سکھ مذہب کی بنیاد 550 برس قبل لاہور کے نواح میں رکھی گئی

0

قیصر چوہان
سکھ مذہب کی بنیاد ساڑھے پانچ سو سال پہلے لاہور کے نواح میں رکھی گئی تھی۔ سکھ مذہب کے بانی بابا گرو نانک دیو جی 15 اپریل 1469ء کو لاہور سے تقریباً پچاس میل جنوب مغرب میں واقع گاؤں رائے بھوئی کی تلونڈی میں پیدا ہوئے، جس کو اب ننکانہ صاحب کہا جاتا ہے۔ مہتا کالو ( کلیان چند داس بیدی) ان کے والد تھے اور والدہ کا نام ترپتا تھا۔ والدین ہندو مت اور بیدی کھتری خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ گرو نانک کے والد تلونڈی گاؤں میں فصل کی محصولات کے پٹواری تھے۔ ان کی ایک بہن تھیں، جن کا نام بی بی نانکی تھا۔ وہ ان سے پانچ سال بڑی تھیں ۔ گرو نانک نے پنجاب کے لوگوں کو ’’ست شری اکال‘‘ یعنی خدائے واحد ہی سچ ہے، کا نعرہ دے کر ہندوستان کے دیگر حصوں تک بھی توحید کا پیغام پہنچایا۔ وہ بچپن سے ہی زندگی کی حقیقت کے بارے میں متجسس رہتے تھے۔ وہ مویشی چرانے جنگل میں جاتے تو جوگیوں اور درویشوں کے ساتھ گھنٹوں باتیں کرتے رہتے۔ گھر والوں نے سوچا کہ اگر ان کی شادی کر دی جائے تو شاید وہ دنیا داری کی طرف مائل ہو سکیں۔ اس لیے 16سال کی عمر میں24 ستمبر 1487ء کو نانک کی مل چند اور چندو رانی کی بیٹی بی بی سولکھنی سے بٹالہ میں شادی کرادی گئی۔ گرو نانک نے شادی پر کوئی اعتراض نہ کیا کیونکہ ان کا کہنا تھا کہ شادی روحانی زندگی کو متاثر نہیں کرتی۔ انہیں اپنی بیوی سے بہت پیار تھا۔ ان کے ہاں دو بیٹوں نے جنم لیا۔ پہلابیٹا شری چند8 ستمبر 1494ء اور دوسرا بیٹا لکشمی چند 12 فروری 1497ء کو پیدا ہوا۔ شری چند کو گرو نانک کی تعلیمات سے روشنی ملی اور آگے چل کر انہوں نے اداسی فرقے کی بنیاد رکھی۔
سوانح نگاروں کے مطابق سات برس کی عمر میں ان کے والد نے انہیں گاؤں کے مدرسے میں داخل کروایا۔ روایات کے مطابق، کم عمر نانک نے حروف تہجی کے پہلے حرف میں، جو حساب میں عدد 1 سے مشابہت رکھتا ہے، جس سے خدا کی وحدانیت یا یکتائی ظاہر ہوتی ہے، مضمر رموز بیان کرکے اپنے استاد کو حیران کردیا تھا۔ گرو نانک ایک روایتی ہندو گھرانے سے تعلق رکھتے تھے اور ان کے بچپن کے دوستوں میں ہندو اور مسلمان دونوں شامل تھے۔ ان کا سب سے قریبی دوست ایک مسلمان میراثی تھا جس کا نام’’ مردانہ‘‘ تھا۔ چھ سال کی عمر میں گرو نانک کو مقامی استاد کے پاس ہندی اور ریاضی کی تعلیم حاصل کرنے کیلئے بھیجا گیا۔ انہوں نے وہاں فارسی اور عربی بھی سیکھی۔ بعض روایات کے مطابق گرو نانک نے فارسی اور اسلامیات کی تعلیم ایک بزرگ سید حسین سے حاصل کی تھی اور ان کی گرو نانک پر خصوصی نظر تھی ۔ گرو نانک نے ابتدائی عمر میں سنسکرت اور ہندو مت کی مقدس کتابوں کا علم حاصل کیا۔ پھر گاؤں کی مسلمانوں کی مسجد کے مکتب میں عربی اور فارسی کی تعلیم بھی حاصل کی۔ گرو نانک متعدد مسلمان درویشوں اور فقیروں کی صحبت میں بھی رہے۔ شیخ اسماعیل بخاریؒ، پیر جلالِؒ، میاں مٹھاؒ، شاہ شرف الدینؒ، پیر عبد الرحمٰنؒ اور پاک پتن کے حضرت بابا فریدؒ، جلال الدین بخاریؒ، مخدوم جہانیاںؒ اور دوسرے بزرگوں سے کسبِ فیض کیا۔ گرو نانک غیر معمولی صلاحیتوں کے مالک تھے اور بہت جلدی سیکھتے تھے۔ وہ اپنی ذہانت سے اکثر اپنے استادوں کو حیران کر دیا کرتے تھے۔ 12 سال کی عمر میں انہیں ان کے والد نے کچھ روپے دیے اور کہا کہ ان سے مجھے بہترین سودا کر کے دکھائو۔ والد کا مقصد انہیں تجارت کے گْر سکھانا تھا۔ گرو نانک نے ان روپوں سے کھانا خریدا اور محتاج لوگوں میں بانٹ دیا۔ گھر پہنچے تو والد کے دریافت کرنے پر کہا کہ میں ان پیسوں کا سچا سودا کر آیا ہوں۔ میں نے اس کے ساتھ تجارت کی ہے جو مجھے اس کے بدلے کئی گنا زیادہ دے گا۔ جس مقام پر یہ واقع پیش آیا، اب وہاں ایک گردوارہ ہے جس کا نام سچا سودا ہے۔
ان کی بڑی بہن بی بی نانکی کی 1475ء شادی ہوئی تو وہ خاندانی رواج کے مطابق ان کے ساتھ سلطان پور آ گئے۔ گرو نانک کو اپنی بہن سے بہت لگاؤ تھا چنانچہ وہ بھی اپنی بہن اور بہنوئی کے ساتھ رہنے کیلئے سلطان پور جا پہنچے۔ اس وقت ہندوستان پر لودھی خاندان کی حکومت تھی اور لاہور کا حکمران دولت خان لودھی تھا۔ گرو نانک کو ان کے بہنوئی نے دولت خان لودھی کے ہاں ملازم رکھوا دیا۔ وہ اس کے گوداموں کی دیکھ بھال کا کام کرتے تھے جس میں مدد کیلئے ان کا بچپن کا دوست مرادنہ بھی بھیج دیا گیا۔ دن بھر وہ کام کرتے لیکن صبح اور شام کے وقت وہ مراقبہ کرتے یا وہ اور مردانہ اکثر بیٹھ کر رباب بجاتے اور صوفیانہ کلام گاتے۔ سکھ مت کے تاریخ دانوں کا دعویٰ ہے کہ 1499ء کی ایک صبح گرو نانک اپنے دوست مردانہ کے ساتھ دریا پر نہانے گئے تو دریا میں اترنے کے بعد تین دن تک نہ ابھرے۔ ان کے کپڑے کالی بین نامی مقامی چشمے کے کنارے ملے۔ قصبے کے لوگوں نے یہ خیال کیا کہ وہ دریا میں ڈوب گئے ہیں۔ دولت خان نے اپنے سپاہیوں کی مدد سے دریا کو چھان مارا مگر ان کا کوئی نام و نشان نہ ملا۔ تین دن بعد وہ اسی مقام سے باہر نکلے جہاں دریا میں اترے تھے۔ وہ باہر نکلے تو بالکل بدلے ہوئے انسان تھے۔ وہ کچھ دن تک مکمل طور پر خاموش رہے۔ جب انہوں نے زبان کھولی تو یہ الفاظ ادا کئے:اِک اَونکار سَتّ نام، کرتا پرکھ، نِر بَھو، نِر وَیر (خدائے واحد ہی سچ ہے، وہ خالق ہے، اسے کسی کا ڈر نہیں، اس کی کسی سے دشمنی نہیں)۔ اکال، مورت اجونی، سے بھنگ، گْر پرساد (وہ اکیلا ہے، اس کی کوئی صورت نہیں، وہ زندگی اور موت کے چکر سے آزاد ہے، اس کا حصول ہی اصل نعمت ہے)۔
