قسط نمبر 131
عباس ثاقب
یہ ایک ایسے شخص کی کہانی ہے جس نے نوجوانی کے امنگوں بھرے دور میں اپنی جان خطرے میں ڈال دی۔ صرف اس لئے کہ وطن عزیز پاکستان کو دشمنوں سے محفوظ رکھا جا سکے۔ جمال صاحب کراچی کے قدیم رہائشی ہیں اور ان دنوں گمنامی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ عمر کے آخری حصے میں بصد اصرار اس بات پر آمادہ ہوئے کہ اپنی زندگی کے تہلکہ خیز گوشوں سے پردہ اٹھائیں۔ ان کا اصل نام کچھ اور ہے۔ بعض نا گزیر اسباب کی بنا پر انہیں ’’جمال‘‘ کا فرضی نام دیا گیا ہے۔ اس کہانی کو ڈرامائی شکل دینے کیلئے کچھ زیادہ محنت نہیں کرنی پڑی۔ کیونکہ یہ حقیقی ایڈوینچر کسی سنسنی خیز ناول سے زیادہ دلچسپ ہے۔ جمال صاحب کی کہانی ان لوگوں کیلئے دعوتِ فکر ہے، جنہیں یہ ملک بغیر کسی جد و جہد اور محنت کے ملا اور انہوں نے اس کی قدر کرنے کے بجائے اسی سے شکایات شروع کر دیں۔ امید ہے کہ قسط وار پیش کی جانے والی یہ کہانی ’’امت‘‘ کے خوش نظر قارئین کی پذیرائی حاصل کرے گی۔ (ادارہ)
ہندوستان کی تقسیم کے موقع پر ہجرت کرنے والے بے یار و مددگار اور بے سر و سامان مسلمانوں کے قافلوں پر جنونی ہندوؤں اور سکھوں کے مظالم کی خون رلانے والی داستانیں میں اپنی کم عمری سے سنتا آیا تھا اور ان شیطانی حرکتوں کا ارتکاب کرنے والوں کے خلاف شدید نفرت محسوس ہوتی تھی۔ زندگی کی ہماہمی میں ان دیکھے ظالموں سے نفرت کا جذبہ وقت کے ساتھ ساتھ مدھم پڑتے چلے جانا عین فطری ہے۔ لیکن اسلم کی زبانی ایسے مظالم کا ارتکاب کرنے والے درندے کے بارے میں جان کر اچانک نفرت کا وہ احساس ایک بار پھر جاگ اٹھا۔ میں نے کہا۔ ’’ایسے درندوں کو انسان کہنا انسانیت کی توہین لگتی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ ایسے شرم ناک اعمال رکھنے والا شخص اب خود کو فلاحی کاموں کا علم بردار کہتے نہیں تھکتا ہوگا‘‘۔
اسلم نے دکھی چہرے کے ساتھ اثبات میں سر ہلایا۔ ’’پنجاب کے بعض علاقوں میں ایسے بھیانک مظالم ڈھائے گئے ہیں کہ اس علاقے کی تاریخ پر شرم ناک داغ کے طور پر باقی رہیں گے۔ مٹھو سنگھ نے علاقے کے تھانے دار کو بھی ساتھ ملا رکھا تھا۔ ان دونوں کے گٹھ جوڑ نے پورا علاقہ ان کے لیے شکار کا میدان بن گیا۔ ان کے اشارے پر بد مست سکھ جتھے مسلمان بستیوں پر حملے کرتے، لوٹ کا مال اور جوان و حسین لڑکیاں آپ میں تقسیم کرلی جاتیں اور بچی کھچی خواتین پولیس اور فوج کے افسروں کی درندگی کا نشانہ بننے کے لیے بطور تحفہ بھجوا دی جاتیں‘‘۔
