براہ راست کوہ نمک سے نکلتا ہے یا تو جپسم (Gypsum) جو دراصل ہائیڈریٹڈ کیلشیم سلفیٹ ہے، بہت کم نظر آتا ہے، یا بالکل ہی غائب ہے۔ بر خلاف جملہ نمکہائے پاکستان، کوہ نمک کے نمک میں اور اس کے ملبے میں کالا رنگ بہت نمایاں نظر آتا ہے۔ یہ کالا رنگ:…
1۔ کالے رنگ کے نمک کی وجہ سے ہے، جو کوہ نمک کے اوپری حصے نسبتاً کم مگر نچلے حصے میں نسبتاً زیادہ ہے۔
2۔ کالے رنگ کی کلے (clay) کی پرتوں کی وجہ سے ہے جو کوہ نمک کے عظیم عمودی رخ (steep cliff) کے نچلے حصے میں سلیٹی اور کالے رنگ کی نمک کی پرتوں کے ساتھ ادل بدل (alternate) کرتی ہیں۔
3۔ سیاہ رنگ کی ان آتشی چٹانوں کے بلاکوں کی وجہ سے ہے جو کوہ نمک کے نمک میں ہر طرف بکھرے پڑے ہیں اور جو زمین کی گہرائیوں سے نمک کے ساتھ زبردستی اوپر لائے گئے ہیں۔
شیراز آتے وقت ہم لوگوں نے قطب آباد، حنا شور، باغ عوض، کناردان، تنگ خوشاب کا راستہ اپنایا تھا۔ واپسی پر اتنی تبدیلی کی کہ باغ عوض سے تل ریگی ہوتے ہوئے جھرم شہر آگئے اور وہاں سے پکی پر حیدرآباد، قطب آباد اور باب انار ہوتے ہوئے رات کے گیارہ بجے شیخ سعدیؒ اور حافظ شیرازیؒ کے شہر شیراز پہنچ گئے۔ اس شہر کو دیکھنے کی تمنا مجھے اس وقت سے تھی جب میں نویں جماعت کا طالب علم تھا اور فارسی میرا اختیاری مضمون تھا۔ اردلان شعبانی صاحب نے مجھے میری استطاعت کی بابت معلوم کرنے کے بعد ہوٹل دریا، پہنچا دیا کہ وہ لوگ ان کے واقف کار تھے اور وہاں مجھے چالیس ہزار ریال یومیہ کرائے پر ایک اچھا کمرہ (نمبر 125) دلا دیا اور پھر مجھے خدا حافظ کہا۔ خوش قسمتی سے یہ ہوٹل شیراز کے ایک اچھے اور کمرشل علاقے میں تھا۔ ایک بہت ہی اچھی بات یہ تھی کہ اس ہوٹل کے منیجر صاحب بڑی رواں اردو بولتے تھے کہ وہ کئی سال پاکستان میں رہ چکے تھے۔ میں نے فوراً ہی غسل کیا اور اس دن جتنی نمازیں قضا ہوئیں ان سب کو ادا کیا اور پھر بستر پر لیٹتے ہی بے سدھ ہو کر سوگیا۔ صبح اٹھا تو یقین ہی نہ آتا تھا کہ میں شیخ سعدیؒ اور حافظ شیرازیؒ کے شہر شیراز میں ہوں۔ مجھے اپنے دماغ کو بار بار یہ باور کرانا پڑا کہ یہ خواب نہیں حقیقت ہے۔
شیراز میں مجھے کوئی سرکاری کام نہ تھا، نہ ہی کوئی معدنی ذخیرہ وزٹ کرنا تھا، نہ ہی اپنے ٹرپ کے سلسلے میں کسی سے ملاقات کرنی تھی۔ شیراز میں تو مجھے صرف سیخ مصلح الدین سعدی شیرازی (المعروف بہ سعدی شیرازی) اور جناب حافظ شمس الدین شیرازی (المعروف بہ حافظ شیرازی) کے مزاروں پر حاضری دینی تھی اور شیراز شہر گھومنا تھا اور بس۔
نماز فجر سے فارغ ہوکر اپنا کیمرہ اٹھایا اور ہوٹل کے کمرے کی کھڑی شیراز کے کچھ حصے کی فوٹو گرافی کی۔ پھر ہوٹل دریا کی چھت پر چڑھ گیا اور وہاں سے شیراز شہر کی تصاویر اتاریں۔ ہوٹل کی چھت سے شیراز کا منظر بڑا دلکش تھا۔ اس چھت کے منظر میں سب سے نمایاں چیزیں شیراز کے ہوادان یا ونڈ کچرز (wind catchers) تھے، جن میں عمارت کے سائز کے لحاظ سے چھوٹے بڑے اور جناتی قسم کے ہوادان بھی تھے۔ جناتی قسم کے ہوادان ہوٹلوں سے تعلق رکھتے تھے۔ مجھے یہ ہوادان دیکھ کر بے اختیار اپنا حیدر آباد (سندھ) یاد آگیا کہ اس شہر کی پہچان بھی وہاں کے ہوادان ہی ہیں۔ پاکستان کے ایسے شہروں اور قصبوں میں جہاں گرمیوں کے موسم میں نسبتاً تیز ہوادان کے بیشتر حصے میں دستیاب ہے۔ وہاں یہ ونڈکچرز لگا کر رہائشی مکانوں اور کاروباری عمارتوں و نیز اسکولوں، کالجوں وغیرہ کو تقریباً مفت میں ٹھنڈا اور ہوادار رکھا جا سکتا ہے۔ یقیناً اس بندوبست سے قوم کے بڑے حصے کی صحت پر بھی بڑے مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ مجھے بتایا گیا کہ جب بڑی عمارتوں جیسے ہوٹل وغیرہ کو ہوادار (ventilate) کرنا ہوتا ہے تو ان ہوادانوں (ventilators) کی اہلیت یا کارکردگی بڑھانے کے لیے ان ہوادانوں کے چوکور پائپوں میں بوسٹر (booster) یا بجلی سے چلنے والے فورسنگ فین لگائے جاتے ہیں۔ پھر بھی اس طریقہ کار سے عمارت کو ٹھنڈا رکھنے کی لاگت دیگر تمام طریقے سے بہت کم آتی ہے۔ ہوٹل کی چھٹ پر تصویری سیشن کے بعد میں نے گیس پر چلنے والی روٹی پلانٹ پر تیار شدہ نان، انڈوں، پنیر اور سبز چائے کا ناشتہ کیا اور پھر سیدھا مرکزی بینک ملی ایران پہنچا اور وہاں سے اپنے تین سو ڈالر ایرانی ریالوں میں تبدیل کرائے۔ بدلے میں 7200 ریال بینک کمیشن کی کٹوتی کے بعد مجھے تئیس لاکھ اناسی ہزار (23,79,000) ریال موصول ہوئے۔ اس وقت ڈالر کا ریٹ 7954 ایرانی ریال فی ڈالر تھا۔ بینک سے میں چہار راہ زند اور وہاں سے خیابان ملا سدرا گیا، تاکہ اپنے کیمروں کی ایکسپوزڈ شدہ عام اور سلائیڈ فلمیں ڈیویلپمنٹ اور پرنٹنگ کیلئے فوٹو لیباربٹریز میں دے سکوں اور نئی فلمیں خرید سکوں۔ کیونکہ مزار سعدی پر تصویر کشی کیلئے مجھے فلمیں درکار تھیں۔ خیابان ملا سدرا سے میں سیدھا مزار سعدی سے ملحق بازار میں پہنچا۔ یہ بازار دراصل بلوار بوستان (شاہراہ بوستان) کا مشرقی اختتام سے شروع ہو کر مزار سعدی پر ختم ہوتی ہے۔ مزار سعدی کو ایرانی ’’آرامگاہ سعدی‘‘ کے نام سے یار کرتے ہیں۔
اس بازار میں ہر جگہ سے مزار سعدی کے نیلے گنبد کا نظارہ کیا جا سکتا ہے، گو وہ وہاں سے خاصے فاصلے پر ہے۔ بازار کی اکثر اشیاء شیخ سعدی سے منسوب ہیں۔ اسی طرح بازار میں واقع خوبصورت اور کشادہ مسجد کا نام بھی مسجد جامع سعدی ہے۔ اس بازار کی ایک اور خصوصیت یہاں کی بہت سے ’بسنتی‘ یا فالودہ کی دکانیں ہیں، مگر یہ فالودہ وہ شے نہیں جسے پاکستان میں فالودہ کہا جاتا ہے بلکہ وہ ایک تیز سفید یا چمکیلی سفید رنگ کی جمی ہوئی خاصی سخت آئس کریم جیسی کوئی چیز ہے۔ اس جیسی کوئی چیز میں نے اس سے پیشتر اپنی زندگی میں کبھی کھائی نہ ہی دیکھی تھی۔ میرا خیال ہے کہ یہ فالودہ نام کی چیز کسی سفید رنگ کی ٹھوس شے کو انتہائی باریک پیش کر تیار کی جاتی ہے کہ اس میں بہت زیادہ چکناہٹ ہوتی ہے اور یہ ممکن ہے کہ ایرانی فالودہ معدن ٹالک (talc) یا سوپ اسٹون (soap stone) کا کوئی مرکب ہو۔ میں نے سنا ہے کہ پاکستان میں بہت سے کم ایماندار حلوائی حضرات اپنی دودھ کی برفی کو زیادہ سفید چمکیلی بنانے اور اس کا وزن بڑھانے کے لیے اس معدن کا استعمال کرتے ہیں۔ کیونکہ ظہر کا وقت قریب تھا، میں نے سوچا کہ اپنے ممدوح شیخ سعدی شیرازی کے مزار پر حاضری باوضو ہو کر اور نماز ظہر کی ادائیگی کے بعد دوں گا۔ درمیانی وقت گزارنے کیلئے میں اپنی تجسس کی خو سے مغلوب ہو کر ایک فالودے کی دکان پر جا بیٹھا اور صاحب دکان سے فالودہ عنایت کرنے کی درخواست کی۔ ایرانی فالودہ کھا لینے کے بعد بہت دیر تک سوچتا رہا کہ یہ شے آخر میری پہلے دیکھی ہوئی کس چیز سے ملتی جلتی ہے، مگر کچھ سمجھ میں نہ آیا۔ اس کا مزہ اچھا تھا مگر ایسا بھی نہ تھا کہ اسے بے مثال یا بہت ہی زیادہ مزے دار شے کا درجہ دیا جا سکے۔ مگر یہ ضرور ہے کہ اس کا مزہ خاصا خوشگوار تھا۔ (جاری ہے)
Prev Post