دولت خان نے انہیں اپنے دربار میں طلب کیا اور ان کے الفاظ کا مطلب دریافت کیا جس پر گرو نانک نے کہا کہ تمہیں اگر مسلمان ہونا ہے تو ایسے مسلمان بنو کہ نیک اعمال کو اپنائو اور سچ کو اپنا رہبر بنائو۔ اگر ایسا کرو گے تو وہ خدا جو واحد ہے اور اس کا نام حق ہے، وہ تمہیں اپنی رحمت کے سائے میں جگہ دے گا۔ گرو نانک کے انہی الفاظ سے گرو گرنتھ صاحب جو سکھ مذہب کی مقدس کتاب ہے، کا آغاز ہوتا ہے۔ گرو نانک وحدانیت کے قائل تھے اور بت پرستی کے خلاف تھے۔ انہوں نے تثلیث کی نفی کی اور اس خرافات کو بھی رد کیا کہ خدا انسانی روپ میں اوتار لے سکتا ہے۔ انہوں نے ملازمت چھوڑ دی اور اپنا مال و اسباب غریبوں میں بانٹ کر مردانہ کے ساتھ سفر پر نکل پڑے۔ گرو نانک نے برصغیر کے طول و عرض میں کئی سال سفر کرتے ہوئے اپنی تعلیمات کا پرچار کیا۔ مشرقی ہندوستان میں بنگال، آسام، اڑیسہ اور راجستھان کا سفرکیا۔ اس کے بعد وہ جنوب کی طرف گئے اور سری لنکا تک پہنچے۔ شمال کی طرف سفر میں ہمالیہ کی پہاڑی ریاستوں اور کشمیر ہوتے ہوئے تبت تک گئے۔ انہوں نے برصغیر کے علاوہ حجاز، مصر، تاشقند، شام، عراق اور ایران سمیت دیگر کئی ممالک کا بھی سفر کیا۔
مختلف روایات میں دعویٰ کیا جاتا ہے کہ گرو نانک صاحب حضرت بوعلی قلندر پانی پتیؒ کے پاس ایک مدت تک رہے۔ ملتان میں حضرت بہائو الدین ذکریاؒ کے مزار پر حاضری دی۔ سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانیؒ اور حضرت مرادؒ کے مزارات پر چلہ کش ہوئے۔ اجمیر میں حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ کے مزار پر چالیس دن چلہ کیا۔ بمقام سرسہ حضرت شاہ عبدالشکورؒ کی خانقاہ پر چالیس دن ٹھہرے۔ اس خلوت خانہ کا نام چلہ بابا نانک ہے۔ حسن ابدال (ضلع اٹک) کی پہاڑی پر حضرت بابا ولی قندھاریؒ کی بیٹھک پر حاضر ہوئے اور ٹھہرے۔ پاک پتن شریف میں حضرت شیخ فرید الدین گنج شکرؒ کے مزار پر خلوت نشین ہوئے۔