اسلم جیسے جیسے مٹھو سنگھ کے سیاہ کارناموں کی تفصیل بتا رہا تھا، میرے لہو کی تپش بڑھتی جا رہی تھی۔ میری بدلتی دلی کیفیت سے اسلم نے بات آگے بڑھائی۔ ’’ان فسادات میں مسلمان خواتین کو زیادہ تر نفسانی خواہشات کی تسکین کے لیے اغوا کیا گیا تھا۔ لیکن مٹھو سنگھ نے اسے ایک منافع بخش کاروبار کی شکل دے دی۔ وہ اغوا شدہ لڑکیوں کے مالک بننے والے اکثر درندوں سے معاہدہ کر لیتا تھا کہ جی بھر جانے پر وہ لڑکی ایک معمولی قیمت پر اس کے حوالے کر دی جائے گی۔ گربچن کے مطابق اس طرح مٹھو سنگھ نے درندوں کی ہوس کا نشانہ بننے والی تیس سے بھی زائد لڑکیاں اور خواتین خریدی تھیں اور پھر ہنگاموں کا زور ٹوٹنے پر انہیں مختلف شہروں کے جسم فروشی کے اڈوں کو بیچ کر بھاری دام کھرے کرلیے تھے‘‘۔
اسلم گویا اپنی بات ختم کر کے خاموش ہوگیا۔ میں نے گہری سانس لے کر اپنے دل میں اچانک زور پکڑ جانے والے نفرت کے طوفان پر قابو پانے کی کوشش کی اور بظاہر بے تاثر لہجے میں پوچھا۔ ’’یہ خبیث مٹھو سنگھ تو اب بڈھا کھوسٹ ہوچکا ہوگا؟‘‘۔
اس نے نفی میں سر ہلایا۔ ’’نہیں بھیا، بتایا تو ہے تقسیم ہندوستان کے وقت لفٹین تھا۔ زیادہ سے زیادہ پچیس تیس سال کا ہوگا اس زمانے میں۔ اب چالیس پینتالیس عمر ہوگی اس کی!‘‘۔ اچانک اسے کچھ اور یاد آیا۔ ’’گربچن نے بتایا تھا کہ وہ اپنے اشارے پر مسلمان بستیوں پر دھاوا بولنے والے جتھا گیروں کو ہدایت کرتا تھا کہ کم عمر بچیوں کو بھی قتل کرنے کے بجائے اغوا کر کے ساتھ لے آیا کریں۔ وہ ان کے مناسب دام دے کر خرید لے گا۔ ان بچیوں کو وہ اسی عمارت میں پالتا تھا، جس میں وہ خریدی گئی اغوا شدہ خواتین کو محبوس رکھتا تھا۔ اور بلوغت کے قریب پہنچنے والی بچیوں کو بھی بھاری داموں پر فروخت کر دیا کرتا تھا۔ اس عمارت کو اس نے اناتھ آشرم کے طور پر مشہور کر رکھا تھا۔ گربچن سنگھ نے شک ظاہر کیا ہے کہ وہ سماجی اور حیثیت مزید طاقت ور بنانے کے لیے مہاراجا یسوندر سنگھ کو بھی خفیہ طور پر ایسی لڑکیاں بطور تحفہ بھجوایا کرتا تھا‘‘۔
میں نے پوچھا۔ ’’ایسے کالے کرتوتوں کے باوجود یہ شخص عوامی لیڈر بن کر اسمبلی ممبر کے طور پر منتخب ہو گیا؟ کسی نے اس کی اصلیت کی طرف انگلی نہیں اٹھائی؟‘‘۔
