نئے پاکستان میں اکبرایس بابر کی مشکلات شروع

0

محمد زبیر خان
نئے پاکستان میں اکبر ایس بابر کی مشکلات شروع ہوگئیں۔ تحریک انصاف کے باغی رہنما کی بہن کے گھر پر سی ڈی اے اور پولیس اہلکاروں نے دو مرتبہ دھاوا بولا۔ بغیر کسی نوٹس کے انہدامی کارروائی کی کوشش کی گئی۔ پی ٹی آئی کی رکن قومی اسمبلی اور جہانگیر ترین کی ہمشیرہ بھی ساتھ تھیں۔ تحریک انصاف کے خلاف غیر ملکی فنڈنگ لینے کا الزام عائد کرکے الیکشن کمیشن میں کیس دائر کرنے والے تحریک انصاف کے بانی رکن اکبر ایس بابر کا کہنا ہے کہ اس کیس سے دستبردار کرانے کیلئے ان پر دباؤ ڈالا جارہا ہے اور غیر قانونی طور پر سرکاری اختیارات استعمال کرکے ان کی بہن کو ہراساں کیا گیا ہے۔ اکبر ایس بابر کا کہنا ہے کہ ان کے خاندان کو ہراساں کرنے والی پی ٹی آئی کی رکن قومی اسمبلی نفیسہ خٹک، وزیر مملکت شہریار آفریدی اور عمران خان کے خلاف وہ قانونی کارروائی کرنے جارہے ہیں اور اس حوالے سے قانون دانوں سے مشاورت کررہے ہیں۔ ان کے پاس ہراساںکرنے کے ٹھوس شواہد موجود ہیں۔
اکبر ایس بابر نے ’’امت‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ان کی جانب سے تحریک انصاف کے خلاف الیکشن کمیشن میں دائر کردہ فارن فنڈنگ کیس بالکل آخری مراحل میں ہے اور توقع ہے کہ آئندہ کچھ عرصے میں اس کیس کا فیصلہ ہوجائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’محسوس ہوتا ہے کہ اس کیس کی وجہ سے تحریک انصاف بوکھلا چکی ہے اور اوچھے ہتھکھنڈوں پر اتر آئی ہے۔ گزشتہ دنوں دو مرتبہ مجھے ہراساں کرنے کی عرض سے اسلام آباد میں میری بہن کے گھر پر حملہ کیا گیا، لیکن ان اوچھے ہتھکنڈوں سے مجھے خوف زدہ نہیں کیا جاسکتا اور میں غیر ملکی فنڈنگ کیس کی پیروی جاری رکھوں گا۔‘‘ اکبر ایس بابر کا کہنا تھا کہ واقعہ کے خلاف شہریار خان آفریدی، نفیسہ خٹک اور عمران خان کے خلاف قانون چارہ جوئی کی جائے گی اور اس کیلئے قانون دانوں سے مشاورت جاری ہے۔ جبکہ اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کو بھی خط لکھا ہے کہ وہ اسمبلی کے کسٹوڈین ہیں اور اپنے ممبران قومی اسمبلی بالخصوص حکومتی ارکان اسمبلی کو آئین اور قانون کا پابند بنائیں اور انہیں، لوگوں کی نجی املاک میں بغیر کسی وجہ کے داخل ہونے سے روکا جائے۔‘‘ اکبر ایس بابر نے بتایا کہ ’’پہلی مرتبہ 27 ستمبر کو واقعہ پیش آیا، جب میری بہن نے انتہائی پریشانی کے عالم میں مجھے ٹیلی فون کیا۔ میں ایف ٹین اسلام آباد میں واقع ان کی رہائش گاہ پہنچا تو سی ڈی اے کے اہلکار جن میں ایک ڈپٹی ڈائریکٹر اور ایک انسپکٹر شامل تھا، گھر کی چار دیواری مسمار کررہے تھے۔ میں نے ان سے کہا کہ کیا ہورہا ہے۔ تو ان کا کہنا تھا کہ انہیں اعلیٰ حکام سے ہدایت ملی ہے کہ اس گھر کے خلاف کارروائی کی جائے۔ میں نے ان سے کارروائی کی وجہ پوچھی تو وہ کوئی وجہ نہیں بتا سکے۔ پھر میں نے سی ڈی اے افسران سے ڈیمالیشن کی کارروائی سے پہلے دیئے جانے والے نوٹس کے بارے میں استفسار کیا تو وہ کوئی جواب نہیں دے سکے۔ جب میں نے ان کے اس اقدام کیخلاف قانونی کارروائی کرنے کا کہا تو وہ موقع سے فوراً چلے گئے۔‘‘ اکبر ایس بابر کا کہنا تھا کہ ’’اس پہلے واقعہ کو میں نے نظرانداز کیا، مگر گزشتہ روز ایک بار پھر میری بہن نے انتہائی پریشانی کے عالم میں مجھے فون کیا۔ بہن نے بتایا کہ اس وقت گھر میں پولیس والے اور دو خواتین موجود ہیں اور گھر میں توڑ پھوڑ کی تیاری کررہے ہیں۔ یہ سن کر میں ایک بار پھر بھاگم بھاگ موقع پر پہنچا تو دیکھا کہ تحریک انصاف کی رکن قومی اسمبلی نفیسہ خٹک اور جہانگیر ترین کی بہن سیمی ایزدی جو اسلام آباد میں کسی یونین کونسل کی نائب چیئرمین ہیں، موجود تھیں اور ان کے ساتھ پولیس بھی تھی۔ وہ لوگ بہن کے گھر کی دیواروں کی پیمائش کررہے تھے۔ میں نے سب سے پہلے انہیں گھر سے باہر نکلنے کو کہا۔ پھر میں نے دونوں خواتین سے پوچھا کہ وہ یہاں کیا کررہی ہیں اور کس قانون کے تحت میری بہن کے گھر میں داخل ہوئی ہیں۔ تو ان کا جواب تھا کہ ہم سوشل ورکر ہیں اور شکایت پر وزٹ کررہی تھیں۔‘‘ اکبر ایس بابر کا کہنا تھا کہ میں نے پولیس کے اہلکاروں سے پوچھا کہ کس قانون کے تحت کارروائی کررہے ہیں اور ہمارے خلاف کیا ثبوت موجود ہے۔ تو پولیس انسپکٹر کی قیادت میں آنے والی پولیس ٹیم تو فوراً موقع سے چلی گئی جبکہ دونوں خواتین یہی کہتی رہیں کہ ہم تو شکایت پر وزٹ کررہے ہیں۔ پھر بعد میں وہ بھی وہاں سے چلی گئی تھیں۔‘‘ اکبر ایس بابر نے کہا کہ تحریک انصاف کی حکومت انتقامی کارروائی کررہی ہے۔ لیکن ان ہتھکنڈوں سے انہیں جھکایا نہیں جاسکتا۔ انہوں نے اس سلسلے میں قومی اسمبلی کے اسپیکر اسد قیصر کو بھی خط لکھ دیا ہے اور قانونی کارروائی کیلئے وکلا سے بھی مشاورت کررہے ہیں۔
’’امت‘‘ نے اس واقعہ کے حوالے سے موقف جاننے کیلئے نفسیہ خٹک اور سی ڈی اے کے ترجمان سے رابطہ کیا، لیکن دونوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More