صفی علی اعظمی
جرمنی میں شدت پسندوں کی تنقید کا نشانہ بننے والے ترک نژاد مسلمان فٹ بالر مسعود اوزیل کے جرمن ٹیم چھوڑنے کے اعلان پر شائقین میں صف ماتم بچھ گئی ہے۔ ترک باشندوں اور دنیا بھر سے شائقین نے اوزیل کیلئے محبت اور عقیدت کا اظہار بھی کیا ہے۔ ورلڈ کپ شکست کے بعد جرمن قوم کے رویے اور مسلسل تنقید کے بعد خاموش طبع فٹ بالر مسعود اوزیل نے جرمنی کی قومی فٹبال ٹیم سے استعفیٰ دے دیا ہے اور ایک بیان میں جرمن قوم کو نسل پرست قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اسلام اور ترکی کیلئے اپنے دل میں بغض رکھتے ہیں۔ اس لئے وہ جرمنی ٹیم چھوڑنے کا اعلان کر رہے ہیں۔ نوجوان فٹ بالر کا استدلال تھا کہ ان کو اسلامی پس منظر سمیت ترک قوم کا فرد ہونے اور صدر رجب طیب اردگان کے ساتھ ملاقات میں انہیں اپنی ٹی شرٹ پیش کرنے کی بنا پر مسلسل تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا تھا۔ جبکہ تشدد اور قتل کئے جانے کی دھمکیاں بھی دی گئی تھیں۔ واضح رہے کہ فیفا ورلڈ کپ 2018ء میں جرمنی کی قومی فٹ بال ٹیم کی ناقص کارکردگی کا سارا ملبہ ٹیم یا منیجر کے بجائے فرد واحد مسود اوزیل پر ڈال دیا گیا تھا، جس پر ترک نژاد جرمن اسٹرائیکر بہت پریشان اور دل گرفتہ تھے۔ اس کے باوجود انہوں نے اس سلسلے میں متعدد میڈیا ہائوسز سمیت اخبارات و جرائد کی جانب سے انٹرویو کی پیشکش کو رد کرتے ہوئے رد عمل سے گریز کیا تھا۔ لیکن اب انہوں نے دو ٹوک موقف میں کہا کہ وہ مستقبل میں جرمنی کی قومی ٹیم کیلئے نہیں کھیلیں گے۔ انہوں نے ٹھوس وجوہات کی بنا پر استعفیٰ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ ان کو اپنے ترک اور اسلامی پس منظر کے باعث جرمنی میں نسل پرستی اور صریح بے عزتی کا سامنا کرنا پڑا ہے، جس کی کوئی وجہ بیان نہیں کی جاسکتی۔ جرمن اور ترک میڈیا سمیت غیر جانبدار میڈیا نے تسلیم کیا ہے کہ کسی بھی کھلاڑی کی جانب سے اب تک ایسا سخت اور دو ٹوک بیان جاری نہیں کیا گیا ہے۔ مسعود اوزیل نے جرمن قوم پر واضح کردیا ہے کہ ان کو اسلامی اور ترک پس منظر پر بلکہ فخر ہے۔ انہوں نے کہا کہ ترک صدر اردگان کے ساتھ الیکشن سے قبل جو تصویر بنائی تھی وہ ایک اعزاز ہے۔ انہوں نے ترک صدر سے دوبارہ ملاقات کی خواہش ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ وہ طیب اردگان کے ساتھ کھڑا ہونا پسند کریں گے، چاہے کسی کو بھی تکلیف ہو۔ جرمن میڈیا اور متعصب حکام کی تنقید کے بعد خاموشی توڑنے والت مسعود اوزیل نے بیان میں جرمن فٹ بال ٹیم کے منیجر رائن ہارٹ گرانڈل کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور ان کو ان کی نسل پرستی اور اسلاموفوبیا پر خوب آڑھے ہاتھوں لیا۔ مسعود اوزیل نے جرمن ٹیم کے منیجر گرانڈل کو فائول پلے کا ذمہ دار قرار دیا اور کہا کہ وہ انتہائی متعصب ہیں۔ اوزیل کا کہنا تھا کہ ’’جب ہم فتح یاب ہوتے ہیں تو یہی گرانڈل اور ان کے چمچے چیخ چیخ کر کہتے ہیں ہم سب جرمن ہیں۔ لیکن اگر ہم کسی میچ میں ہار جاتے ہیں تو یہ لوگ مجھے تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔ شکست پر مجھے تارک وطن ٹھیرا دیتے ہیں‘‘۔ مسعود اوزیل کا کہنا تھا کہ پوری ٹیم ورلڈ کپ ہاری ہے، لیکن اس کا ملبہ پوری ٹیم یا جرمن فٹ بال ایسوسی ایشن اور منیجر پر ڈالنے کے بجائے صرف انہیں قربانی کا بکرا بنا دیا گیا ہے۔ یہ کہاں کا انصاف ہے۔ اپنے استعفے کے بعد جرمن میڈیا سے محتاط گفتگو میں مسعود اوزیل کا کہنا ہے کہ مجھے محسوس ہوگیا تھا کہ اب جرمن فٹ بال ٹیم میں میری ضرورت نہیں ہے، وہ میری قربانیوں اور بے مثال کارکردگی کو فراموش کرچکے ہیں۔90 سے زائد میچوں میں 25 گول کرنے والے مسعود اوزیل کا کہنا ہے کہ میں یہ بالکل بھی برداشت نہیں کرسکتا کہ میرے اسلامی اور نسلی پس منظر کو نشانہ بنایا جائے۔ اوزیل کے حوالہ سے ترک جریدے حریت ڈیلی کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مئی 2018ء میں انہوں نے لندن میں صدر طیب اردغان سے ملاقات کی تھی، جس پر جرمنی میں ان کیخلاف نفرت اور تنقید کا طوفان کھڑا کردیا گیا تھا۔ انہوں نے واضح کیا کہ طیب اردگان ایک اعلیٰ کردار کے رہنما اور ترکی کے صدر ہیں، ان کا ادب ان کی ذات کی نسبت ان کے عہدے سے زیادہ قریب اور واجب ہے۔ اسی تقریب میں برطانیہ کی وزیر اعظم تھریسا مے نے بھی صدر اردگان سے ملاقات کی تھی اور تصویر بنوائی تھی، ان پر کیوں تنقید نہیں کی گئی۔ صرف اسی لئے کہ جرمنی میں ہر سطح پر تعصب اور نسل پرستی کا دور دورہ ہے۔
واضح رہے ترک میڈیا میں اور سماجی رابطوں کی سائٹس پر سابق جرمن اسٹرائیکر مسعود اوزیل کے حق میں محبتوں اور عقیدت کا طوفان آیا ہوا ہے اور لاکھوں ترک اور دنیا بھر میں موجود مسلمانوں نے ان کے حق میں بیانات جاری کئے ہیں۔ اس میں مسعوت اوزیل کے اس بیان کو بھی بار بار اُجاگر کیا جا رہا ہے کہ میں جرمنی میں پلا بڑھا ہوں، یہ میرا ملک ہے، میری ماں نے مجھے سبق پڑھایا ہے کہ مسعود اوزیل کے دو دل ہیں، ایک ترک اور ایک جرمن ہے اور دونوں ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ میری ماں نے مجھے سکھایا کہ جرمنی کو یاد کرو تو ترکی کو فراموش نہ کرو اور ترکی کا ذکر کرو تو جرمنی کو مت بھلائو۔ لبنانی جریدے ’’یا لبن‘‘ نے مسعود اوزیل کے استعفیٰ کو جرمن قوم کے بد نما چہرے پر ایک طمانچہ قرار دیا ہے اور کہا کہ اوزیل نے جرمن قوم کے تعصب کو آشکار کردیا ہے۔ حالانکہ وہ جرمنی میں بھاری ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ خیراتی اداروں کو عطیات فراہم کرتے ہیں اور تعلیم کے حصول کے خواہشمند اطفال کی سرپرستی کرتے ہیں لیکن اس کے باوجود ان کو مسلسل تعصب اور تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