گرو نانک اپنی زندگی کا بڑا حصہ سفر میں بسر کرنے کے بعد واپس پنجاب پہنچے اور دریائے راوی کے کنارے ایک گاؤں کی بنیاد ڈالی جس کا نام کرتار پور رکھا۔ (جو آج کل تحصیل شکر گڑھ میں دربار صاحب کے نام سے مشہور ہے) اور اپنے گھر کے متصل ایک مسجد تعمیر کرائی اور اس میں نماز پڑھانے کیلئے ایک امام بھی مقرر کیا۔ بابا گرو نانک صاحب نے کرتار پور اپنے بیٹوں اور بیوی کے ساتھ باقی کی زندگی بسر کی۔ وہ کھیتی باڑی کرتے تھے اور لوگ دور دور سے ان کی زیارت کو آتے تھے۔ سکھ روایات کے مطابق گرو نانک نے زندگی کے آخری ایام میں اپنے ایک مرید ’’راہنا‘‘ کواپنا جانشین گرو مقرر کیا اور ان کا نام گرو انگد رکھا جس کے معنی ’’بہت ہی اپنے‘‘ یا ’’اپنے حصے‘‘ کے ہیں۔ بھائی لہنا کو اپنا جانشین مقرر کرنے کے کچھ ہی عرصے بعد بابا گرو نانک 22 ستمبر 1539ء کو کرتار پور میں، 70 برس کی عمر میں انتقال کر گئے۔ بعض غیر مستند روایات کے مطابق مقامی سکھ، ہندو اور مسلمان ان کی آخری رسومات کے حوالے سے آپس میں لڑنے لگ گئے کہ اپنی اپنی مذہبی روایت کے مطابق ان کی آخری رسومات کرنا چاہتے تھے۔ ہندوئوں نے مطالبہ کیا کہ گرو نانک چونکہ ایک ہندو گھرانے میں پیدا ہوئے تھے سو آپ کی میت کو جلایا جائے۔ جبکہ مسلمانوں کا کہنا تھا کہ گرونانک کی تعلیمات اسلام کے بہت قریب ہیں، لہٰذا انہیں دفنایا جانا چاہیے۔ جبکہ گرو نانک نے کہا تھا کہ جب میں وصال کر جاوں تو ہندو میری میت کے داہنی طرف پھول رکھ دیں اور مسلمان بائیں طرف۔ اور اگلے دن تک جس طرف کے پھول تازہ رہیں، اسی طرف کے لوگ میری میت کے وارث ہوں گے۔ ایسا کیا گیا اور اگلے دن جب میت سے چادر ہٹائی گئی تو وہاں دونوں طرف کے پھول تر و تازہ تھے اور میت غائب تھی۔ مسلمانوں نے اپنے حصے کے پھولوں کو دفنا دیا جبکہ ہندووں نے جلا دیا۔
گرو نانک توحید کے قائل تھے۔ ان کا مقصد معاشرے سے نسلی اور مذہبی امتیاز کو ختم کرنا تھا۔ وہ فرسودہ رسم و رواج کے سخت مخالف تھے۔ وہ جس علاقے میں بھی جاتے، وہاں کی مقامی زبان میں لوگوں سے بات چیت کرتے تھے۔ ان کے یہ اطوار اس زمانے کے لوگوں کیلئے انتہائی حیران کن تھے کیونکہ اس وقت ہندو اور مسلمان دونوں ہی ذات پات کے چکروں میں بری طرح الجھے ہوئے تھے۔ وہ جہاں بھی جاتے وہاں کے غریب لوگوں کے ہاں قیام کرتے اور امراء کی طرف سے دی جانے والی ضیافتیں ٹھکرا دیا کرتے۔ لوگ انہیں تحائف دیتے تو وہ غریبوں میں بانٹ دیتے تھے۔ سکھ مت کی مقدس کتاب، گرنتھ صاحب کو سکھ مت کا گیارھواں اور آخری گرو تصور کیا جاتا ہے۔ سکھ مت کے پہلے گرو کی حیثیت سے، باباگرو نانک کے اس کتاب میں کل 974 بھجن شامل ہیں۔ گرو نانک کی ساری تعلیمات پنجابی زبان میں تھی اور ان کا کلام گانے والوں میں زیادہ تر غریب محنت کش ہوتے تھے۔ گرو نانک کا خواب ذات پات سے آزاد معاشرے کا قیام تھا۔ ان کے مذہب میں عملی تعلیمات پر بہت زور تھا۔ وہ خدا کو ہر ذی روح میں جاری و ساری قرار دیتے تھے اورگفتار و کردار میں نیکی اور عفو کی تعلیم دیتے رہے۔ سکھوں کی مذہبی کتاب گرنتھ صاحب، پانچویں گرو ارجن سنگھ نے مرتب کی۔ گرنتھ صاحب کے سارے کلام میں ’’مول منتر‘‘ (بنیادی کلمات) کو سب سے مقدس سمجھا جاتا ہے۔ مول منتر کا مفہوم یہ ہے کہ: ’’خدا ایک ہے، اسی کا نام سچ ہے، وہی قادرِ مطلق ہے، وہ بے خوف ہے، اسے کسی سے دشمنی نہیں، وہ ازلی و ابدی ہے، بے شکل و صورت ہے، قائم بالذات ہے، خود اپنی رضا اور توفیق سے حاصل ہوجاتا ہے‘‘۔ مول منتر کے بعد دوسرا درجہ ’’جپ جی‘‘ کو حاصل ہے۔ گرو نانک کی تعلیمات میں عشقِ الٰہی کے حصول پر بڑا زور دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا تھا کہ عشقِ الٰہی حاصل کرنے کیلئے انسان کو انانیت، خواہشاتِ نفس، لالچ دنیا سے تعلق اور غصہ کو چھوڑنا ضروری ہے۔ سکھ مذہب میں بنیادی طریقِ عبادت ’’نام سمرن‘‘ یعنی ذکر الٰہی ہے۔ یہ خدا کا نام لیتے رہنے کا ایک عام طریقہ ہے، جس کیلئے چھوٹی تسبیح کا بھی استعمال کیا جاتا ہے اور اجتماعی طور پر گرنتھ صاحب کے کلام کا ورد بھی ہوتا ہے۔
سکھوں کا بنیادی عقیدہ ہے کہ خدا غیر مرئی شکل میں اپنی لاتعداد صفات کے ساتھ مو جود ہے۔ اس طرح وحدت الوجود کے عقیدہ کو ان کے یہاں بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ گرو نانک صاحب کی تعلیم میں ’’گرو‘‘ کا تصور مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔ یعنی خدا تک پہنچنے کیلئے ایک "گرو” کی رہبری اور رہنمائی ضروری ہے۔ چنانچہ سکھوں میں دس گرو گذرے ہیں۔ سکھ مذہب کے پیروکار پا نچ علامتوں کو اختیار کرنا اپنے لا زمی سمجھتے ہیں جنہوں وہ ’’ ککار ‘‘ کہتے ہیں (1) لمبے بال رکھنا (2) کنگھا کرنا (3) کڑا پہننا (4) کرپان ( تلوار ) ساتھ میں رکھنا (5) پگڑی اور کچھا باندھنا۔
گرنتھ صاحب کا آغاز گرو نانک کے مشہور کلام ’’جپ جی‘‘ سے ہوتا ہے۔ اس نظم میں وہ سکھ مت کے واحدانیت کے نظریے کو فلسفیانہ سطح پر بیان کرتے ہیں۔ یہ حصہ کافی پیچیدہ اور توجہ طلب ہے کیونکہ اس میں بابا گرونانک دوسرے مذہب اور مکاتب فکر سے مباحثے کا انداز اختیار کرتے ہیں۔ اس کی تفہیم میں دقت اس لیے بھی پیش آتی ہے کیونکہ ان کے مخاطب مکاتب فکر کی بہت سی دلیلیں ہمارے سامنے نہیں ہیں۔ لیکن اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اس میں گرو نانک، ہندو ازم کے کئی خداؤں کے تصور کی نفی اور وحدت کے نظریے کی تائید کو کئی پہلوؤں سے بیان کرتے ہیں۔
