احمد نجیب زادے
انڈونیشیا میں سونامی جہاں ہزاروں مقامی افراد اور سیاحوں کیلئے موت کا پیغام لایا، وہیں یہ سینکڑوں قیدیوں کیلئے آزادی کا پروانہ بھی بن گیا۔ زلزلے کے شدید جھٹکوں سے جیلوں کی دیواریں اور فصیلیں منہدم ہوگئیں اور اندر موجود قیدیوں کو فرار ہونے کا موقع مل گیا۔ انڈونیشی وزارت جیل خانہ جات نے بتایا ہے کہ تین جیلوں سے فرار ہونے والے قیدیوں کی تعداد 1200 ہے، جبکہ باقی ماندہ قیدیوں کی ہلاکتیں رونما ہوچکی ہیں۔ میڈیا سے گفتگو میں متعلقہ انڈونیشی حکام نے انکشاف کیا ہے کہ سونامی سے متاثرہ علاقوں میں امدادی اداروں اور رضاکاروں کے ساتھ خفیہ پولیس اور سیکورٹی اداروں کے پانچ ہزار کے لگ بھگ اہلکاروں کو بھی تعینات کیا گیا ہے جو، پالو شہر کے بڑے قید خانہ سمیت کم از کم تین جیلوں سے فرار ہوجانے والے ایک ہزار سے زیادہ ہائی پروفائل قیدیوں کی تلاش کررہے ہیں جو سونامی کی آمد پر جیل کی دیواریں گر جانے کے بعد فرار ہونے میںکامیاب ہوچکے ہیں۔ حکام کے مطابق سیکورٹی اور خفیہ اداروں کے اہلکاروں کی تعیناتی کا مقصد ان مفرور مجرمان کی دوسرے شہروں اور ریاستوں تک رسائی کو روکنا ہے۔ وزارت انصاف کی ترجمان سری پوگو اوتامی نے بتایا ہے کہ دو جیلوں ڈونگالا اور پالو پریژن سے 1200 قیدیوں کے فرار کی تصدیق ہوچکی ہے اور باقی ماندہ قیدیوں اور جیلوں کا ریکارڈ جمع کرکے تصدیق کیا جارہا ہے ۔ ترجمان سری پوگو اوتامی کا کہنا ہے کہ ڈونگالا جیل سے 343 قیدی فرار ہوئے ہیں اور یہاں قیدیوں کی ہلاکتوں کا تناسب صفر ہے، کیونکہ زلزلہ اور اس کے بعد سونامی آتے ہی قیدیوں نے منظم حکمت عملی سے جیل کے مختلف حصوں میں آگ لگا دی تھی اور فرار ہونے میں کامیاب رہے۔ جبکہ دوسری جیل پالو سے 580 قیدیوں کے فرار ہونے کی تصدیق ہوئی ہے۔ روسی جریدے پراودا نے ایک چشم کشا رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ انڈونیشی ریاست سالوویسی کے مردم خیز شہر پالو میں قیامت خیز سونامی طوفان سے کچھ قبل زلزلہ بھی محسوس کیا گیا تھا، جس کی وجہ سے پالو میں موجود انڈونیشیا کی ایک بڑی جیل میں قید دو ہزارسے زیادہ قید ی لاپتا ہیں، لیکن مقامی حکام کا ماننا ہے کہ کئی سو کے لگ بھگ انڈونیشی قیدی اس تباہی میں ہلاک ہوئے ہیں اور 100 سے زیادہ گارڈز کی لاشیں پالو شہر کے بندی خانہ کے اطراف اور ملبہ سے مل چکی ہیں، لیکن اب بھی ایک ہزار دو سو سے زائد ایسے قیدی غائب ہیں اور ان کی لاشیں بھی نہیں مل سکی ہیں جو اس جیل کے اندر ہائی پروفائل جرائم کی وجہ سے قید رکھے گئے تھے۔ ان قیدیوں کے بارے میں حکام کا ماننا ہے کہ یہ وہی قیدی ہیں جو سنگین جرائم کی وارداتوں میں ملوث تھے اور عدالتوں کی جانب سے دیئے گئے احکامات کے تحت ان کو جیلوں میں بند کیا گیا تھا۔ معلقہ حکام اور سیکورٹی افسران نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ ایسے ہائی پروفائل قیدی شہر سے نکل کر دیگر شہروں اور ریاستوں کا رُخ کرسکتے ہیں، اس لئے مرکزی نظام سے ان قیدیوں کا ڈیٹا اور تصاویر مختلف پڑوسی ریاستوں اور شہروں کو بھیجا جاچکا ہے اور حکام کو کہا گیا ہے کہ سونامی کے دوران فرار ہونے والے تمام قیدیوں کو ہر قیمت پر گرفتارکرکے جیلوں میں قید کیا جائے۔ ہانگ کانگ کے چینل نیوز ایشیا نے سونامی کی تباہ کاریوں کی خبر دیتے ہوئے بتایا ہے کہ گزشت شب پالو اور اس کے اطراف ہلاکتوں کی سرکاری تعداد 3,000 بتائی گئی تھی اور ملبہ سے مزید لاشیں نکل رہی تھیں، جس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ سونامی اس بار بھی انڈونیشیا میں مخصوص علاقے تک محدود رہا لیکن اس نے بہت زیادہ تباہی مچائی ہے۔ انڈونیشی جریدے جکارتہ پوسٹ کا کہنا ہے کہ وزیر جیل خانہ جات اور ڈائریکٹوریٹس جنرل آف کوریکشنز کے ڈائریکٹر بیلو وحیدو نے بتایا ہے کہ امدادی اداروں اور کارکنان نے بتایا ہے کہ جب وہ پالو شہر میں داخل ہوئے تو دیگر مقامات کی طرح جیل خانہ کو بھی تباہی کا مرکز پایا اور یہاں کئی دہائیوں سے ایستادہ جیل کھنڈر بنی ہوئی تھی اور بیرونی حفاظتی دیواریں زمیں بوس ہوچکی تھیں اور جیل قید ہزاروں قیدیوں کاکوئی اتا پتا نہیں تھا، جس کا واضح مطلب یہی تھی کہ وہ سونامی کی آمد سے آزادی کا پیغام ملتے ہی فرار ہوچکے ہیں، لیکن اطراف میں کی جانے والی امدادی سرگرمیوں کے نتیجہ میں یہ عقدہ کھلا کہ تمام قیدی نا تو فرار ہوئے ہیں اور نا ہی تمام قیدی مرچکے ہیں، بلکہ ان میں ایک خاص تعداد میں قیدی جیل خانہ کی عمارات کے ملبہ تے دبے ہوئے پائے گئے تھے، لیکن ایک بڑی تعداد میں قیدیوں کا کوئی اتا پتا نہیں چلا ہے، جس پر مرکزی حکومت نے دار الحکومت میں محفوظ پالو شہر کے جیل خانوں کے قیدیوں کا ڈیٹا نکال کر متعلقہ سیکورٹی حکام کو دے دیا ہے کہ وہ ان کے فرار کو ناکام بنا کر دوبارہ گرفت میں لائیں۔ واضح رہے کہ انڈونیشی حکام نے عالمی امدادی اداروں اور حکومتوں کی جانب سے دی جانے والی امداد کو قبول کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اس سلسلے میں عالمی امدادی اداروں کو کہا گیا ہے کہ وہ متاثرہ علاقوں تک رسائی کیلئے ڈیزاسٹر مینجمنٹ حکام سے رابطہ کریں۔ واضح رہے کہ پالیو شہر کے بیشتر علاقوں میں بجلی کی فراہمی کا نظام معطل ہے اور ملبہ سے نکالی جانے والی سینکڑوں لاشوں کو تعفن اور وبائی بیماریوں کے پھیلائو سے روکنے کیلئے اجتماعی قبروں میں دفن کردیا گیا ہے۔
Next Post