میری بات سن کر اس کے چہرے پر ایک عجیب سی مسکراہٹ ابھری، جیسے میرا سوال بچگانہ لگا ہو۔ اس نے ٹھنڈی سانس لے کر کہا۔ ’’بھائی ہم جس دور کی بات کر رہے ہیں، وہ عجیب ہنگامہ خیز اور جنون پرور فضا کا حامل تھا۔ عام لوگوں کے دلوں میں بھی نفرت اور انتقام کی آگ بھڑک اٹھی تھی۔ ایسے منظم گروہوں کی وارداتوں کے علاوہ انفرادی سطح پر بے شمار لوگوں نے کریہہ حرکات کا ارتکاب کیا اور پھر اسے اجتماعی طور پرفراموش کر دیا گیا۔ کیونکہ تاریخ بتاتی ہے کہ فاتحین سے پرسش و گرفت کا دنیا میں کبھی رواج نہیں رہا‘‘۔
میں نے سرسری لہجے میں کہا۔ ’’اسلم بھائی، میں اس سارے معاملے کی مزید تفصیلات جاننا چاہتا ہوں۔ کیا آپ اس گربچن سے میری ملاقات کرواسکتے ہیں؟‘‘۔ وہ میری بات سن کر کچھ چونکا۔ اس کے چہرے پر سوچ کے آثار ابھرے۔ پھر اس نے تذبذب کے ساتھ کہا۔ ’’یار، گربچن سے ملوانا تو کوئی مسئلہ نہیں۔ لیکن کہیں اس سے تمہارے مشن پر کوئی آنچ نہ آجائے‘‘۔
میں نے کہا۔ ’’نہیں، میرا خیال ہے اب میرا مشن اس نازک مرحلے سے آگے نکل چکا ہے۔ ویسے بھی میں احتیاط رکھوں گا کہ اسے میری اصلیت کا ادراک نہ ہو‘‘۔
اس نے کہا۔ ’’ٹھیک ہے، لیکن میں احتیاطاً افتخار صاحب سے مشورہ کروں گا‘‘۔ میں نے اس پر کوئی اعتراض نہیں کیا۔ وہ فلم رول کے ساتھ مجھ سے رخصت ہوگیا۔ میں دل پر چھائی عجیب سی کیفیت کے سبب اس روز گھر پر ہی رہا اور مجھے بار بار مٹھو سنگھ کے بارے میں غیظ و غضب سے بھرپور خیالات ستاتے رہے۔ شام کو میں نے جاکر سچن کی گردن پکڑی اور اسے اچھی طرح پکا کر دیا کہ وہ کل صبح کموڈور نیل کنٹھ کے دہلی بدھارتے ہی یہ ظاہر کرتے ہوئے اس کے دفتر جائے کہ وہ اس کی روانگی سے بے خبر ہے اور پھر ضروری فائلوں کا معائنہ کرنے کا بہانہ کر کے وہیں رک جائے اور کام پورا کر کے ہی واپس آئے، ورنہ اس کی خیر نہیں ہوگی۔
جب اس نے میری ہدایت پر حرف بہ حرف عمل کرنے کا یقین دلا دیا تو میں نے اچانک پوچھا۔ ’’اچھا یہ بتاؤ اس پنچھی، میرا مطلب تمہارے باس کموڈور نیل کنٹھ کا گھر کہاں ہے؟‘‘۔
میری بات سن کر وہ چونکا۔ ’’اس کے گھر سے تم کو کیا لینا دینا ہے؟‘‘۔
میں نے اچانک خوں خوار لہجے میں کہا۔ ’’میں جو پوچھ رہا ہوں، اس کا سیدھا اور صاف جواب دو!‘‘۔
اس کے چہرے پر پژمردگی چھا گئی۔ ’’میرے گھر کے قریب ہی ہے اس کا بنگلا۔ تین فرلانگ کے لگ بھگ فاصلہ ہوگا‘‘۔
میں نے کہا۔ ’’اب بھی تو جواب دیا ناں؟ ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ میں اس کے پاس جاکر تمہاری شکایت لگانے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا۔ کم ازکم اس وقت تک تو نہیں، جب تک تم میری بات چپ چاپ مان رہے ہو۔ اب ذرا یہ بھی بتادو کہ اس کے گھر جانے کے لیے مجھے کون سا راستہ لینا پڑے گا‘‘۔ (جاری ہے)
Next Post