سکھوں کی سب سے زیادہ آبادی بھارت کے صوبہ پنجاب میں ہے جہاں ان کی اکثریت ہے۔ پوری دنیا میں سکھوں کی کل آبادی دو کروڑ پچاس لاکھ کے قریب ہے۔ اس وقت پاکستان میں سکھ بہت کم تعداد میں آباد ہیں۔ صوبہ خیبر پختون کے درالحکومت پشاور میں بھی سکھ کافی تعداد کافی آباد ہیں۔ ننکانہ صاحب جو سکھ مت کے بانی بابا گرو نانک کی جائے پیدائش ہے، وہاں بھی سکھ کافی تعداد کافی آباد ہیں۔ اٹھارویں و انیسویں صدی میں سکھ طبقہ ایک طاقتور سیاسی قوت بن گیا اور مہاراجا رنجیت سنگھ نے سکھ سلطنت کی بنیاد رکھی جس کا دارالحکومت لاہور تھا۔ پنجاب میں سکھ برادی زیادہ تر لاہور، راولپنڈی، ملتان، فیصل آباد اور ننکانہ صاحب میں آباد ہے۔1947ء میں تقسیم ہند کے بعد پاکستان کے سکھ اور ہندو بھارت چلے گئے۔ 1947ء میں آزادیِ پاکستان کے بعد سکھ برادری نے پاکستان میں منظم ہونا شروع کیا اور پاکستان سکھ گردوارہ پربندھک کمیٹی بنائی تاکہ پاکستان میں سکھوں کے مقدس مقامات اور ورثوں کا تحفظ کیا جاسکے۔ حکومت پاکستان نے بھارتی سکھوں کو پاکستان میں آنے اور اپنے مقدس مقامات کی یاترا کرنے کی اجازت دی ہوئی ہے اور پاکستانی سکھوں کو بھارت جانے کی بھی اجازت ہے۔ تقسیم ہند سے پہلے تمام سکھ پاکستان میں بستے تھے، خاص کر خطہ پنجاب میں اور بطور کسان، تاجر اور کاروباری ان کا معیشت میں بہت اہم کردار تھا۔ لاہور آج بھی سکھوں کی کئی اہم مذہبی مقامات کی جگہ ہے، جس میں رنجیت سنگھ کی سمادھی بھی شامل ہے۔ ننکانہ صاحب میں گردوارہ جنم استھان سمیت 9 گردوارے ہیں۔ ننکانہ صاحب کا ہر گردوارہ گرو نانک کی زندگی کے مختلف واقعات سے تعلق رکھتا ہے۔ یہ شہر دنیا بھر کے سکھوں کی یاترا کا اہم مقام ہے۔ دنیا بھر سے سکھ مت کے پیروکاروں کی ایک بڑی تعداد اپنا سالانہ مذہبی تہوار منانے کیلئے پاکستان میں واقع پنجہ صاحب گوردوارے آتی ہے۔ پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد سے قریب پچپن کلومیٹر کے فاصلے پر واقع شہر حسن ابدال میں سکھ مذہب کے بانی گرو نانک کے پنجے کی مہر ایک پتھر پر ثبت ہے۔ یہ مقام بھی سکھ مت کے پیرو کاروں کیلئے مقدس ہے اور وہ ہر سال اس کی زیارت کیلئے پاکستان کا رْخ کرتے ہیں۔ سکھ یہاں آکر مقدس چشمے کے پانی سے اشنان کرتے ہیں اور اپنے روحانی پیشوا کو خراج عقیدت بھی پیش کرتے ہیں۔ اس موقع پر خصوصی دعائیہ تقریبات کا انعقاد ہوتا ہے۔اس کے علاوہ سکھ مذہب سے تعلق رکھنے والے افراد مختلف تہوار مناتے ہیں۔
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More