سی پیک کے لئے سڑک کی تعمیر 2 اضلاع میں تعطل کا شکار

0

محمد زبیر خان
سی پیک کیلئے تعمیر کی جانے والی سڑک خیبر پختون کے دو اضلاع ایبٹ آباد اور مانسہرہ سے بھی گزرتی ہے۔ تاہم ان دونوں اضلاع میں سڑک کی تعمیر کا کام تعطل کا شکار ہے۔ تقریباً دو ماہ ہو چکے ہیں اس اہم روٹ سے متاثر ہونے والے اراضی مالکان اور متعلقہ حکام کے درمیان معاوضے کا معاملہ حل نہیں ہو سکا ہے۔ مکنیوں کا کہنا ہے کہ وہ مناسب معاوضوں کے بغیر سڑک کی تیمر شروع کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ ادھر ذرائع نے یہ بھی بتایا ہے کہ نیشنل ہائی وے اتھارٹی کی جانب سے ٹھیکیداروں کو دیئے گئے پانچ ارب روپے کے چیک بھی بائونس ہو گئے ہیں۔
سرکاری ذرائع کے مطابق ایکسپریس وے مانسہرہ فیز ٹو حویلیاں سے مانسہرہ تک مجموعی طور پر62 گاؤں متاثر ہو رہے ہیں۔ اس وقت ایکسپریس وے مانسہرہ فیز ٹو کی حویلیاں سے مانسہرہ تعمیر کا سلسلہ جاری ہے، جہاں مختلف مقامات پر چینی ماہرین ٹنل کے علاوہ روڈ اور پل تعمیر کر رہے ہیں۔ اس سڑک کی زد میں ایبٹ آباد کی بانڈہ سنجیلیاں کی آبادی بھی آ رہی ہے۔ مقامی ذرائع کے مطابق اس سڑک کی تعمیر سے بانڈہ سنجیلیاں کے کم از کم 168 تعمیر شدہ گھر متاثر ہو رہے ہیں، جن میں کم و بیش ایک ہزار افراد رہائش پذیر ہیں۔ مقامی آبادی کے مکنیوں کے مطابق وہ اس سڑک کی تعمیر کیلئے جو سی پیک کا حصہ ہے، ہر قربانی دینے کو تیار ہیں۔ لیکن انتظامیہ اور نیشنل ہائی وے اتھارٹی کے مقامی حکام متاثرین کو جائز معاوضے نہیں دے رہے۔ مقامی آبادیوں کے رہنمائوں مقصود احمد، کونسلر آصف گل، سردار اورنگ زیب، سردار گل حمید، ملک حمیداللہ اور دیگر افراد کا کہنا تھا کہ وہ اس صورت حال پر طویل عرصہ سے مقامی انتظامیہ، این ایچ اے کے افسران اور دیگر ذمہ داران سے مذاکرات کر رہے ہیں اور ان کو اپنے جائز مطالبات کے بارے میں بتا رہے ہیں۔ یہ افسران و ذمہ داران نجی محفلوں میں مطالبات کو جائز بھی مانتے ہیں، مگر اس کے باوجود انہیں تسلیم نہیں کیا گیا۔ طویل ترین مذاکرات کے باوجود کوئی نتیجہ نہ نکلنے سے متاثرین میں مایوسی پھیل رہی ہے۔ ایک سوال پر ان رہنمائوں کا کہنا تھا کہ ’’انتظامیہ اور این ایچ اے کی جانب سے ہمیں بتا دیا گیا ہے کہ وہ مطالبے کے مطابق معاوضہ نہیں دیں گے، جس کے بعد عملاً مذاکرات ختم ہو چکے ہیں۔ اب ہم اپنے جائز مطالبات اعلیٰ حکام تک پہنچانے کیلئے مختلف آیشنز پر غور کر رہے ہیں‘‘۔ بانڈہ سنجیلیاں ایبٹ آباد کے متاثرین کی کمیٹی کے سربراہ مسعود احمد ’’امت‘‘ کو بتایا کہ این ایچ اے (نیشنل ہائی وے اتھارٹی) ایک کنال زمین کا معاوضہ 25 لاکھ روپے اور مکانات کا معاوضہ فی اسکوائر فٹ سات سو سے لے کر اٹھارہ سو روپے تک دے رہا ہے، جو ناقابل قبول ہے۔ مسعود احمد کا دعویٰ تھا کہ اس علاقے میں آخری بار انتقال زمین کے کاغذات جو ان کے پاس موجود ہیں اور جو دوران مذاکرات انتظامیہ اور این ایچ او کو بھی دیئے گئے، اس کے مطابق چھ مرلہ زمین جو بالکل آخری کونے میں تھی، 29 لاکھ روپے میں فروخت ہوئی۔ جبکہ اس علاقے میں زمین کا مارکیٹ ریٹ ساٹھ لاکھ روپے فی کنال ہے۔ مسعود احمد کا کہنا تھا کہ ’’بانڈہ سنجیلیاں ایبٹ آباد شہر کے درمیان میں ہے۔ انتظامیہ اور این ایچ اے کو تجویز دی گئی تھی کہ وہ زمین کی کم ازکم قیمت ساٹھ لاکھ روپے کنال مقرر کرے جو اس وقت مناسب اور مارکیٹ نرخوں سے زائد نہیں تھی۔ مگر یہ تجویز مسترد کردی گئی۔ اسی طرح تعمیر شدہ مکانات کیلئے پہلے ہمارا مطالبہ سرکاری اداروں سی اینڈ ڈبیلو اور دیگر کے نرخوں کے مطابق تین ہزار سے لے کر 3500 روپے اسکوائر فٹ تھا۔ مگر انتظامیہ سے مذاکرات اور سی پیک منصوبے کے مفاد میں ہم نے اس کو 2500 اسکوائر فٹ تک کردیا۔ مگر اس کے باوجود انتظامیہ اور این ایچ اے نے اس پر بھی کوئی پیش رفت نہیں دکھائی اور یہ مطالبہ بھی مسترد کردیا۔ انتظامیہ نے تعمیر شدہ مکانات کا نرخ سات سو سے لے کر اٹھارہ سو روپے فی اسکوائر فٹ تک مقرر کیا، جو انتہائی نامناسب ہے۔ اس کم رقم میں میں متاثرین کیلئے کسی اور جگہ پر زمین اور نیا گھر حاصل کرنا ممکن نہیں۔ اگر انتظامیہ اور این ایچ اے یہ سمجھتی ہے کہ اس نے مناسب نرخ مقرر کئے ہیں تو پھر ان نرخوں میں ہمیں ایبٹ آباد ہی میں دوسرے مقامات پر زمینیں اور مکانات جیسے ہمارے گھر ہیں، تعمیر کرکے دے دے تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔ اور اگر عملی طور پر یہ ممکن نہیں تو پھر ایسے معاوضے مقرر کرنا کرنا زیادتی ہے اور اس کو تسلیم نہیں کیا جائے گا اور احتجاج سمیت ہر حربہ اختیار کیا جائے گا‘‘۔
اس حوالے سے نیشنل ہائی وے اتھارٹی ایبٹ آباد رینج کے ذرائع کا موقف تھا کہ وہ کسی کے ساتھ زیادتی نہیں کر رہے ہیں اور صرف قانون کے مطابق عملدرآمد کیا جا رہا ہے۔ سڑک کے لئے حاصل ہونے والی زمینوں اور مکانات کی قیمتیں سرکاری ادارے سی اینڈ ڈبیلیو سے طلب کی گئی تھیں اور تمام معاوضے اس کی مشاورت سے مقرر کئے گئے ہیں۔ جس میں تمام قانونی تقاضوں کا بھی مکمل طور پر خیال رکھا گیا ہے۔ ایک سوال پر ان ذرائع کا کہنا تھا کہ متاثرین کے مطالبات اعلیٰ حکام تک پہنچا دیئے گئے ہیں۔ وہاں سے جواب آنے کے بعد ہی مزید پیش رفت ممکن ہوسکے گی۔
ادھر اطلاعات کے مطابق سی پیک منصوبے پر التوا کی ایک اور وجہ نیشنل ہائی وے اتھارٹی (این ایچ اے) میں مالی بحران ہے۔ جس کے سبب اتھارٹی ٹھیکداروں کو رقم بھی نہین دے رہی۔ ذرائع کے مطابق چند روز پہلے ای ایچ اے کی جانب سے 5 ارب روپے کے چیکس باؤنس ہونے کے بعد سی پیک کے مختلف منصوبوں پر ٹھیکیداروں نے کام روک دیا ہے۔ یہ پہلی مرتبہ ہے کہ سی پیک منصوبوں کو اس صورت حال کا سامنا ہوا۔ ذرائع کا کہنا تھا کہ اس صورتحال سے نہ صرف سی پیک منصوبے بلکہ تعمیرات سے متعلق صنعتیں اور انجینئر اور مزدوروں کی بڑی افرادی قوت بھی متاثر ہو رہی ہے۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More