مدرسہ ایجوکیشن بورڈ کے ملازمین مستقل نہ کئے جا سکے
کراچی (رپورٹ : عظمت علی رحمانی ) مدرسہ ایجوکیشن بورڈ کے ملازمین سندھ ہائیکورٹ کے احکامات کے باوجود مستقل نہ کئے جا سکے جس سے ملازمین میں عدم تحفظ پایا جارہا ہے ۔جبکہ وزارت مذہبی امور کے افسران بورڈکے باری باری چیئر مین اور سیکریٹری کا چارج لے کر اضافی مزے لوٹ رہے ہیں۔ ۔تفصیلات کے مطابق وزارت مذہبی امور کے زیر نگرانی مدرسہ ایجوکیشن بورڈ کے چیئر مین،سیکریٹری، ڈپٹی چیئر مین اور دیگر اسامیاں ایک سال سے خالی ہیں اور ان پر وزارت مذہبی امور کے افسران باری باری اضافی چارج لے کر مزے لوٹ رہے ہیں ۔ملازمین کی مستقلی کے حق میں ہائی کورٹ سکھر بنچ کے فیصلے پر بھی وزارت مذہبی امور عمل در آمدکر نے کے بجائے میں خاموش ہے۔مدرسہ بورڈ اسلام آباد کے عارضی ملازمین نے بھی اپنی مستقلی کیلئے اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کردی ہے ۔ وزارت کے افسران کی جانب سےعارضی ملازمین کو نوکری سے فارغ کرنے دھمکی دی جاتی ہے۔ تین سال تک تعینات رہنے والے سابق چیئرمین ڈاکٹر عامر طاسین کی بہترین کار کردگی کو سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں سراہا گیا تھا مگر اُن کو توسیع نہ ملنے کے بعد وزارت اب تک کسی چیئر مین کا تقرر نہیں کر سکی ہے۔ جس کے باعث صرف 13ماہ میں 7مرتبہ چیئرمین کا اضافی چارج مختلف افسران سنبھالتے رہے ہیں جب کہ سیکرٹری بورڈ کا اضافی چارچ بھی تیسری مرتبہ دیا گیا ہے۔ اسی طرح تینوں ماڈل مدارس سکھر، کراچی اور اسلام آباد میں اب تک مستقل پرنسپل تعینات نہیں ہیں۔ ذرائع نےبتایا کہ سابق وزیر مذہبی امور کے ایما پر سابق ایڈیشنل سیکریٹری کیپٹن آفتاب احمد نےریٹائرڈ ہونے سے قبل ماڈل دینی مدرسہ اسلام آباد کی عارضی ٹیچر ظل عظیم جوکہ بغیر کسی وجہ سے چار ماہ کی چھٹی لے کر گھر بیٹھی ہیں ان کی تنخواہ گھر بیٹھے جاری کی گئی ۔جس پر اساتذہ میں سخت تشویش پائی جاتی ہے مگر وزارت کے دباؤ پر سب خاموش ہیں۔ ذرائع کے مطابق مستقل چیئرمین بورڈ اور دیگر اہم عہدے فعال نہ ہونے کے سبب بورڈ کے بنیادی مقاصد اور اس کے زیر انتظام تینوں ماڈل مدارس کے انتظامی امور اور ملازمین کا حال ابتر ہو رہا ہے ۔ جبکہ عارضی ملازمین کی مستقلی کے حق میں عدالت نے فیصلہ سنا دیا تھا مگر وزارت مذہبی امور اب تک اس فیصلہ پر عملدرآمد میں جان بوجھ کرسست روی کا مظاہرہ کرتی نظر آتی ہے ۔بورڈ فیصلوں کے ریکارڈ کے مطابق مدرسہ بورڈ کے دسویں اور بارہویں اجلاس میں یہ فیصلہ ہو چکا تھا کہ 14سال سے عارضی ملازمین کو مستقل کیا جانا چاہیئے تاہم بارہویں اجلاس میں بھی یہ طے ہوا کہ عدالت جو بھی فیصلہ کرے گی وزارت اس پر عمل در آمد کی پابند ہوگی ۔ وزارت مذہبی امور کی دہری پالیسی کے بارے میں بعض مستقل ملازمین کا بھی یہ کہنا ہے کہ مدرسہ بورڈ کے 50سے زائد مستقل ملازمین کی اپ گریڈیشن کی بورڈ اجلاس سے منظوری کے باوجود وزارت عمل در آمد نہیں کررہی۔یہی وجہ ہے کہ وزارت کے رویے کے خلاف کہ اسلام آباد ماڈل مدرسہ اور بورڈ کے کچھ عارضی ملازمین نے بھی اسلام آباد ہائی کورٹ میں اپنی مستقلی کیلئے درخواست دائر کی ہے اور عدالت نے وقتی طور پر ملازمین کو ملازمت سے فارغ نہ کرنے کا بھی حکم دیا ہے مگر عدالتی حکم کے باوجود بھی کچھ ملازمین کو ملازمت سے فارغ کر دیا گیا ہے تاکہ اپنے من پسند لوگوں کو نوکریاں دی جاسکیں ۔ جیسا کہ سابق وزیر مذہبی امورسردار محمد یوسف اور سابق ایڈیشنل سیکریٹری کیپٹن آفتاب احمد نے غیر قانونی اور قواعد و ضوابط کے خلاف کچھ سفارشی لوگ ماڈل دینی مدرسہ اسلام آباد میں بھرتی کئے جو ابھی تک موجود ہیں جن کی تمام تر تفصیلات اور آرڈر کی کاپیاں امت کے پاس موجود ہیں اور اس حوالے سےامت پہلے بھی نشاندہی کر چکا ہے۔امت نے موجودہ قائم مقام چیئر مین زینت حسین بنگش سے رابطہ کی کوشش کی کہ ان کا موقف لیا جا سکے مگر فون بند ملا ۔سابق چیئر مین ڈاکٹر عامر طاسین نے رابطہ کرنے پر بتایاکہ میں نے گیارہ سال سے غیر فعال مدرسہ بورڈ کا اجلاس طلب کرکے ادارے کو فعال کرنےاور اس کار کردگی میں اضافے کی کوشش کی تھی ۔14 سال میں پہلی مرتبہ ملازمت قوانین بھی مرتب کیے گئے تھے جسے اسٹیبلشمنٹ اور وزارت خزانہ سے منظوری بھی مل چکی تھی۔ نصاب کی بہتری کے لیے کام کیا، اور پرائیویٹ مدارس کے الحاق پر بھی جامع کام کیا تھا ۔بورڈ اجلاس کے کئی اہم فیصلوں کی منظوری کے بعدبھی وزارت مذہبی امورعمل در آمد میں رکاوٹ ہے۔ڈاکٹر عامر طاسین نے وزیر مذہبی امور نور الحق قادری سے مطالبہ کیا کہ اس معاملے میں سنجیدگی سے نوٹس لیں۔ اس حوالے سے وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود سے باقاعدہ مشاورت کے بعد وزارت مذہبی امور سے علیحدہ کرکے وزارت تعلیم و فنی امورکے ماتحت کیے جانے کی منصوبہ بندی کی جائے تا کہ یہ ادارہ قومی اجتماعی مقاصد کی بنیادپر آگے بڑھ سکے۔